روہیل کھنڈ میں متحدہ مسلم ووٹنگ ہی بی جے پی کو ہرا سکتی ہے... ظفرآغا

کل یعنی 14 فروری کو روہیل کھنڈ کے مسلم ووٹروں کے کاندھوں پر بڑی ذمہ داری ہے۔ اتر پردیش کے اس چناوی علاقہ میں اگر مسلم ووٹروں نے متحدہ ووٹنگ کر دی تو یو پی میں بی جے پی کا چناؤ جیتنا مشکل ہو سکتا ہے۔

مسلم ووٹر / قومی آواز / وپن
مسلم ووٹر / قومی آواز / وپن
user

ظفر آغا

کل یعنی 14 فروری کو اتر پردیش کے روہیل کھنڈ علاقے میں پولنگ ہونے جا رہی ہے۔ اتر پردیش میں پہلے مرحلہ کی پولنگ کے بعد بی جے پی مخالف حلقوں میں سب کی نگاہیں روہیل کھنڈ کے علاقے پر لگی ہوئیں ہیں۔ اس کا سب سے پہلا سبب یہ ہے کہ جاٹ لینڈ یعنی مغربی اتر پردیش کے علاقوں میں جس طرح جاٹوں اور مسلم ووٹروں نے متحد ہو کر بی جے پی کے خلاف ووٹ ڈالا، اس سے بی جے پی کو زبردست نقصان ہوتا نظر آ رہا ہے۔ سن 2017 کے اسمبلی چناؤ میں بی جے پی اتر پردیش کی پہلے مرحلہ کی 58 سیٹوں میں سے 53 پر کامیاب ہوئی تھی۔ غیر جانبدار مبصرین کا خیال ہے کہ اس بار اس علاقے میں بی جے پی کو پندرہ سیٹیں بھی ملنی مشکل ہوں گی۔ اگر 14 فروری کو ہونے جا رہی ووٹنگ کا طرز کچھ ایسا ہی رہا جیسا کہ پہلے مرحلہ کی ووٹنگ میں تھا تو پھر بی جے پی کے لئے یوپی جیت پانا بہت مشکل ہو جائے گا اور ایسا روہیل کھنڈ کے علاقہ میں ہونا ممکن بھی ہے لیکن اس کا سارا دارومدار اس علاقے کے مسلم ووٹروں پر منحصر ہے۔ وہ کیوں!

روہیل کھنڈ اتر پردیش کا وہ علاقہ ہے جہاں مسلم ووٹروں کی تعداد اور تناسب پورے صوبہ میں سب سے زیادہ ہے۔ کچھ سیٹیں تو ایسی ہیں جہاں پر مسلم ووٹروں کا تناسب پچاس فیصد تک ہے۔ اس علاقہ کی 55 سیٹوں میں کہیں بھی مسلم ووٹر 30-35 فیصد سے کم نہیں ہے۔ رامپور، مرادآباد، سنبھل، دیوبند، سہارنپور اور امروہہ جیسے شہروں میں اگر مسلم ووٹر متحدہ ووٹنگ کریں تو بی جے پی کو روہیل کھنڈ میں بھی بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ اور اگر مغربی اضلاع کے بعد روہیل کھنڈ میں بھی وہی طرز ووٹنگ رہا جو جاٹ لینڈ میں تھا تو پھر بی جے پی کی شکست یقینی ہو سکتی ہے۔


لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب روہیل کھنڈ کا مسلم ووٹر عقل مندی سے متحد ہو کر اسی پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالے جو بی جے پی کو ہرانے کی حیثت میں ہو۔ سن 2017 کے اسمبلی چناؤ میں اس علاقہ میں مسلم ووٹر تقسیم ہو گئے تھے، اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ پچھلی بار یہاں 55 میں سے 38 سیٹیں بی جے پی کو ملی تھیں۔ اگر اس بار بھی یہی غلطی ہوئی تو بی جے پی پھر کامیاب ہو سکتی ہے۔ یاد رکھیے جمہوری نظام میں کسی بھی سماجی گروہ کی طاقت اس کی متحدہ ووٹنگ پاور ہی ہوتی ہے۔ اگر کوئی گروہ آپس میں بٹ جاتا ہے تو پھر وہ اپنے مفاد کا تحفظ نہیں کر پاتا ہے۔ پچھلی بار اتر پردیش میں مسلم ووٹ تقریباً پورے صوبہ میں بکھر گیا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم آبادی کو پانچ برس تک یوگی حکومت کو بھگتنا پڑا۔

سوال یہ ہے کہ ووٹوں کو مختلف پارٹیوں کے درمیان بٹنے سے روکا کیسے جا سکتا ہے! ووٹوں کی تقسیم دو ہی صورتوں میں ہوتی ہے۔ سب سے پہلے اگر ووٹنگ عقل مندی کے بجائے جذبات کے تحت ہوتی ہے تو پھر ووٹ بٹ جاتا ہے۔ مثلاً کسی حلقے سے سماجوادی پارٹی سے ایک ہندو نمائندہ چناؤ لڑ رہا ہے اور اس کے مقابلہ پر مان لیجئے بہوجن سماج پارٹی سے ایک مسلم نمائندہ لڑ رہا ہے تو جذبات کے تحت آدھے مسلم ووٹر بہوجن سماج پارٹی اور آدھے سماجوادی پارٹی میں بٹ گئے اور اسی بٹوارے سے بی جے پی چناؤ جیت سکتی ہے۔ دراصل پچھلی بار روہیل کھنڈ میں یہی ہوا تھا جس کا فائدہ بی جے پی کو ہو گیا۔ یعنی ووٹر ہندو–مسلمان کے نام پر نہیں بلکہ کون بی جے پی کو ہرا سکتا ہے اس حکمت عملی کے تحت ووٹ ڈالے تبھی بی جے پی کی شکست ممکن ہو سکتی ہے۔ اویسی صاحب کی جذباتی سیاست کے دام میں پھنسے بغیر سبھی لوگ اسی پارٹی کو ووٹ ڈالیں جو بی جے پی کو ہرانے کی حیثیت میں ہو۔


مسلم ووٹروں سے اکثر ایک غلطی اور ہوتی ہے کہ وہ اکثر علماء کی بات میں پھنس کر اپنا ووٹ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ علما کی رائے سے ڈال دیتے ہیں۔ یاد رکھئے سیاست یعنی چناؤ دینی عمل نہیں بلکہ ووٹروں کے بنیاوی مفاد کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ اس لئے چناؤ میں علماء کی رائے کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ چناؤ کوئی شرعی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اس لئے علماء عموماً یا تو اس معاملہ میں صحیح رائے نہیں دے پاتے ہیں یا اکثر سودے بازی کرکے غلط رائے دے دیتے ہیں۔ اس لئے ووٹ اپنی عقل سے، خود فیصلہ لے کر ڈالئے اور علماء کے دباؤ میں اپنا قیمتی ووٹ مت ڈالیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق پچھلی بار سن 2017 میں روہیل کھنڈ میں علماء کے ایک گروہ کی گمراہ کن رائے کے سبب مسلم ووٹ سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی کے بیچ بٹ گیا اور اس طرح بی جے پی کو زیادہ تر سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ یہ غلطی ہر گز نہیں ہونی چاہئے۔ اگر علماء کی رائے مسلم مفاد میں نہیں ہے تو اس کو قطعاً خاطر میں نہیں لانا چاہئے۔ یعنی ووٹ ہوش مندی سے ڈالیں اور کسی کے بہکاوے میں ہرگز نہیں آئیں۔

کل یعنی 14 فروری کو روہیل کھنڈ کے مسلم ووٹروں کے کاندھوں پر بڑی ذمہ داری ہے۔ اتر پردیش کے اس چناوی علاقہ میں اگر مسلم ووٹروں نے متحدہ ووٹنگ کر دی تو یو پی میں بی جے پی کا چناؤ جیتنا مشکل ہو سکتا۔ اس لئے متحد رہئے اور بی جے پی کو شکست دیجئے۔ اور اگر ذرا بھی غلطی ہوئی تو پھر پانچ برس بی جے پی حکومت کی پریشانیاں بھگتنے کو تیار رہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Feb 2022, 4:11 PM
/* */