یوپی میں بی جے پی کو شکست کا سامنا!... ظفر آغا

سیاسی مبصرین کے مطابق مظفر نگر، شاملی اور علی گڑھ جیسے اضلاع جو بی جے پی کے قلعہ مانے جاتے تھے ان میں بھی بی جے پی کو ایک یا دو سیٹیں جیتنے کے لالے پڑ گئے۔

تصویر قومی آواز/ویپن
تصویر قومی آواز/ویپن
user

ظفر آغا

کل یعنی 10 فروری کو اتر پردیش اسمبلی چناؤ کے پہلے راؤنڈ میں ہونے والی پولنگ کے بعد جو خبریں مل رہی ہیں، اس کو سن کر صرف میر تقی میر کا یہ مصرع یاد آ رہا ہے- ’الٹی ہو گئی سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘۔ جی ہاں، اب یہ بات بالکل واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اتر پردیش چناؤ میں بی جے پی کی ہر سیاسی چال ناکام ہوتی جا رہی ہے۔ بی جے پی کے پاس محض ایک ہی حربہ ہے جو وہ ہر چناؤ میں استعمال کرتی ہے اور وہ ہے ہندو-مسلم کارڈ۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ نریندر مودی اس ہندو-مسلم سیاست کے بادشاہ ہیں۔ سنہ 2002 میں گجرات فسادات کے بعد سے وہ اس کارڈ کا بخوبی استعمال کر اپنی پارٹی کو چناؤ جتاتے چلے آ رہے ہیں۔ چنانچہ سنہ 2022 کے حالیہ اسمبلی چناؤ میں بھی انھوں نے اسی ہندو-مسلم کارڈ سے شروعات کی۔ جس طرح کاشی کوریڈور کے افتتاح کے وقت مودی نے مانند شہنشاہ ٹی وی کے ذریعہ یہ اعلان کیا کہ ’’جب جب اس ملک میں کوئی اورنگزیب پیدا ہوا، تب تب اس کا جواب دینے ایک شیواجی نے جنم لیا‘‘، تو یہ صاف ظاہر ہو گیا تھا کہ یوپی میں بھی مودی ہندو-مسلم کارڈ کا استعمال کریں گے۔ اور ہوا بھی وہی۔ کبھی گروگرم میں جمعہ کی نماز پر پارکوں میں پابندی، کبھی دھرم سنسد کے ذریعہ مسلمانوں کی نسل کشی کا اعلان تو کبھی بلی-سلی ایپ کے ذریعہ مسلم لڑکیوں کی نیلامی۔ اور آخر کار حجاب کی آڑ میں ایک نیا ہنگامہ۔ لب و لباب یہ کہ اتر پردیش جیتنے کے لیے مودی کی قیادت میں بی جے پی نے ہندو-مسلم کارڈ استعمال کر ہر ممکن کوشش کر لی۔ لیکن یوپی کی جاٹ بیلٹ سے جو خبریں مل رہی ہیں ان کے مطابق اس علاقہ میں ووٹر نے ہندتوا سیاست کا قلعہ قمع کر دیا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق مظفر نگر، شاملی اور علی گڑھ جیسے اضلاع جو بی جے پی کے قلعہ مانے جاتے تھے ان میں بھی بی جے پی کو ایک یا دو سیٹیں جیتنے کے لالے پڑ گئے۔

یوں تو 10 مارچ کو ووٹوں کی گنتی کے بعد ہی یہ طے ہوگا کہ اتر پردیش اسمبلی چناؤ میں جیت کس کی ہوئی، لیکن کچھ چناؤ ایسے ہوتے ہیں کہ جب پولنگ سے قبل اور پولنگ کے روز ہی یہ صاف نظر آنے لگتا ہے کہ چناؤ میں کون ہار اور کون جیت رہا ہے۔ مثلاً سنہ 1977 میں ہر کسی کو پولنگ سے قبل ہی یہ دکھائی دے رہا تھا کہ کانگریس چناؤ ہار رہی ہے۔ پھر سنہ 1989 میں وی پی سنگھ کی قیادت میں جنتا پارٹی کی جیت پہلے سے دکھائی پڑ رہی تھی۔ ویسے ہی اس بار یوپی چناؤ میں بی جے پی کی ہار صاف نظر آنے لگی تھی۔ اس کا پہلا اشارہ تب ملا جب یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ اپنے گاؤں سراتھو چناوی دورے پر گئے اور برہم مجمع نے ان کو گھیر لیا۔ آخر پولیس بمشکل ان کو باعزت کسی طرح نکال کر لائی۔ اس قسم کے واقعات درجنوں جگہوں پر بی جے پی کے نمائندوں کے ساتھ پیش آئے۔ بی جے پی کو اندازہ ہو گیا کہ حالات خراب ہیں اور پارٹی نے ہندو-مسلم کارڈ کا شد و مد کے ساتھ استعمال شروع کر دیا۔


لیکن جب سے بابری مسجد-رام مندر قضیہ کھڑا ہوا ہے تب سے اب تک پہلی بار اتر پردیش کے کسانوں نے پہلی بار یہ جرأت کی اور کھڑے ہو کر کھل کر اس نفرت کی سیاست کا مقابلہ کیا۔ اور اس کا سہرا کسان لیڈر راکیش ٹکیت کے سر جاتا ہے۔ انھوں نے تقریباً دو ماہ قبل کسان پنچایت میں اپنے پلیٹ فارم سے اللہ اکبر اور ہرہر مہادیو کا نعرہ لگوا کر ہندو-مسلم ایکتا کی تحریک شروع کی۔ اس کی قیادت میں مغربی اتر پردیش میں گھر گھر جا کر کسانوں نے ووٹر کو سمجھایا کہ ہندو-مسلم نفاق دراصل دونوں کو لڑوا کر بی جے پی کا چناؤ جیتنے کا حربہ ہے اور ووٹرس اس کے شکار نہ ہوں۔ دیکھتے دیکھتے کسانوں کی یہ تحریک عوامی تحریک بن گئی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ 10 فروری کو ہونے والے چناؤ میں بی جے پی کو ہار کا سامنا ہے۔ اور یہ ہندوتوا سیاست کی سب سے بڑی شکست ہے کہ خود ہندو کھڑا ہو کر ہندو-مسلم کو لڑانے کی سیاست کا مقابلہ کر رہا ہے۔

حالانکہ ابھی اتر پردیش میں محض 58 سیٹوں کے لیے پولنگ ہوئی ہے۔ ابھی صوبہ میں چھ راؤنڈ پولنگ باقی ہے۔ لیکن میں اپنے چار دہائیوں کے صحافتی تجربہ کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس بار بی جے پی کو اتر پردیش چناؤ میں زبردست ہار کا سامنا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ صوبہ میں ہندو کی آنکھ کھل گئی ہے۔ مودی کی وہ حکمت عملی جس کے ذریعہ وہ ہندو ووٹر کے دلوں میں مسلم منافرت پیدا کر ووٹر کی آنکھیں بند کر دیتے تھے اور وہ اصل مسائل بھول کر ہندو مفاد میں بی جے پی کو ووٹ دے دیتا تھا، وہ حربہ ناکام ہو گیا ہے۔ یوپی کا ووٹر اس بار مسائل پر ووٹ ڈال رہا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں مودی اور یوگی حکومتوں نے جس طرح عام اور غریب انسان کی زندگی حرام کر دی وہ اس کو اب صاف نظر آ رہا ہے۔ کووڈ وبا میں جس طرح یوپی میں ہزاروں لوگ بے موت مارے گئے اس کو وہ یاد ہے۔ جس طرح لاک ڈاؤن کے بعد ہزاروں میل چل کر لوگ اپنے گاؤں پہنچے اور مودی حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی، اس کو وہ بھی یاد ہے۔ لاکھوں غریب جس طرح ابھی تک بے روزگاری کا شکار ہے، ووٹر یہ بھی نہیں بھولا ہے۔ ہندوتوا سیاست کے سبب جس طرح یوگی کے حکم سے گائے بھینس نے غریبوں کے کھیت روندے ہیں، ووٹر وہ پریشانی بھی نہیں بھولا ہے۔ پٹرول کے آسمان چھوتے دام اور کمر توڑ مہنگائی کی مار بھی اس کو یاد ہے۔ دلت بیٹی کی جس طرح ہاتھرس میں آبرو ریزی ہوئی اور قتل ہوا اس کو وہ بھی بخوبی یاد ہے۔ کانپور کے برہمن دبنگ کو یوگی پولیس نے جس طرح فرضی انکاؤنٹر میں بے موت مارا وہ بھی ووٹر کے ذہنوں میں نقش ہے۔ سماج سیوکوں اور صحافیوں کو آواز اٹھانے پر جس طرح جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ووٹر وہ بھی نہیں بھولا ہے۔


اس کا سبب یہ ہے کہ ان چناؤ میں ووٹر ہندوتوا سیاست کے نشے میں نہیں ہے۔ ان چناؤ کی سب سے بڑی کامیابی ہی یہی ہے کہ اس چناؤ میں ہندو-مسلم ایکتا کا ڈنکا بج رہا ہے۔ اور جب تک یہ ڈنکا بجتا رہے گا تب تک کیا یوگی اور کیا مودی، کسی بھی ہندوتوادی کی سیاست کامیاب نہیں ہوگی۔ اسی لیے ہر ذی ہوش ہندو اور مسلمان کو شہر شہر، گاؤں گاؤں، محلے محلے اور گھر گھر مغربی اتر پردیش سے سبق سیکھ کر یوپی کی آخری راؤنڈ پولنگ تک ہندو-مسلم ایکتا کا پرچم بلند رکھنا چاہیے اور ان چناؤ میں نفرت کی سیاست کو شکست دینی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 Feb 2022, 3:11 PM