لوک سبھا انتخاب میں کامیابی کے لیے اپوزیشن ناممکن کو ممکن بنانے کا ہنر مودی سے سیکھے... عبیداللہ ناصر

مودی محض سیاستداں نہیں، ہندو احیا پسندوں کے لیے ’کلٹ فیگر‘ بن چکے ہیں، انھیں بھگوان وشنو کا اوتار مان لیا گیا ہے، ان کو سیاسی میدان میں شکست دینے کے لیے عوام کے ضمیروں پر دستک دینی ہوگی۔

<div class="paragraphs"><p> ووٹ ڈالنے کے لیے قطار میں کھڑے ووٹرس / یو این آئی</p></div>

ووٹ ڈالنے کے لیے قطار میں کھڑے ووٹرس / یو این آئی

user

عبیداللہ ناصر

پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج نے سبھی سیاسی پنڈتوں، سیاسی مبصروں، سیفالوجسٹوں اور تجربہ کار و معتبر صحافیوں کو ہی نہیں سٹہ بازار کے دھرندھروں کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے۔ کیونکہ ان میں سے کسی نے بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس شاندار کامیابی کا اندازہ نہیں کیا تھا۔ ایگزٹ پول کے نتائج سامنے آنے کے بعد بھی ایک بڑے چینل کے ذمہ دار اور معتبر رپورٹر نے مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی کامیابی پر شک ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں گاؤں گاؤں گھوم کر آیا ہوں، عام لوگوں سے بات چیت کی ہے اور ان میں سے کسی نے بھی ماما کی واپسی کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ میرے بھتیجے نے اندور سے بتایا کہ اس کا ٹیکسی ڈرائیور کہہ رہا ہے کہ ماما تو مامی کے پاس گئے، مگر جب نتیجہ سامنے آیا تو لوگوں پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ نہ صرف بی جے پی نے چوتھی بار واپسی کی بلکہ شاندار کامیابی حاصل کی۔

اسی طرح چھتیس گڑھ میں کانگریس نے گنتی کے کئی کئی راؤنڈ تک سبقت برقرار رکھی لیکن فائنل تک پہنچتے پہنچتے ہار گئی۔ یہاں کسی نے بھی کانگریس کی شکست کی امید نہیں کی تھی۔ راجستھان میں اگرچہ ریکارڈ ہی دوہرایا گیا ہے کیونکہ آج تک وہاں کوئی بھی حکومت دوسری بار واپس نہیں آئی ہے۔ مگر اس بار لگتا تھا کہ یہ ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔ بی جے پی کی یہاں کمزوری کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ مودی کو خوشامد کر کے وسندھرا راجے سندھیا کو انتخابی مہم میں شامل کرنا پڑا تھا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس کامیابی کا پورا کریڈٹ وزیر اعظم نریندر مودی کو جاتا ہے، کیونکہ پارٹی نے تینوں ریاستوں میں کسی کو بھی بطور وزیر اعلی نہیں پیش کیا تھا۔ یہاں تک کہ مدھیہ پردیش میں بھی کبھی نہیں کہا کہ شیوراج چوہان ہی پھر وزیر اعلی ہوں گے۔ انتخابی پوسٹروں پر بھی ان کا چہرہ غائب تھا۔ چھتیس گڑھ میں بی جے پی کا سب سے اہم چہرہ سابق وزیر اعلی ڈاکٹر رمن سنگھ ہیں مگر وہ بھی بطور وزیر اعلی نہیں سامنے لائے گئے تھے۔ پوری انتخابی مہم مودی کے ارد گرد ہی تھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اب وہ جسے چاہیں گے وزیر اعلی نامزد کر دیں گے۔ وزیر اعظم کے طور پر اپوزیشن کا چہرہ کون ہوگا، یہ سوال بار بار پوچھنے والی میڈیا نے بی جے پی سے ایک بار بھی یہ سوال نہیں کیا تھا کہ ان ریاستوں میں اس کا وزیر اعلی کون ہوگا۔


ویسے کانگریس کو تلنگانہ میں شاندار کامیابی ملی ہے۔ کرناٹک کے بعد تلنگانہ میں ملی کامیابی اس کے جنوبی ہند میں مضبوط ہونے کی نشانی ہے۔ دو ریاستیں راجستھان اور چھتیس گڑھ کھونے کے بعد ایک نئی ریاست اس کے حصے میں آ گئی اور اس کے آنسو کسی حد تک کم ہو گئے۔ لیکن ہندی بیلٹ کی تین اہم ریاستوں میں اس کی شکست فاش سے 2024 کے پارلیمانی الیکشن کے لیے اس کی پوزیشن کمزور ہو گئی ہے۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کی محنت پر پانی پھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہی نہیں ذات پر مبنی مردم شماری کے ایشو کو راہل گاندھی نے جس شدت سے اٹھایا اور جو طبقہ اس کا سب سے بڑا مستفید ہوتا اسی نے اپنے ہی طبقہ کے یعنی پسماندہ طبقہ کے وزیر اعلی اشوک گہلوت اور بھوپیش بگھیل کو ہروا کر کیا پیغام دیا۔ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اتر پردیش میں خواتین کو 40 فیصد ٹکٹ دینے کا فیصلہ جیسے الٹے گلے پڑ گیا تھا۔ کچھ ایسا ہی ذات پر مبنی مردم شماری کے ایشو کے ساتھ بھی ہوا۔ اب تو انڈیا اتحاد میں بھی کانگریس کی پوزیشن کمزور ہو گئی ہے۔ بے دلی سے اس اتحاد میں شامل ہوئی ممتا بنرجی اور اکھلیش یادو نے ابھی سے آنکھ دکھانا شروع کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ ممتا نے انڈیا اتحاد کی مجوزہ میٹنگ میں شرکت سے بھی انکار کر دیا ہے۔ کانگریس کی اس شکست کا تجزیہ کیسے کیا جائے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ بھوپیش بگھیل اور اشوک گہلوت کے فلاحی کاموں میں کوئی کمی تھی۔

قابل ذکر یہ ہے کہ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان ریاستوں میں کانگریس کو ملے ووٹوں کا فیصد کافی اچھا ہے، مگر سیٹوں میں جو فرق ہے وہ بہت بڑا ہے۔ ووٹوں کا یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ کانگریس ان ریاستوں میں جوابی حملہ کر سکتی ہے کیونکہ ان ریاستوں میں اس کا تنظیمی ڈھانچہ اتر پردیش اور بہار کی طرح کمزور نہیں ہے۔ لیکن اس کے لیے جس نظریاتی مضبوطی، محنت، لگن، تال میل اور ایثار کے جذبہ کی ضرورت ہے۔ فی الحال اس کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ راجستھان میں اشوک گہلوت کو سچن پائلٹ برداشت نہیں، چھتیس گڑھ میں بھوپیش بگھیل کو سنگھ دیو برداشت نہیں، کمل ناتھ کا توخیر بابا آدم ہی نرالا ہے۔ وہ سنگھیوں سے بڑے سنگھی بنے ہوئے ہیں۔ لگتا ہی نہیں کہ وہ اسی کانگریس کے لیڈر ہیں جس کا لیڈر راہل گاندھی ہر مشکل، ہر ظلم، ہر زیادتی جھیلتا ہوا آر ایس ایس اور مودی حکومت کے سامنے سینہ سپر ہے۔ کمل ناتھ ہندستان کو ہندو راشٹر بتاتے ہیں، بابا باگیشور جیسوں کے قدموں میں بیٹھتے ہیں جو کھلے عام اپنی تقریروں میں آر ایس ایس کے نظریہ کا پرچار کرتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے دگوجے سنگھ نے خود کو پس پشت کر لیا تھا۔ اشوک گہلوت ہندو ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے مقتول کنہیا لال کو 50 لاکھ کا معاوضہ دیتے ہیں اور جنید و ناصر کو ایک ایک لاکھ کا، مگر اس کھلی نا انصافی کا انھیں کیا فائدہ ملا؟ کنہیا لال کے قاتل لڑکے تھے تو مسلمان، مگر وابستہ تھے بی جے پی سے۔ پھر بھی بی جے پی نے درزی کنہیا لال کے قتل کو سیاسی ایشو بنا کر خون آلود سلائی مشین کو اپنا پوسٹر بنایا اور اس کا فائدہ اٹھا لیا۔


اس وقت کانگریس کے سامنے ہی نہیں، ملک کے سامنے بھی چیلنجوں کا پہاڑ ہے۔ اس ملک میں آئینی جمہوریت کا کیا ہوگا، اس کی معیشت کا کیا ہوگا، ملک کے نوجوانوں کا مستقبل کیا ہوگا، اس ملک کے سماجی تانے بانے کا کیا ہوگا؟ مودی، آر ایس ایس، بی جے پی، میڈیا... ان سب نے مل کر ان سلگتے سوالوں کو پس پشت کر جارح قوم پرستی اور جارح مذہبی جنون کو سیاسی اور سماجی ایجنڈا بنا دیا ہے۔ زیادہ تر ہندو نوجوانوں میں ہندو احیا پرستی کا جنون سوار ہے۔ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ مسلمانوں کا حلیہ ٹائٹ ہے۔ اقلیتی طبقہ پریشان ہے کہ انھیں دوسرے درجہ کا شہری بنا دیا گیا ہے، ان کے گھروں پر بلڈوزر چلتا ہے، ان کی ماب لنچنگ ہوتی ہے، انہیں جیلوں میں سڑایا جاتا ہے۔ در اصل اس سوچ کی وجہ آر ایس ایس کا مسلم دشمن پروپگنڈہ ہے جو گزشتہ 100 برسوں سے بنا روک ٹوک جاری ہے۔ آر ایس ایس صرف منفی پروپگنڈہ نہیں کرتی بلکہ برین واشنگ کرتی ہے، بالکل نازیوں کے انداز میں۔ دوسری جانب کانگریس نے آر ایس ایس کے خلاف سیاسی لڑائی تو لڑی لیکن نظریاتی لڑائی لڑنا یکسر بھول گئی۔ کانگریس کے اندر کالی بھیڑوں کی کمی نہیں جس کی جیتی جاگتی مثال کمل ناتھ ہیں۔

بہرحال، تازہ انتخابی نتائج کے بعد اب کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے کو چاہئے کہ وہ کالی بھیڑوں کی شناخت کر کے انھیں مودی کی طرح ’مارگ درشک منڈل‘ میں بھیج دیں اور نظریاتی طور سے مضبوط، بے لوث، محنتی کارکنوں کو آگے لائیں۔ کانگریس کو اس وقت ماضی کے کامراج پلان کی سخت ضرورت ہے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ مودی کو کوسنے سے ہی مودی کو نہیں ہرایا جا سکتا۔ مودی محض ایک سیاستداں ہی نہیں، ہندو احیا پسندوں کے لیے ’کلٹ فیگر‘ بن چکے ہیں۔ انھیں بھگوان وشنو کا اوتار مان لیا گیا ہے۔ ان کو سیاست کے میدان میں شکست دینے کے لیے عوام، خصوصاً نوجوانوں کے ضمیروں پر دستک دینی ہوگی۔ انھیں اس نقصان سے آگاہ کرنا ہوگا جو اندھی مودی پرستی سے ملک کا اور خود ان کا ہو رہا ہے۔ اس جھوٹے پروپگنڈہ کی کاٹ کرنی ہوگی جو مودی برانڈ سیاست کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ آر ایس ایس کارکنوں کی طرح بے لوث و محنتی کارکنوں کی شناخت کرنی ہوگی اور انھیں اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ ذمہ داری بھی دینی ہوگی۔

(نوٹ: مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔