یہ ’چراغ‘ کس کے گھر کو آگ لگائے گا؟... سہیل انجم

بہر حال دس نومبر کو پتہ چلے گا کہ اس چراغ سے کس کے گھر کو آگ لگتی ہے۔ بی جے پی کے یا جے ڈی یو کے۔ یا پھر چراغ پاسوان خود اپنا ہی گھر جلا لیتے ہیں۔

اپنے والد رام ولاس پاسوان کی رسوم ادا کرتے چراغ پاسوان / تصویر @iChiragPaswan
اپنے والد رام ولاس پاسوان کی رسوم ادا کرتے چراغ پاسوان / تصویر @iChiragPaswan
user

سہیل انجم

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘۔ یہ ایک بہت پرانا مصرعہ ہے اور اس کا استعمال ایسے مواقع پر کیا جاتا ہے جب کسی اپنے سے ہی کوئی بڑا نقصان ہو جاتا ہے۔ اس وقت بہار میں اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ وہاں بھی ایک چراغ ہے۔ لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ و ہ کس کے گھر کو آگ لگائے گا۔ اس کے نشانے پر بظاہر دو گھر ہیں۔ ایک بی جے پی اور دوسرا جنتا دل یو۔ قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ اس چراغ کا نام ’’چراغ پاسوان‘‘ ہے۔ وہ لوک جن شکتی پارٹی کے بانی اور دلتوں اور پسماندہ طبقات کے رہنما آنجہانی رام ولاس پاسوان کے بیٹے ہیں۔

لوک جن شکتی پارٹی مرکز میں این ڈی اے کا حصہ تھی اور اگر چراغ پاسوان کی باتوں پر یقین کریں تو وہ مرکز میں اب بھی این ڈی اے میں شامل ہے۔ البتہ بہار میں اس نے این ڈی اے کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ جب بہار اسمبلی کے انتخابات کا اعلان ہوا اور انتخابی مہم شروع ہو گئی تو چراغ نے اچانک اعلان کر دیا کہ وہ جنتا دل یو کے خلاف الیکشن لڑیں گے۔ اس وقت تک ان کے والد حیات تھے۔ چند روز کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ لیکن چراغ اپنے فیصلے پر اب بھی قائم ہیں۔


بہار اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 243 ہے۔ جن میں سے نصف نصف پر بی جے پی اور جے ڈی یو الیکشن لڑ رہی ہیں۔ 71 نشستوں پر 28 اکتوبر کو، 94 نشستوں پر تین نومبر کو اور 78 پر سات نومبر کو پولنگ ہوگی۔ دس نومبر کو ووٹوں کی گنتی کی جائے گی۔ چراغ پاسوان نے 143 نشستوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ چند امیدوار بی جے پی کے خلاف اتارے گئے ہیں اور باقی سب جے ڈی یو کے خلاف۔ وہ بار بار یہ بیان دے رہے ہیں کہ وہ مرکز میں اب بھی این ڈی اے کے ساتھ ہیں۔ لیکن بہار میں اس سے الگ ہیں۔ وہ وزیر اعلیٰ اور جنتا دل یو کے لیڈر نتیش کمار کی قیادت میں الیکشن لڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ نتیش کمار ایک بار پھر بہار کے وزیر اعلیٰ بنیں۔ وہ بار بار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس بار بی جے پی اور ایل جے پی کی مخلوط حکومت بنے گی۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے والد یہی چاہتے تھے کہ ایل جے پی تنہا الیکشن لڑے۔ ایسا کرنے سے ہی پارٹی مضبوط ہوگی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ان کے والد نے ان سے کہا تھا کہ تم جوان ہو، تنہا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیوں نہیں کرتے۔ اگر تم ایسا نہیں کروگے تو نتیش ایک بار پھر وزیر اعلیٰ بن جائیں گے اور مزید پانچ سال تک بہار کے عوام کی مصیبتیں بڑھ جائیں گی۔ لہٰذا انھوں نے اپنے والد کی خواہش کے پیش نظر تنہا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے بقول وہ نہیں چاہتے کہ بہار کے عوام مزید پانچ برسوں تک آزمائش سے دوچار رہیں۔


چراغ نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ بیان دیا کہ انھوں نے تنہا لڑنے کی بات بی جے پی کے سابق اور موجودہ صدور یعنی امت شاہ اور جے پی نڈا کے سامنے رکھی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے امت شاہ سے کہا کہ وہ ان کی پارٹی یعنی ایل جے پی کو نشستوں کے معاملے میں ایڈجسٹ نہیں کر پائیں گے۔ اگر ایسا ہے تو وہ کم از کم این ڈی اے کے ایجنڈے میں ’’بہار فرسٹ اور بہاری فرسٹ‘‘ کو شامل کریں۔ اور اگر وہ ایسا بھی نہیں کر سکتے تو انھیں جے ڈی یو کے مقابلے میں اپنے امیدوار اتارنے کی اجازت دیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی اس بات پر امت شاہ چپ رہے، انھوں نے کچھ نہیں کہا۔

وہ اپنے بیانات میں بار بار وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ان کی بہت قدر کرتے ہیں۔ وہ ان کے ہنومان ہیں اور اگر کبھی وقت پڑا تو وہ اپنا سینہ چیر کر دکھا دیں گے کہ ان کے سینے میں مودی جی ہی موجود ہیں۔ ان کے ان بیانات سے نتیش کمار کو سب سے زیادہ پریشانی ہو رہی ہے۔ جب ان کی اس سیاست نے بہار کے الیکشن میں کنفیوژن پیدا کرنا شروع کیا اور یہ پیغام جانے لگا کہ بی جے پی اندر ہی اندر چراغ کی حمایت کر رہی ہے اور یہ کہ بی جے پی اس طرح نتیش کمار کو کنارے لگانا چاہتی ہے تو بی جے پی کے کئی لیڈران سامنے آگئے۔ جن میں پرکاش جاوڈیکر، سمبت پاترا اور بھوپیندر یادو جیسے لوگ شامل ہیں۔ انھوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ چراغ پاسوان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔


جاوڈیکر کے مطابق چراغ نے بہار میں اپنی راہ الگ بنائی ہے۔ وہ بی جے پی لیڈروں کا نام لے کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری کوئی بی اور سی ٹیم نہیں ہے۔ چراغ پاسوان ’’ووٹ کٹوا‘‘ لیڈر ہیں۔ این ڈی اے کو تین چوتھائی اکثریت حاصل ہوگی اور ایک بار پھر این ڈی اے کی حکومت بنے گی۔ سمبت پاترا نے بھی چراغ کو ’’ووٹ کٹوا‘‘ قرار دیا۔ جبکہ بھوپیندر یادو نے، جو کہ بہار کے انچارج ہیں، کہا کہ چراغ وزیر اعظم کا نام لے کر کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایل جے پی کے ساتھ ہمارا کوئی اتحاد نہیں ہے۔ بی جے پی کے دیگر رہنماؤں کا بھی یہی کہنا ہے۔

چراغ کے بیانات سے جو شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں دراصل بی جے پی ان کو دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ خود پر عاید ہونے والے الزامات سے بھی بچنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کے بعض لیڈروں کا کہنا ہے کہ چراغ کے بیانات سے پارٹی کو جو نقصان ہو رہا ہے اس کے ازالے کے لیے وضاحت ضروری ہے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس بارے میں ابھی تک نہ تو نریندر مودی کی جانب سے کوئی صفائی آئی ہے، نہ امت شاہ کی جانب سے اور نہ ہی جے پی نڈا کی جانب سے۔ امت شاہ نے تو چراغ کے اس بیان کی تردید تک نہیں کی کہ جب انھوں نے ان کے سامنے تنہا لڑنے کی بات رکھی تو وہ چپ رہے۔


لہٰذا بہت سے سیاسی مبصرین کا یہی خیال ہے کہ چراغ کو اندر ہی اندر بی جے پی کی حمایت حاصل ہے۔ بی جے پی کو اس بات کا احساس ہے کہ نتیش کمار کے پندرہ برسوں تک اقتدار میں رہنے کے بعد اب حکومت مخالف رجحانات پیدا ہو رہے ہیں۔ یعنی بہار میں سیاسی زبان میں کہیں تو ’’اینٹی انکمبینسی‘‘ کا ماحول ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جن میں دو تین بہت اہم ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پندرہ برسوں تک اگر کوئی پارٹی حکومت کرے اور کوئی ایک ہی شخص اس مدت میں وزیر اعلیٰ رہے تو عوام فطری طور پر اس سے غیر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ لہٰذا بہار میں این ڈی اے کی حکومت سے لوگ اب زیادہ مطمئن نہیں ہیں۔ وہ تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔

اس کے علاوہ لاک ڈاون میں بہاری مزدوروں کو جو پریشانی ہوئی اس میں حکومت نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے لیکن حکومت سے انھیں کوئی سپورٹ نہیں ملی۔ اس کے علاوہ کورونا کی وبا سے نمٹنے میں بھی ریاستی حکومت ناکام رہی ہے۔ ان باتوں کے علاوہ بھی کئی اور چھوٹے موٹے اسباب ہیں جو نتیش کمار کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ بی جے پی کو ان تمام باتوں کا احساس ہے اور وہ بہار میں اقتدار سے باہر بھی نہیں ہونا چاہتی۔ اسی لیے اس نے چراغ کو نتیش کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔ ورنہ اگر چراغ کو بی جے پی کی درپردہ حمات حاصل نہ ہوتی تو ان میں اتنی جرآت نہیں تھی کہ وہ بہار میں این ڈی اے سے الگ ہونے اور جے ڈی یو کے خلاف لڑنے کی بات کرتے۔ اگر وزیر اعظم یا وزیر داخلہ ترچھی نظر سے دیکھ لیں تو چراغ اپنا فیصلہ بدل دیں گے۔ لیکن یہ دونوں خاموش ہیں اور دوسری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کے کانوں میں چراغ کے بیانات کی گونج سنائی ہی نہیں دے رہی ہے۔


بہر حال دس نومبر کو پتہ چلے گا کہ اس چراغ سے کس کے گھر کو آگ لگتی ہے۔ بی جے پی کے یا جے ڈی یو کے۔ یا پھر چراغ پاسوان خود اپنا ہی گھر جلا لیتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Oct 2020, 11:11 PM