ڈوب مرو سرکار!

سپریم کورٹ کی طرف سے پولیس کی سرزنش ملک کے وزیر داخلہ کی سرزنش ہے کیونکہ دہلی پولیس مرکز کے تحت آتی ہے اور امت شاہ اس کے ذمہ دار ہیں۔

تصویر نواب علی اختر
تصویر نواب علی اختر
user

نواب علی اختر

بی جے پی اور اس کی قیادت والی حکومت کی طرف سے انتہا پسندانہ رجحانات کو فروغ دینے کا سبب بننے والے اقدامات نا صرف ہندوستانی مسلم برادری بلکہ خود محبتوں کا گہوارہ کہلانے والے ہندوستان کے وسیع النظر دانشور، ادبا اور مفکرین کے لیے بھی لمحہ فکریہ بن گئے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں جس بھی مؤرخ، ادیب، مصنف، استاد اور فنکار سے بات چیت گئی یا اس سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر رابطہ کیا گیا تو یہی سننے کو ملا کہ وہ اپنے ملک میں بڑھتی انتہا پسندی اور ہندوستان کی صدیوں پرانی گنگا-جمنی تہذیب کو دیدہ و دانستہ مٹانے کی کوششوں پر خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ ہے کہ حالیہ چند برسوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ ملک کو نفرت کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے خوفزدہ رہنے لگے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : انقلاب ضرور آئے گا!

جس ملک میں عید اور دیوالی یکساں جوش وجذبے کے ساتھ منائی جاتی تھی وہاں آج معاشرے کے دو بڑے اور انتہائی اہم طبقات کو ایک دوسرے سے متنفر کر دیا گیا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے ملنے سے کترانے لگے ہیں۔ نفرتوں نے ان کے درمیان ایک ناقابل عبور دیوار کھڑی کر دی ہے۔ کوئی عید نہیں مناتا تو کوئی تہوار میں شریک نہیں ہوتا۔ کوئی کسی کی تقریب میں شرکت نہیں کرتا تو کوئی کسی کو مبارکباد دینے میں بھی عار محسوس کرنے لگا ہے۔ یہ صورتحال ہندوستان کی قدیم روایات کے یکسر مغائر ہے اور اس کے نتیجہ میں سماج منقسم ہوچکا ہے۔ اپنے مذہب پر پوری عقیدت کے ساتھ عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے مذہب کو احترام کی نظر سے دیکھنے کی بجائے لوگ اب دوسرے کے مذہب کی توہین اور ہتک کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھنے لگے ہیں۔


افسوس اس بات پر ہے کہ سماج دشمن حرکتیں کرنے والوں کی حکمراں طبقہ کی جانب سے حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور انہیں شاباشی دی جا رہی ہے۔ ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی بجائے ان کی جیل سے رہائی پر خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ ملک میں میڈیا کا رول انتہائی اہمیت کا حامل تھا لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی میڈیا نے بھی اپنا قبلہ بدل لیا ہے۔ موجودہ وقت میں میڈیا سماج میں محبتوں کو فروغ دینے کی بجائے نفرت پھیلانے میں مرکزی رول ادا کر رہا ہے۔ عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جا رہا ہے۔ سماج میں نفرت کو بڑھاوا دے کر ملک کی قدیم روایات اور تہذیب کو تار تار کیا جا رہا ہے۔ حد تو تب ہو جاتی ہے جب ان شرمناک حرکتوں کو ’دیش بھکتی‘ کا سرٹفکیٹ دیا جاتا ہے۔ اس صورتحال سے ملک کی کوئی خدمت نہیں ہو رہی ہے۔

انسانوں کو ایک دوسرے سے متنفر کرنے اور کسی بھی سماج مخالف سرگرمی کے خلاف اگر بروقت کارروائی عمل میں لائی جاتی تو نوپور شرما جیسی ہندوتوا کا ایک معمولی پیادہ اس حد تک بدزبانی کی جرأت نہیں کرتا اور نہ ہی ملک و بیرون ملک وطن عزیز کی بدنامی ہوتی۔ موجودہ صورتحال سے نوپور شرما اور اس کے آقاؤں کو بھی اندازہ ہو جانا چاہیے کہ مٹھی بھر انتہا پسندوں کو خوش کرنے اور ان کے ووٹ بٹورنے کے لیے انہوں نے کیا کر دیا ہے؟ اب بھی وقت ہے کہ ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تارتار کرنے والی شاتم رسولؐ کے خلاف عدالت عظمیٰ کے ذریعہ کئے گئے سخت تبصروں کو حکم مان کر بی جے پی اوراس کی حکومت پشیمان ہو اور ایسے تمام لوگوں پر نکیل کسنے میں عجلت کرے جو ہندوتوا کی بھٹی سے نکل کر سماج کو نفرت کی آگ میں جھونکنے کا کام کر رہے ہیں۔


ملک کی سپریم کورٹ کے سخت تبصروں کے بعد سرکار کو ڈوب مرنا چاہیے کیونکہ ہندوستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار ہے جب عدالت عظمیٰ نے حکمرانوں کو انتباہی انداز میں بالواسطہ طور پر سخت ہدایات دی ہیں۔ حالانکہ سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعد بھی نوپور شرما کو مرکزی حکومت اور دہلی پولیس کا آشیرواد حاصل ہے۔ اس معاملے میں کولکاتہ پولیس نے شاتم رسولؐ کو لک آؤٹ نوٹس جاری کرکے پہل کر دی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ دہلی میں نپور شرما کے خلاف جو مقدمات درج کئے گئے ہیں ان کے معاملہ میں پولیس نے سرخ قالین بچھا دی ہے۔ نوپور شرما چونکہ بی جے پی کی ترجمان رہی ہے اور وہ بی جے پی کے لیے سیاسی فائدہ کا باعث بھی بن سکتی ہے اسی لیے ایسا لگتا ہے کہ پولیس کو نوپور شرما کو گرفتار کرنے کی اجازت نہیں ملی ہے۔

نوپور کے خلاف ملک کی کئی ریاستوں میں ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ اس گستاخ کو شائد امید تھی کہ وہ سپریم کورٹ سے راحت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی تاہم سپریم کورٹ نے جو ریمارکس کئے ہیں وہ نہ صرف نوپور شرما بلکہ اس کی پشت پناہی کرنے والوں اور اس کے خلاف کارروائی سے گریز کرنے والی پولیس اور خاص طور پر دہلی پولیس کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ کے مترادف ہیں۔ کم از کم اب تو بی جے پی اور دہلی پولیس کو حرکت میں آتے ہوئے اپنی خفت مٹانے کی ضرورت ہے۔ دہلی پولیس کی سرزنش عملًا ملک کے وزیر داخلہ کی سرزنش ہے کیونکہ دہلی کی پولیس مرکزی حکومت کے تحت آتی ہے اور وزیر داخلہ امت شاہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ عدالت کے سخت ریمارکس کے بعد کیا دہلی پولیس اب بھی سیاسی اشاروں کی منتظر ہے۔


ملک میں پھیلی ہوئی افراتفری کے لیے عدالت عظمیٰ نے جس طرح نوپور شرما کو ذمہ دار قرار دیا ہے اس کے بعد بی جے پی کی اس معطل لیڈر کے خلاف ملک کا ماحول پراگندہ کرنے کے الزام میں بھی مقدمہ درج کیا جانا چاہئے کیونکہ اس بد زبان اور گستاخ خاتون کے ذریعہ شان رسالتؐ میں کی گئی گستاخی کے خلاف جہاں ہندوستان بھر میں احتجاج کیا گیا وہیں عرب ممالک نے بھی سفارتی طور پر ا پنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے ہندوستان کے سفیروں کو اپنے دربار میں طلب کیا تھا۔ اس سب کے لیے صرف اورصرف پولیس کی خاموشی اور سیاسی اشاروں پر کام کرنے کی اس کی روش ذمہ دار ہے۔ اگر نوپور شرما کے خلاف پولیس اور پارٹی کی طرف سے بروقت کارروائی کی جاتی تو بیرون ملک ہندستان کی بدنامی نہ ہوتی اور ملک کے معزز نمأندوں کا وقار بھی محفوظ رہتا- ایسی صورتحال میں بھی اگر پولیس کچھ نہیں کرتی ہے تو انتہا پسندوں کی جانب سے اسے ’دیش بھکت‘ کا سرٹفکیٹ تو مل سکتا ہے مگر ملک اسے کبھی معاف نہیں کرے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */