انقلاب ضرور آئے گا!

فی الوقت مذہبی جنون کے شکار افراد مسلمانوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں مگر یہی مذہبی جنون ہندوستان میں داخلی کشاکش کا سبب قرار پائے گا۔

تصویر نواب
تصویر نواب
user

نواب علی اختر

ہندوستان میں حالیہ کچھ سالوں میں اچانک شروع ہوئی مذہبی و طبقاتی منافرت نے اب تک نہ جانے کتنے گھروں کو اُجاڑ دیا ہے اور نہ جانے کتنے معصوموں کو یتیم کر دیا ہے باوجود اس کے خود کو ’دیش بھکت‘ کہنے والا اکثریتی طبقہ اپنے ذہن اور دلوں پر قفل جڑ کر انسانیت کو زندہ دفن کرنے پرآمادہ رہا، یہاں تک کہ جب بی جے پی زیر حکمرانی ریاستوں میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلایا جا رہا تھا اس وقت تو اور بھی زیادہ چٹخارے لے کر ’بابا‘ کا گُن گان کرتے ہوئے ہندوستانیوں کو پاکستان بھیجنے کا نعرہ لگا کر اپنی منافرت کا اظہار کرتا رہا، مسجد-مندر کے نام پر مسلمانوں کو خوب ستایا گیا لیکن اب جب ان کے شخصی مفادات پر آنچ آئی ہے تب ان کے مردہ ضمیر نے انگڑائیاں لی ہیں۔

مگر ان انگڑائیوں کا فی الحال کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے کیونکہ حکمرانوں نے سمجھ لیا ہے کہ یہ کسان اور مسلمان نہیں ہیں جو اپنے حق کے لیے گرمی، سردی، دھوپ اور برسات کی پرواہ کئے بغیر پورے سال کھلے آسمان سڑک پر بیٹھے رہیں۔ ان نام نہاد دیش بھکتوں کو ان کا حق حاصل ہونے سے زیادہ اقلیتوں کی تباہی میں خوشی ہوتی ہے خواہ وہ بیروزگاری اور مہنگائی سے کتنے ہی پریشان کیوں نہ ہوں۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ کہاوت فٹ بیٹھتی ہے کہ ’پڑوسی کی دیوار گرنا چاہئے خواہ اس میں دب کر ان کی ماں مرجائے‘۔ آج ایسا ہی ہو رہا ہے کہ جو لوگ سی اے اے، این آرسی کے خلاف مظاہرے کرنے والے مرد و زن اور دوشیزاؤں پر تبصرے کرتے تھے وہ آج خون کے آنسو رونے پر مجبور ہیں۔


نوجوان طبقہ جسے ہم ملک کا خوش آئند مستقبل کہتے ہیں، بے روزگاری اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر بلا دریغ مائل بہ تشدد ہے۔ احتجاج تو ہر شخص کا جمہوری حق ہے مگر احتجاجی مظاہرے تشدد میں بدل رہے ہیں۔ شخصی اور سرکاری املاک نشانے پر ہیں۔ بے شک پر تشدد احتجاجات کسی مسئلے کا سنجیدہ حل نہیں ہوسکتے لیکن ان احتجاجات کے پس منظر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کی پالیسیاں، فیصلوں میں عجلت پسندی اور حکومت پر جوانوں کے عدم اطمینان نے ملک کو بدترین صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ حکومت کے پاس نوجوانوں کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ آخر کب تک مندر اور مسجد کی سیاست نوجوانوں کی توجہ اصل مسائل سے بھٹکا سکتی ہے؟

جس نوجوان کو فرقہ پرستوں نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے مشتعل ہونا سکھایا تھا، وہی نوجوان آج ان کے لیے ہی درد سر بن گیا ہے۔ اگر حکومت نوجوانوں کے اعتماد کو جیتنے میں کامیاب نہیں ہوگی اور ان کی صلاحیتوں کو غلط جہات میں بروئے کار لانے والوں پر شکنجہ نہیں کسے گی، ملک کے حالات مزید ابتر ہوتے جائیں گے۔ ہمارے نوجوانوں کے اندر اتنی صلاحیت اور لیاقت موجود ہے کہ وہ ملک کے سیاسی و سماجی دھارے کا رخ موڑ سکیں، بشرطیکہ ان کی صلاحیتوں کا بروقت اور صحیح استعمال کیا جائے۔ اگر یہی نوجوان غلط ہاتھوں میں پڑ جائے تو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لئے نوجوانوں کے جذبات کو کچلنے کے بجائے ان کی خواہشات کا احترام کرنا چاہیے۔


اس وقت ملک کا نوجوان ذہنی کشمکش اور داخلی شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اب یہ صورتحال کسی ایک مذہب اور طبقے میں محدود نہیں رہ گئی ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت اپنے مستقبل کو لے کر فکر مند ہے۔ بے روزگاری اور سیاسی بازیگری نے ان کی نفسیات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ نوجوانوں کا اس طرح سڑکوں پر نکل آنا، توڑ پھوڑ کرنا اور شخصی و سرکاری املاک کو بے دریغ نقصان پہنچانا ان کے داخلی تذبذب کو ظاہر کرتا ہے۔ اس صورتحال پر قابو پانا نہایت ضروری ہے تاکہ نوجوان تشدد کی طرف مائل نہ ہوں۔ دوسری طرف ہندوستان میں بڑھتی ہوئی سماجی نفرت نے نوجوانوں کے دل و دماغ کو متاثر کیا ہے۔ اترپردیش میں خاص طور پر ’بلڈوزر کلچر‘ نے نوجوانوں کو حکومت سے بدظن کر دیا ہے۔

ایک دوسرے کے مذہبی احساسات اور مقدسات کے احترام کا جذبہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔اس کے پس پردہ فرقہ پرستوں کی منظم کوششیں ہیں جنہوں نے اکثریتی طبقے کے دل و دماغ میں اقلیتی طبقات کے خلاف زہر بھر دیا ہے۔ اس صورتحال کے نقصانات دیر پا ہیں، جن پر ابھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا ہے۔ فی الوقت مذہبی جنون کے شکار افراد مسلمانوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں، مگر یہی مذہبی جنون ہندوستان میں داخلی کشاکش کا سبب قرار پائے گا۔ بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف جو غم و غصہ عوام کے اندر پنپ رہا ہے، مذہبی جنون اس آگ میں تیل کا کام کر سکتا ہے، کیونکہ فرقہ پرستوں نے نوجوانوں کو جس طرح کی تربیت دی ہے اس کا خمیازہ فقط مسلمان ہی نہیں بھگتیں گے بلکہ پورا ملک اس کی زد میں آئے گا۔


اس لیے سرکار اور حفاظتی ایجنسیوں کو اس راہ میں تیزی سے پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کو بے راہ روی سے محفوظ رکھا جاسکے، لیکن افسوس یہ ہے کہ حکومت خود اپنی مربی تنظیموں کی آلہ کار بنی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ صورتحال اس کی مٹھی سے ریت کی طرح پھسل رہی ہے۔ ملک کے حالات تشویش ناک ہیں مگر حکومت کو اس کی ذرہ برابر پر واہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اقلیتی طبقات کے مقدسات کی اہانت کرنے والی شخصیات اور بے لگام میڈیا کے خلاف موثر اقدام کئے جاتے، مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ اس وقت انتظامیہ کا آسان ہدف مسلمان اور پسماندہ طبقات ہیں اس لئے زیادہ تر کارروائی انہیں پر ہوتی نظر آتی ہے اور انتہا پسندوں کے عمل اور اہداف سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔

اس وقت ذہنی کشمکش کے شکارنوجوانوں کے جذبات بے قابو ہو رہے ہیں۔ مزاحمت اور بغاوت جوالا بن کر پھٹنے لگی ہے۔ ایسے حالات میں نوجوانوں کو صحیح جہت دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے درمیان ایسے بصیر اور باشعور افراد موجود ہیں جو نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بر محل استعمال کرنا بخوبی جانتے ہیں، بس ان افراد کو بیدار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ انہی نوجوانوں کے درمیان سے ہماری قومی قیادت نکل کر سامنے آئے گی۔ یہ قیادت مذہبی رہنماﺅں سے الگ لیکن باشعور اور مذہبی اثر سے آزاد نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ ہمارا نوجوان مذہب بیزار نہیں بلکہ مذہبی رہنماﺅں سے دل برداشتہ ہے۔ جس دن ملت کی رہنمائی ایسے ذی شعور اور بالیدہ فکر جوانوں کے ہاتھوں میں ہوگی، انقلاب ضرور آئے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔