بی جے پی لیڈروں کے بے نقاب ہونے کا سلسلہ دراز

یوپی میں بی جے پی کے رکن اسمبلی سینگر پہلے ہی عصمت دری کے الزام میں جیل میں ہیں اور چھوٹے قائدین بھی ایسے کئی الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اب سابق مرکزی وزیرچنمیانند سنگین الزامات کے گھیرے میں ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

نواب علی اختر

مرکز میں اور ملک کی بیشتر ریاستوں میں بی جے پی برسر اقتدار ہے۔ پارٹی کے زیرقیادت حکومت بیٹی بچاؤ۔بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ لگاتی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بی جے پی کے قائدین پر ہی مسلسل خواتین و لڑکیوں کی عصمت دری اور ان کے استحصال کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔ گزشتہ سال مرکزی وزیر ایم جے اکبر پرتقریباً نصف درجن خواتین کے ساتھ جنسی حراسانی کے الزامات سامنے آنے کے بعد حکمراں پارٹی کے لیڈروں کی گویا ’اصلیت‘ بے نقاب ہونے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی کے رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر پہلے ہی عصمت دری کے الزام میں جیل میں ہیں اور چھوٹے قائدین بھی کئی ایسے ہیں جو اس طرح کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اب سابق مرکزی وزیر چنمیانند سنگین الزامات کے گھیرے میں ہیں۔

’بہت ہوا عورت پر اتیاچار، اب کی بار مودی سرکار‘ اور’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ جیسے نعرے لگانے والی بی جے پی کے قول وفعل میں کتنا فرق ہے؟ اس کا اندازہ سابق مرکزی وزیر اور پارٹی کے سینئرلیڈرسوامی چنمیانند پرقانون کی طالبہ کے ساتھ عصمت دری وجنسی حراسانی کے سنگین الزامات کے باوجود پارٹی کی خاموشی سے لگایا جاسکتا ہے۔ طالبہ نے پیر کو جوڈیشیل مجسٹریٹ (اول) کی کورٹ میں دفعہ 164 کے تحت بیان درج کرائے گئے تھے جس کے بعد امید تھی کہ پولس کسی بھی وقت سوامی چنمیا نند پرعصمت دری کی دفعہ لگا کر گرفتار کرسکتی ہے لیکن تین دن بعد بھی ایس آئی ٹی کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی پہنچ رکھنے والے چنمیانند کے خلاف کارروائی میں مسلسل ہو رہی تاخیر سے دلبرداشتہ طالبہ کومجبور ہو کر کہنا پڑا ہے کہ اگر چنمیانند کو گرفتار نہ کیا گیا تو وہ خود کشی کرلے گی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جب متاثرہ کے بیان درج کیے جاچکے ہیں تو چنمیانند کو گرفتار کرنے میں تاخیر کیوں کی جارہی ہے۔


اس پورے معاملے میں اترپردیش کی بی جے پی حکومت کی لاپرواہی سب سے زیادہ ذمہ دار بتائی جا رہی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی حکومت جہاں اناؤ عصمت دری معاملے میں کوئی ٹھوس کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے، وہیں اس نے اپریل 2018 میں سوامی چنمیانند پر چل رہے عصمت دری کے مقدمے کو واپس لینے کا فیصلہ کرکے زانیوں کو خواتین کی عزت سے کھلواڑ کرنے کے لئے کھلا چھوڑنے کی کوشش کی تھی۔ شاہجہاں پور-بریلی شاہراہ پر مین روڈ پر ہی قریب 21 ایکڑ میں بنے مموکشوآشرم کی شناخت جتنی ایک مذہبی ادارہ کے طور پر ہوتی ہے اس سے زیادہ یہ تعلیم کے مرکز کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آشرم کیمپس میں ہی انٹر کالج سے لے کر پی جی کالج تک پانچ تعلیمی ادارے اسی کے تحت چلائے جارہے ہیں۔ اسی کیمپس میں واقع ایس ایس لاء کالج کی ایک طالبہ سے عصمت دری وجنسی حراسانی کے الزامات کا سامنا کر رہے سوامی چنمیانند اس آشرم کے سربراہ ہیں۔

بنیادی طور پر گونڈہ کے باشندہ اور سنیاسی بننے کے بعد ہری دوار میں رہنے والے سوامی چنمیانند کے خلاف طالبہ نے عصمت دری اور جنسی حراسانی کا الزام کھل کر عائد کیا ہے۔ طالبہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے شاہجہاں پور پولس میں بھی چنمیانند کے خلاف عصمت دری کی شکایت درج کروائی تھی لیکن پولس نے بی جے پی لیڈر کے خلاف ایسا مقدمہ درج کرنے سے گریز کیا۔ ریاستی انتظامیہ سے مایوس ہوکرمتاثرہ نے جب ملک کی سب سے بڑی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو سپریم کورٹ نے یوگی حکومت کوسخت پھٹکار لگاتے ہوئے ایس آئی ٹی تشکیل دے کرمعاملے کی غیرجانبدارانہ جانچ کرنے کی ہدایت دی جس کے بعد ہی تحقیقات میں قدرے تیزی پیدا ہوئی ہے لیکن یہ اندیشہ ضرور لاحق ہے کہ چنمیانند اور بی جے پی کے حلقے اس ایس آئی ٹی پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کریں گے۔


یہ شبہات اس لئے پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ جو ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے اس نے لڑکی کا بیان تقریباً 11 گھنٹوں تک قلمبند کیا ہے۔ ایک عصمت دری کی شکار لڑکی سے اگر 11 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور جس پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس سے کوئی سوال نہیں کیا جاتا تو ایسے شبہات پیدا ہوتے ہی ہیں۔ اس کے علاوہ اس لڑکی کے رشتہ داروں کو بھی پولس لائن طلب کرتے ہوئے مسلسل پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ لڑکی کا کہنا ہے کہ چنمیانند نے نہ صرف اس کی عصمت دری کی بلکہ ایک سال تک مسلسل اس کا استحصال کیا جاتا رہا ہے لیکن پولس میں شکایت کے باوجود کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔ چنمیانند ایک با اثر لیڈر ہیں اور ان کی پارٹی اترپردیش اور مرکز دونوں میں برسر اقتدار ہے۔ ایسے میں تحقیقاتی عمل پر اثر انداز ہونے کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا لیکن سپریم کورٹ کی ہدایت پرتشکیل دی گئی ایس آئی ٹی کو اپنا کام پوری طرح دیانتداری اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے اترپردیش پولس نے لڑکی سے انصاف نہیں کیا تھا اور مسلسل شکایات کے باوجود عصمت دری کا مقدمہ درج کرنے سے گریز کیا۔ جہاں تک مقدمات کی بات ہے تو متاثرہ کے دعویٰ کی بنیاد پر مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے حالانکہ الزام کی سچائی کا فیصلہ کرنا عدالتوں کا کام ہے۔ پولس کو اپنے طور پر ایسا کوئی رول ادا نہیں کرنا چاہیے کہ وہی الزامات کو درج کرنے سے پہلے ہی صحیح یا غلط کا فیصلہ سنا دے۔ یقینی طور پر شکایت کی نوعیت اور ثبوتوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے لیکن اس بہانے سے متاثرہ کو انصاف رسانی میں کوئی تاخیر نہیں کی جانی چاہیے اور نہ ہی تحقیقات میں ملزم کے با اثر ہونے پر کوئی دوہرا معیار اختیار کیا جانا چاہیے۔ عصمت دری کا شکار لڑکی کی شکایت کو حیلے بہانوں کے ذریعہ پس پشت نہیں ڈالا جانا چاہیے بلکہ اسے انصاف دلانے کی کوشش کی جانی چاہیے اور اس بات پر کوئی امتیاز نہیں برتا جانا چاہیے کہ جس کے خلاف الزام عائد کیا جا رہا ہے وہ ایک با اثر اور برسر اقتدار پارٹی کا لیڈر ہے۔ کسی سیاسی مداخلت کو قبول کیے بغیر تحقیقاتی عمل کو پایہ تکمیل کو پہنچانے پر ایس آئی ٹی کا دھیان ہونا چاہیے۔


قانون کی اس طالبہ نے سب سے پہلے گذشتہ مہینے فیس بک پر ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا تھا جس کے دوسرے ہی دن وہ اپنے ہاسٹل سے لاپتہ ہوگئی تھی۔ بعد میں جب سپریم کورٹ نے اس معاملہ کا نوٹس لیا تو اچانک ہی لڑکی کی راجستھان سے برآمدگی کا اعلان کردیا گیا۔ گزشتہ ہفتے لڑکی سے ایس آئی ٹی نے تقریباً11 گھنٹوں تک سوالات کیے ہیں اور لڑکی کا کہنا ہے کہ اس نے ہر ممکنہ طریقہ سے ایس آئی ٹی کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے میں اب ایس آئی ٹی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ غیرجانبداری اورپیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرکے متاثرہ طالبہ کو انصاف دلانے کا کام کرے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Sep 2019, 7:10 PM