امیدوں کے منریگا کا ’رام نام ستیہ‘!... اے جے پربل

مودی حکومت کی کئی حصولیابیوں میں سے ایک حصولیابی ہے پرانے منصوبوں کو نئی شکل میں پیش کرنے کا ہنر۔ جی ہاں، وہی ’پرانی شراب کو نئی (لیکن بے ڈھنگی) بوتلوں میں پیش کرنا‘۔

تصویر سوشل میڈیا
i
user

اے جے پربل

  • مرکزی حکومت معروضی پیمانوں کی بنیاد پر ہر مالی سال کے لیے ریاست وار معیاری الاٹمنٹ کا تعین کرے گی۔ دفعہ (5)4

  • جب تک اس کے برخلاف کوئی انتظام نہ ہو، ریاستی حکومت مرکزی حکومت کی جانب سے نوٹیفائیڈ دیہی علاقوں میں، ہر ایسے خاندان کو، جس کے بالغ اراکین غیر ہنرمند جسمانی مشقت کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر آگے آتے ہیں، اس قانون کے تحت بنائی گئی اسکیم کے مطابق ایک مالی سال میں کم از کم 125 دنوں کا یقینی روزگار فراہم کرے گی۔ دفعہ (1)5

  • کسی ریاست کی جانب سے اپنے معیاری الاٹمنٹ سے زیادہ کیا جانے والا کسی بھی قسم کا خرچ مرکزی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ طریقۂ کار اور عمل کے مطابق ریاستی حکومت کو ہی برداشت کرنا ہوگا۔ دفعہ (6)4

  • اس قانون کے تحت آنے والے مقاصد کے لیے، مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کے درمیان فنڈ کی تقسیم کا تناسب 60:40 ہوگا۔ یہ شمال مشرقی ریاستوں، پہاڑی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں سے مختلف ہے، جہاں مرکزی حکومت کا حصہ 90:10 ہوگا۔ دفعہ (2)22

مودی حکومت کی کئی حصولیابیوں میں سے ایک حصولیابی ہے پرانے منصوبوں کو نئی شکل میں پیش کرنے کا ہنر۔ جی ہاں، وہی ’پرانی شراب کو نئی (لیکن بے ڈھنگی) بوتلوں میں پیش کرنا‘۔ مودی حکومت کا یہ ہنر اکثر سوالوں کے گھیرے میں رہا ہے۔ لیکن اس بار تو پرانی شراب کو پھینکا ہی جا رہا ہے، اور اس کی جگہ ایک نئی مگر زہریلی شراب لائی جا رہی ہے۔


اس حکومت کی ’ہیرا پھیری- نام کی تبدیلی- پھر سے دعویٰ‘ والی اس مہم کا تازہ ترین شکار یو پی اے دور کی تاریخی ’منریگا‘ (مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون) اسکیم بنی، جو 2005 میں منموہن سنگھ کے وزیر اعظم رہتے نافذ ہوئی تھی۔

تو اس میں تاریخی کیا ہے؟ یہ تاریخی اس لیے ہے کہ یہی منریگا تھا جس نے آزاد ہندوستان کو دیہی ہندوستان میں روزگار کی گارنٹی دینے والا پہلا قانون دیا اور اس گارنٹی کو کام مانگنے کے حق کی پاکیزگی اور قانونی مضبوطی عطا کی۔ دیہی ہندوستان میں بمشکل گزر بسر کرنے والے لاکھوں ہندوستانیوں کے لیے زندگی کی ڈور ثابت ہونے والا یہ 20 سال پرانا قانون اب ’وکست بھارت- گارنٹی روزگار اور آجیویکا مشن (گرامین)‘ اسکیم یا ’وی بی- جی رام جی‘ یا صرف ’جی رام جی‘ کے طور پر تبدیل کیا جانے والا ہے۔ یہی مختصر نام شاید، بلکہ بلاشبہ، اس نئی اسکیم کی سب سے بڑی خصوصیت کے طور پر دیکھا جائے گا۔


نئے بل کو ’منریگا‘ کے تحت 100 دنوں کے بجائے 125 دن کے ’گارنٹی شدہ‘ روزگار والا بنا کر زیادہ بہتر ضرور بتایا جا رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’گارنٹی‘ اب محض بل کے نام تک ہی محدود ہے، اس کی دفعات میں نہیں۔ حکومت اگر واقعی 25 اضافی دنوں کے کام کی ضمانت دینا چاہتی تھی یا دیہات کی ’ہمہ جہت ترقی‘ یقینی بنانا چاہتی تھی (جیسا کہ بل میں دعویٰ کیا گیا ہے) تو ’منریگا‘ کو منسوخ کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

گزشتہ چند برسوں میں حکومت طلب کے مطابق 100 دنوں کا کام فراہم کرنے کی لازمی ذمہ داری کے باوجود ہر سال 55-50 دنوں سے زیادہ کام فراہم کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔ یہ صورتحال اس وقت ہے جب روزگار کی طلب مسلسل بڑھی ہے اور دیہی علاقوں کا بحران مزید گہرا ہوا ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں کسان مسلسل خود کشی کر رہے ہیں، دیہی اجرتیں جمود کا شکار ہیں جبکہ دیہی افراطِ زر (مہنگائی) میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ منریگا کے لیے بجٹ الاٹمنٹ میں مسلسل تخفیف بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ کورونا وبا (21-2020) کے دوران یہ 1.1 لاکھ کروڑ روپے سے گھٹ کر 2022 میں 98,000 کروڑ روپے اور 2023 میں محض 90,000 کروڑ روپے رہ گیا۔


منریگا اسکیم کے تحت 90 فیصد خرچ مرکزی حکومت برداشت کرتی تھی۔ نئے بل میں اسے گھٹا کر 60 فیصد کرنے کی تجویز ہے، جس سے باقی 40 فیصد کا بوجھ ریاستوں پر پڑے گا۔ ظاہر ہے، اس کی وجہ مرکزی حکومت کا معاشی بحران یا مالی قلت نہیں ہے، نہ ہی ریاستوں کے پاس اچانک اور اندرونی طور پر اتنی بڑی رقم آ گئی ہے۔ زمینی حقیقت یہی ہے کہ غریب ریاستیں یہ اسکیم نافذ نہیں کر پائیں گی کیونکہ ان کے پاس مالی بوجھ اٹھانے کی صلاحیت نہیں ہوگی، اور مرکز نے پہلے ہی اپنے آپ کو یہ کہہ کر الگ کر لینے کا انتظام کر لیا ہے کہ ’معذرت، اس سے ہمارا کیا لینا دینا‘۔ کیا یہ سب ’گارنٹی‘ جیسا لگتا ہے؟

ماہر معیشت ارون کمار بتاتے ہیں کہ مرکزی حکومت کا مالیاتی خسارہ 4.4 فیصد پر قابو میں ہے۔ اس لیے، مالی رکاوٹیں منریگا کے لیے مرکز کی مالی وابستگی کم کرنے یا اسکیم کو منسوخ کرنے کو درست قرار نہیں دیتیں۔ ’بزنس ٹوڈے‘ کے سابق مدیر پروسین جیت دتہ کا ماننا ہے کہ اس کے پیچھے سیاسی مقاصد ہو سکتے ہیں۔ نئے بل کی ساخت سے کچھ اشارے ملتے ہیں۔ مثلاً، یہ مرکزی حکومت کو ریاستوں کے لیے ’معیاری‘ بجٹ طے کرنے، ہر ریاست کی جانب سے کتنے دنوں کا ضمانت شدہ روزگار فراہم کیا جانا چاہیے یہ مقرر کرنے، اور عمل درآمد پر مکمل کنٹرول برقرار رکھنے کی اجازت دیتا ہے، جس کے نتیجے میں بوجھ اور الزام دونوں ریاستوں پر آ جاتے ہیں۔ یہ بہار میں انتخابات سے پہلے کی طرح براہ راست مالی امداد دینے کا راستہ بھی کھولتا ہے، جس سے مرکز ووٹروں کو براہ راست متاثر کر سکتا ہے۔


حزبِ اختلاف کی حکومت والی ریاستوں کو گرانٹ دینے سے انکار کر کے یا اس میں تاخیر کر کے سزا دینے کے لیے ’جی رام جی‘ قانون کے غلط استعمال سے مرکز کو کون روک سکتا ہے؟ مرکزی حکومت نے تو منریگا کے تحت بھی رقوم روک دی تھیں، جس کے باعث مغربی بنگال حکومت کو راحت کے لیے سپریم کورٹ جانا پڑا تھا۔ لیکن یہ نیا قانون تو قانونی چارہ جوئی کے تمام راستے بند کرنے جا رہا ہے۔

مودی حکومت کی جانب سے سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کے لیے آدھار کارڈ کو لازمی بنائے جانے کے بعد سے، منریگا کے غیر باقاعدہ نفاذ اور جاب کارڈ ہولڈرز کے اپنے بقایہ جات کا دعویٰ نہ کر پانے سے متعلق بے شمار شکایات سامنے آئی ہیں۔ آدھار پیمنٹ برج سسٹم (اے پی بی ایس)، جس کے تحت مزدوروں کی اجرت براہ راست ان کے آدھار سے منسلک بینک کھاتوں میں منتقل کی جاتی ہے، جسے جنوری 2024 میں بہتر ہدف بندی، تیز تر ادائیگی اور بدعنوانی میں کمی کے مقصد سے لازمی کیا گیا تھا، کا الٹا اثر پڑا ہے۔


مارچ 2025 میں کانگریس لیڈر سونیا گاندھی نے بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت پر اس اسکیم کو منصوبہ بند طریقے سے کمزور کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ انہوں نے کم از کم یومیہ اجرت 400 روپے کیے جانے اور گارنٹی شدہ کام کے دنوں کی تعداد 100 سے بڑھا کر 150 دن سالانہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ منریگا کی اجرتیں مہنگائی کے مطابق نہیں بڑھ سکیں۔ علاوہ ازیں آدھار پر مبنی ادائیگی کا نظام امتیازی ہونے اور قومی موبائل مانیٹرنگ نظام میں خامیوں کے باعث ادائیگیوں میں مسلسل تاخیر بھی ہو رہی ہے۔

10 اکتوبر سے 14 نومبر 2025 کے درمیان منریگا کے ڈاٹابیس سے تقریباً 27 لاکھ مزدوروں کے نام حذف کر دیے گئے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ کارروائی مرکزی حکومت کی جانب سے تمام دیہی مزدوروں کے لیے ای-کے وائی سی (اپنے صارف کو جانیں) تصدیق کو فروغ دینے کے ساتھ ہوئی۔ کارکنان اور ماہرین تعلیم کے ایک گروپ ’لب ٹیک‘ نے غیر معمولی طور پر اس قدر زیادہ حذف کی شرح پر تشویش ظاہر کی، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ محض 7 فیصد مستفیدین کو ہی 100 دنوں کا کام ملا۔ منریگا مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ایم آئی ایس) نے مزدوروں یا جاب کارڈز کو ہٹانے کی 12 وجوہات بتائیں، جن میں ’ڈپلی کیٹ درخواست دہندہ‘، ’فرضی درخواست دہندہ‘ اور ’کام کرنے کے خواہش مند نہیں‘ وغیرہ شامل ہیں۔


لیکن نیا بل محض منریگا کے ڈیجیٹل ڈھانچے کی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش نہیں ہے، اس کا اصل مقصد مرکزی حکومت کو مکمل کنٹرول دینا اور ریاستوں پر مالی بوجھ ڈالنا ہے۔ اس سے مرکز کو یہ طے کرنے کی اجازت مل جاتی ہے کہ اسکیم کہاں اور کب نافذ کی جائے گی، اور اس طرح ایک حق پر مبنی، طلب پر چلنے والے پروگرام کو مرکز کے زیرِ سرپرستی اسکیم میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

لوک سبھا میں بل کی مخالفت کرتے ہوئے کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی نے کہا کہ نئے قانون سے مرکز کو کنٹرول تو مکمل مل جاتا ہے، لیکن اس کی ذمہ داری کم ہو جاتی ہے۔ کیرالہ سے راجیہ سبھا کے رکن جان برٹاس نے کہا کہ نیا بل نہ صرف لاگت کا بوجھ ریاستوں پر ڈالتا ہے بلکہ وفاقیت کو بھی کمزور کرتا ہے؛ گرام سبھا کی قیادت والی اسکیم کو ’پردھان منتری گتی شکتی‘، ’جی آئی ایس آلات‘ اور ’مرکزی ٹیمپلیٹس‘ کے ذریعے تبدیل کر دیتا ہے، اور مرکزی روزگار گارنٹی کونسل میں لازمی ریزرویشن (خواتین، درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، دیگر پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے لیے) کو ختم کر دیتا ہے۔


لاکھوں ہندوستانیوں کے لیے، جن کی امیدیں منریگا روزگار گارنٹی پر ٹکی ہوئی تھیں، جسے وہ حق کے طور پر مانگ سکتے تھے، یہ ایسا ناقابل تلافی نقصان ہے جس کی گہرائی کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ لیکن کیا اس حکومت کو اس کی ذرا بھی پروا ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔