ہریانہ میں بی جے پی کو اقتدار مخالف لہر کا خوف، شکست سے بچنے کے لیے خاص تیاری کا منصوبہ!

6 جنوری کو بی جے پی صدر نڈا نے پنچکولہ میں فلاپ روڈ شو کے ذریعہ انتخابی بگُل ضرور پھونک دیا، لیکن محض 3-2 ہزار کی بھیڑ اور 7 کلومیٹر اعلان کردہ روڈ شو کا نصف کلومیٹر میں ہی ختم ہونا بہت کچھ کہہ گیا۔

<div class="paragraphs"><p>ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھٹر، تصویر آئی اے این ایس </p></div>

ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھٹر، تصویر آئی اے این ایس

user

دھیریندر اوستھی

پنچکولہ: ایودھیا کے رتھ پر سوار ہو کر بی جے پی ہریانہ میں لوک سبھا انتخاب کے ساتھ ہی اسمبلی انتخاب کروا کر اپنی کشتی پار لگانا چاہ رہی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ 2019 کے اسمبلی انتخاب میں 75 پار کا نعرہ دے کر 40 پر اٹکی بی جے پی کو 2024 میں 10 سال کی اقتدار مخالف لہر کا خوف ستا رہا ہے۔ بی جے پی کو لگ رہا ہے کہ ہریانہ کے ووٹرس نے اسے پانچ سال بعد 2019 میں ہی جھٹکا دے دیا تھا، لیکن اس کے 75 پار کے بچھائے گئے مینٹل ٹریپ میں پھنسے اپوزیشن نے اپنی کمزور مہم سے اقتدار کی دہلیز تک اسے پہنچا دیا۔ لیکن اس بار لوک سبھا کے ساتھ اسمبلی انتخاب نہیں ہوئے تو اقتدار اس کے لیے دور کی کوڑی ہو سکتی ہے۔

6 جنوری کو بی جے پی کے قومی صدر جگت پرکاش نڈا (جے پی نڈا) نے پنچکولہ میں فلاپ روڈ شو کے ذریعہ انتخابی بگُل تو پھونک دیا، لیکن 3-2 ہزار کی بمشکل جمع کی گئی بھیڑ اور 7 کلومیٹر کے اعلان کردہ روڈ شو کا تقریباً نصف کلومیٹر میں ہی ختم ہونا بہت کچھ کہہ گیا۔ نڈا کے غور و خوض اور بی جے پی کور کمیٹی کی میٹنگ کے بعد باہر آئی خبریں اس بات کی تصدیق کر رہی ہیں کہ ہریانہ اسمبلی انتخاب بھگوا پارٹی کے لیے سنگین فکر کا سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہریانہ بی جے پی کا بڑا طبقہ لوک سبھا لوک سبھا انتخاب کے ساتھ ہی اسمبلی انتخاب بھی کرانا چاہ رہا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ اگر اسمبلی انتخاب لوک سبھا کے ساتھ ہی ہوتے ہیں تو ایودھیا میں شری رام للا کی پران پرتشٹھا اور تین ریاستوں میں جیت کے بعد بنے ماحول میں اس کی کشتی پار ہو سکتی ہے۔ نہیں تو 10 سال بعد حکومت کے خلاف تیار ہوئی اقتدار مخالف لہر اسے اقتدار سے دور لے جائے گی۔


بی جے پی لیڈروں کے لیے ایسا سوچنے کی وہج 2019 اسمبلی انتخابات کا سبق ہے۔ 2019 میں بی جے پی نے 90 رکنی اسمبلی میں 75 پار کا نعرہ دیا تھا۔ بی جے پی کی انتخابی مشینری نے 75 پار کے نعرے کے ساتھ ریاست میں ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ اپوزیشن کے ساتھ ریاست کی عوام بھی بی جے پی کے بنائے اس جال میں پھنس گئی تھی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ لوگ کہہ رہے تھے کہ ووٹ تو بی جے پی کو نہیں دیں گے، لیکن ریاست میں حکومت تو اسی کی بنے گی۔ لیکن جب اسمبلی انتخاب کا نتیجہ سامنے آیا تو حقیقت سامنے تھی۔ ہریانہ کی عوام نے بی جے پی کو مسترد کر دیا تھا۔ وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کابینہ کے 7 مضبوط وزیر انتخاب ہار گئے تھے۔ واحد کابینہ وزیر انبالہ کینٹ سے انل وج انتخاب جیت پائے تھے۔ سونی پت سے کابینہ وزیر کویتا جین، نارنوند سے وزیر مالیات کیپٹن ابھیمنیو، بادلی سے وزیر زراعت اوم پرکاش دھنکھڑ، مہندر گڑھ سے وزیر تعلیم رام بلاس شرما اور اسرانا سے وزیر برائے ٹرانسپورٹ کرشن لال پنوار انتخاب ہار گئے تھے۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے اُس وقت کے ریاستی صدر سبھاش برالا بھی انتخاب ہار گئے تھے۔ کرنال سے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کی جیت کا فرق بھی گزشتہ انتخاب سے کم ہو گیا تھا۔

90 رکنی اسمبلی میں 2014 اسمبلی انتخاب کے دوران 47 سیٹیں جیتنے والی بی جے پی 40 پر سمٹ گئی تھی اور 2014 میں 15 سیٹیں جیتنے والی کانگریس کی سیٹیں دوگنی سے زیادہ 31 ہو گئی تھیں۔ ان انتخابی نتائج کے بعد ہریانہ میں یہ بحث زوروں پر تھی کہ اپوزیشن نے تھوڑا سا بھی زور لگایا ہوتا تو بی جے پی اقتدار سے باہر ہوتی۔ اپوزیشن کو بھی اس کی کسک اب تک ہے۔ لوک سبھا انتخاب کے ساتھ ہی اسمبلی انتخاب کرانے کے حامی ہریانہ بی جے پی کے بڑے طبقہ کو یہی فکر کھائے جا رہی ہے۔ بی جے پی کے ان لیڈروں کا ماننا ہے کہ عوام نے تو انھیں پانچ سال بعد 2019 میں ہی جھٹکا دے دیا تھا۔ وہ بھی اس وقت اس طرح کا نتیجہ آیا تھا جب 2019 میں بالاکوٹ ایئر اسٹرائک اور اس سے پہلے پلوامہ دھماکہ کے سبب مکل میں بی جے پی کے حق میں زبردست ماحول تھا اور لوک سبھا انتخاب کے محض چھ مہینے کے اندر ہی اسمبلی انتخاب ہو گئے تھے۔


اب تو حکومت کے 10 سال پورے ہونے کے بعد حکومت سے عوام کی ناراضگی زیادہ ہے۔ لوک سبھا انتخاب کے ساتھ اسمبلی انتخاب کے حامی لیڈروں کو تیسری بار اقتدار اسی حالت میں ملتی دکھائی دے رہی ہے جب اس تیار کیے جا رہے موجودہ ’مایالوک‘ میں ہی انتخاب کروا لیے جائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاست کی سبھی 10 لوک سبھا سیٹوں پر قابض بی جے پی کے اراکین پارلیمنٹ کی رائے اس سے برعکس ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ لوک سبھا انتخاب کے ساتھ اسمبلی انتخاب ہو گئے تو حکومت کی 10 سالہ اقتدار مخالف لہر کا شکار انھیں ہونا پڑے گا۔ اگر ایسا ہوا تو آئندہ لوک سبھا انتخاب میں 2019 کی کارکردگی دہرانا پارٹی کے لیے مشکل ہوگا۔ مطلب بی جے پی کی ہریانہ یونٹ کو لگ رہا ہے کہ لوک سبھا کے ساتھ اسمبلی کے انتخاب نہیں ہوئے تو ان کی کشتی ڈوب جائے گی، اور اراکین پارلیمنٹ کو لگ رہا ہے کہ لوک سبھا کے ساتھ اسمبلی انتخاب ہوئے تو ان کی کشتی ڈوب جائے گی۔ یعنی معاملہ بڑا دلچسپ بن گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔