ملک کو فرقہ پرستی کی آگ سے بچانے کی ضرورت ہے... سید خرم رضا

موجودہ حالات میں یہ حجاب پہننے اور حجاب نہ پہننے کی بیماری یہیں تک رہے تو بھی بہتر ہے، لیکن ایسا لگتا نہیں کیونکہ دوسری ریاستوں میں بھی اس کا نفاذ ہوگا۔

حجاب کے حق میں مظاہرہ کا منظر / تصویر یو این آئی
حجاب کے حق میں مظاہرہ کا منظر / تصویر یو این آئی
user

سید خرم رضا

حجاب سے متعلق کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ آ گیا ہے اور طالبات کی تمام عرضیاں خارج کر دی گئی ہیں یعنی اسکولوں میں طالبات کو اسکارف یا حجاب پہننے کی اجازت نہیں ہو گی۔ فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حجاب مذہب کا لازمی جز نہیں ہے۔ بہرحال اس کے ساتھ ایک جانب جہاں اتر پردیش جیسی بڑی ریاست میں بی جے پی کی واپسی نے فرقہ پرست قووتوں کے حوصلے بلند کر دیئے ہیں وہیں پورے ملک میں فلم ’کشمیر فائلس ‘کو لے کر بھی سماج منقسم نظر آ رہا ہے۔

مدا کوئی بھی ہو، چاہے ریاستی اسمبلی انتخابات میں کامیابی یا ہار کا ہو، اسکولوں میں حجاب پہننے کا معاملہ ہو یا فلم کشمیر فائلس ہو، ہر مدے سے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے سماج منقسم ہونے کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہو۔ لوگ کچھ بھی کہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں سماج پوری طرح منقسم نظر آ یا۔ ایک جانب جہاں اکثریتی طبقہ کی نمائندگی بی جے پی کرتی نظر آئی تو دوسری طرف اقلیتوں نے سماجوادی پارٹی کے قیادت والے اتحاد کی رسی کو بہت مضبوطی سے پکڑے رکھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دونوں کو کامیابی ملی، لیکن جہاں اکثریتی طبقہ نے بی جے پی کے پھول کو کھلا دیا، وہیں اقلیتوں کو سماجوادی کی سائیکل پر سواری ملی، لیکن اس سب کے بیچ ہندوستان کہیں پیچھے رہ گیا۔


اس سال جنوری میں اوڈوپی کے ایک گورنمنت پی یو کالج میں چھ لڑکیوں کو حجاب پہن کر اپنی کلاس روم میں داخل ہونے سے روک دیا گیا اور کالج کے اس فیصلے کے خلاف بطور احتجاج یہ طالبات کالج کے باہر بیٹھ گئیں۔ اس کے بعد ان میں سے ایک طالبہ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس کا فیصلہ آ گیا ہے اور اب طالبات کو تعلیم جاری رکھنے کے لئے کالج میں بغیر حجاب کے ہی جانا ہوگا اور فی الحال ریاست کے دیگر کالجوں اور اسکولوں میں طالبات کو بغیر حجاب کے ہی تعلیم جاری رکھنی ہوگی۔

موجودہ حالات میں یہ حجاب پہننے اور حجاب نہ پہننے کی بیماری یہیں تک رہے تو بھی بہتر ہے، لیکن ایسا لگتا نہیں کیونکہ دوسری ریاستوں میں بھی اس کا نفاذ ہوگا اور پھر اقلیتوں کی جانب سے کسی کو سپریم کورٹ میں بھی بھیجا جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ مدا زندہ رہے گا اور مدا زندہ رہنے کا مطلب ہے سماج میں فرقہ پرستی کا سانپ اپنا زہریلا پھن نکالے موجود رہے گا۔


دوسری جانب ذرائع ابلاغ میں کشمیری پنڈتوں پر بنی فلم ’کشمیر فائلس‘ کو جہاں کئی ریاستوں نے ٹیکس فری کرنے کا اعلان کرنا شروع کر دیا ہے وہیں یہ کہا جا رہا ہے کہ کچھ سنیما ہالس میں اس فلم کو دیکھنے کے دوران ناظرین جہاں کانگریس کو برا کہہ رہے ہیں وہیں مذہبی نعرے بھی لگا رہے ہیں۔ ناظرین کو اس بات کا علم بھی نہیں ہے کہ جب کشمیری پنڈتوں کو کشمیر سے نکلنے پر مجبور کیا گیا تھا، اس وقت کانگریس بر سر اقتدار نہیں تھی بلکہ بی جے پی کی حمایت والی و پی سنگھ کی حکومت تھی اور وہاں کے گورنر اس وقت جگموہن تھے، جو بعد میں بی جے پی کی حکومت میں وزیر بھی رہے تھے۔ بس اظہار کی آزادی کے نام پر سماج مزید تقسیم نہ ہو کیونکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کشمیری پنڈت بہت تکلیف دہ دور سے گزرے ہیں۔

سماج کے ہر طبقہ کو ہندوستان کی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور ترقی جب ہی ممکن ہے جب ملک میں امن ہو، اتحاد ہو، اگر سماج منقسم رہا اور سب کی صلاحیتیں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگی رہیں تو کبھی کسی کو ٹانگیں کھینچنے میں کامیابی مل جائے گی تو کبھی کسی کو، اس سب کی وجہ سے ملک کی ترقی بری طرح متاثر ہو گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔