یوپی میں بی جے پی کی جیت کے بعد بھی مسلمان بے خوف، اعتماد میں اضافہ!

بی جے پی نے حالیہ 5 میں سے 4 ریاستوں کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے، جن میں اتر پردیش سب سے بڑی ریاست ہے۔ یہاں 19 فیصد مسلمان رہتے ہیں جن کی آبادی چار کروڑ سے زیادہ ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

لکھنؤ: بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ غالباً یوگی آدتیہ ناتھ ایک بار پھر اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوستان میں ہندوتوا کے ایجنڈے پر چلنے والی پارٹی ہے۔ ہندوستان میں اکثریت ہندوؤں کی سب سے بڑی تنظیم آر ایس ایس کو بی جے پی کی ماں سمجھا جاتا ہے۔ عام طور پر بی جے پی کی شبیہ مسلم مخالف ہے، اگرچہ بڑے لیڈر ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کی بات کرتے ہیں لیکن اس پر سوال اٹھتے رہتے ہیں۔ گزشتہ 8 سال سے مرکز کے اقتدار پر قابض بی جے پی نے حالیہ 5 میں سے 4 ریاستوں کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے، جن میں اتر پردیش سب سے بڑی ریاست ہے۔ یہاں 19 فیصد مسلمان رہتے ہیں جن کی آبادی چار کروڑ سے زیادہ ہے۔

یوگی آدتیہ ناتھ 23 کروڑ کی آبادی والی اس ریاست میں بی جے پی کے ایسے وزیر اعلیٰ رہے ہیں جنہیں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف اپنے خیالات اور اپنی حکومت کے موقف کی وجہ سے مقبولیت حاصل ہوئی اور عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ زعفرانی لباس میں ملبوس یوگی آدتیہ ناتھ کا یہ روپ ہندوؤں کی اکثریت کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ اتر پردیش کی سیاست میں اکثریتی برادری کی سب سے بڑی علامت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔


یوگی آدتیہ ناتھ کے گزشتہ 5 سالوں میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ ان کے دور حکومت پر فرضی تصادم، کاروبار پر قدغن اور سیاسی علامتوں کے خلاف کارروائی کے داغ ہیں۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ ان کی مسلم مخالف شبیہ کی بنیاد پر انہیں ایک بار پھر اسمبلی انتخابات میں 271 اسمبلی سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ بی جے پی کے لوگ ان کی کامیابی کو ’گڈ گورننس‘ سے منسوب کر رہے ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو، سچ یہ ہے کہ 37 سال بعد اتر پردیش میں دوسری بار کوئی پارٹی حکومت بنا رہی ہے۔ 403 اسمبلی سیٹوں پر مشتمل اتر پردیش اسمبلی میں اکثریت کا ہدف 202 ہے۔ بی جے پی کو 2017 میں 325 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں، اس بار وہ کم ہو گئیں۔ اہم اپوزیشن پارٹی سماج وادی پارٹی کو 125 سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ 2017 میں سماج وادی پارٹی کو محض 47 سیٹیں ہی حاصل ہو سکی تھیں۔

اتر پردیش میں اس کامیابی سے بی جے پی کافی پرجوش ہے اور سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ بی جے پی اب ناقابل شکست بن چکی ہے۔ وہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں مرکز کے اقتدار پر آسانی سے قبضہ کر لے گی اور اقلیتی مسلمانوں کے لئے حالات اور بھی مشکل ہو جائیں گے، نیز ان کو مشکل میں ڈالنے والے قوانین نافذ ہوں گے! اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کی سیاست مسلم دشمنی پر مرکوز ہے، اگرچہ وہ قوم پرستی کا نعرہ دیتی ہے لیکن اس کے تمام فیصلے اکثریتی ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ ہندو تنظیموں کی اشتعال انگیزی اور اقلیتوں کے خلاف مسلسل زہر اگلنے والی بیان بازی کو پارٹی کی پشت پناہی اسے ثابت بھی کرتی ہے۔


مگر اس سب کے باوجود اور تمام خدشات کے درمیان اتر پردیش کا مسلمان اس بار پراعتماد نظر آ رہا ہے۔ 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد جس طرح کا خوف اور اندیشوں کا ماحول تھا وہ اب مسلم طبقہ میں نظر نہیں آتا۔ ایسا اس وقت ہو رہا ہے جب اتر پردیش کے مسلمانوں نے پہلی مرتبہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کے لئے پورے دل سے ووٹ دیا، جبکہ بی جے پی کی اقتدار میں واپسی ہو گئی۔ اس کے باوجود مسلمانوں کے چہروں پر مایوسی نہیں ہے اور وہ خوفزدہ بھی نظر نہیں آتے۔

الیکشن میں مسلمانوں نے یکطرفہ طور پر ووٹنگ کی۔ سی ایس ڈی ایس کے سروے کے مطابق 83 فیصد مسلمانوں نے سماج وادی پارٹی کو ووٹ دیا۔ 2017 میں 46 فیصد مسلمانوں نے ایس پی کو ووٹ دیا تھا۔ کانگریس کو 19 فیصدی مسلمانوں نے ووٹ دیا تھا، وہ سماج وادی پارٹی کے ساتھ اتحاد میں شامل تھی۔ بی ایس پی کو بھی اس وقت 19 فیصد مسلمانوں نے ووٹ دیا تھا۔ مسلمانوں کے یکطرفہ ووٹ دینے کے رجحان کو اس طرح سمجھیں کہ اس بار صرف 3 فیصد مسلمانوں نے کانگریس کو ووٹ دیا۔ جبکہ بی ایس پی کو 6 فیصد مسلمانوں کا ووٹ حاصل ہوا۔ بی ایس پی نے 86 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا، جبکہ کانگریس نے 60 مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا۔ مظفر نگر کی میرانپور اسمبلی سیٹ سے کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے مولانا جمیل احمد قاسمی کو صرف 1253 ووٹ حاصل ہوئے اور کانگریس کے بڑے لیڈر اور اسٹار کمپینر سلمان خورشید کی اہلیہ لوئس خورشید کو فیروز آباد سے صرف 2 ہزار ووٹ ہی مل سکے۔


سماج وادی پارٹی کو ریاست بھر سے 32 فیصد ووٹ حاصل ہوئے، جبکہ بی جے پی کو 41.3 ووٹ حاصل ہوئے۔ مسلمانوں کے لئے راحت کی بات یہ ہے کہ اس بار 34 مسلم امیدوار جیتنے میں کامیاب رہے ہیں جبکہ سابقہ انتخابات میں 24 مسلم امیدوار ہی جیت سکے تھے۔ ارکان اسمبلی کی تعداد پر یوپی کے مسلمانوں میں بحث ہو رہی ہے۔ 2017 کے انتخابات میں سماج وادی پارٹی کے 18، بی ایس پی کے 4 اور کانگریس کے 2 امیدواروں نے الیکشن جیتا تھا۔ اس بار سماج وادی پارٹی کے 30، آر ایل ڈی کے 2 اور ایس بی ایس پی کا ایک مسلم امیدوار رکن اسمبلی منتخب ہوا۔ باغپت سے آر ایل ڈی کے احمد حمید، مرادآباد سے ایس پی کے یوسف انصاری، دھام پور سے نعیم الحسن سمیت نصف درجن امیدوار انتہائی قریبی مقابلہ میں الیکشن ہار گئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بی جے پی نے ان 38 میں سے 17 سیٹیں جیتی ہیں، جہاں 30 فیصد سے زیادہ مسلم آبادی موجود ہے۔

سہارنپور کی سیاسی شخصیت فیروز آفتاب کا کہنا ہے کہ جہاں مسلمانوں کے پاس اضافی ووٹ نہیں تھے وہاں اکثریت متحد ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ جب پوری انتخابی مہم 80-20 پر مرکوز تھی تو پھر کوئی اہم مسائل پر ووٹ کیوں دیتا؟ جب مسلمان متحد ہو رہے تھے تو اکثریت بھی متحد ہو گئی اور حزب اختلاف اکثریت کے دماغ کو پڑھنے سے قاصر رہی۔ ذات پات کی بجائے مذہبی بنیاد پر ووٹوں کی تقسیم ہوئی۔ فیروز آفتاب کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی حساب سے سمجھا جائے تو یہ الیکشن مسلمانوں کے لیے کافی مثبت چیزیں لے کر آیا ہے۔ اکثر ان کے ووٹوں میں جو تقسیم ہوا کرتی تھی وہ نہیں ہوئی! اتر پردیش کی سیاست میں مسلمانوں نے سب کے ساتھ رہنے کے نظریہ کو توڑ دیا ہے۔ یہ ان کی سیاست کی سب سے اہم بات ہے۔ 19 فیصد ووٹ بڑی طاقت ہے، اب اس کا کھیل آگے نظر آئے گا! یہ یقینی طور پر بیداری ہے کہ جہاں جانا ہے وہاں جانا ہے! پچھلے کچھ سالوں میں کورونا، بے روزگاری اور مہنگائی نے سب کو پریشانی میں ڈال دیا ہے، اب مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ اس مشکل کا سامنا کرنے میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ انہیں بہت زیادہ ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ محنت مزدوری میں مصروف ہیں۔


سوال یہ ہے کہ آخر بی جے پی کو ہرانا ہی کیوں ہے! آخر مسلمان اپنا وجود کیوں قائم نہیں کرتا۔ اس کی وجہ سے سیکولر پارٹیوں کو لگتا ہے کہ مسلمان جائے گا بھی کہاں! اس لئے وہ مسلم مسائل پر بھی سنجیدہ نہیں ہیں۔ فیروز وضاحت کرتے ہیں کہ وہ سہارنپور کی جس نکوڑ سیٹ سے تعلق رکھتے ہیں وہاں ایس پی امیدوار دھرم سنگھ سینی 155 ووٹوں سے الیکشن ہار گئے۔ یہاں اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار کو 4 ہزار ووٹ حاصل ہوئے۔ مقامی مسلمان اویسی کی جماعت سے برہم ہیں، ان کا خیال ہے کہ یہاں مجلس نے بی جے پی کو فتح دلائی ہے۔ حالانکہ اس کے لیے بی ایس پی زیادہ ذمہ دار ہے۔ یہاں مسلمان امیدوار سے کس نے مقابلہ کیا۔ یوپی میں 73 اسمبلی سیٹوں پر 30 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں، جن میں سے 39 پر سیکولر پارٹی کے امیدوار نے الیکشن جیتا ہے۔ اگر کوئی مساوات نہیں ہے، تو مسلمان 50 فیصد سے زیادہ کے ساتھ صرف ایک سیٹ جیت پائے گا۔ اسد الدین اویسی کی قیادت والی اے آئی ایم آئی ایم نے اتر پردیش کے انتخابات میں 97 سیٹوں پر مقابلہ کیا ہے اور اسے کل 4.5 لاکھ ووٹ ملے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */