اپوزیشن کی پٹنہ میٹنگ سے بی جے پی بوکھلا اٹھی… سہیل انجم

پٹنہ انقلاب کی سرزمین رہی ہے۔ اس سے قبل بھی وہاں سے کئی سیاسی تحریکیں اٹھیں اور کامیاب رہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پندرہ پارٹیوں کے اس اجتماع سے بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری ہو گئی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر ٹوئٹر&nbsp;@INCIndia</p></div>

تصویر ٹوئٹر@INCIndia

user

سہیل انجم

اگر سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا، جس کی قوی امید ہے، تو 23 جون کو پٹنہ میں منعقد ہونے والی میٹنگ اپوزیشن اتحاد کے سلسلے میں ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔ اگر اتحاد کے خاکے میں رنگ بھرنے میں کامیابی مل گئی تو یہ میٹنگ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کا پیش خیمہ بھی بن جائے گی۔ پٹنہ انقلاب کی سرزمین رہی ہے۔ اس سے قبل بھی وہاں سے کئی سیاسی تحریکیں اٹھیں اور کامیاب ہوئی ہیں۔ اسی لیے بی جے پی کو بہت ڈر لگ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پندرہ پارٹیوں کے اس اجتماع سے اس پر بوکھلاہٹ طاری ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لیڈران وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکہ دورے کے سلسلے میں شادیانے بجانے کے بجائے اپوزیشن پر لعن طعن کے سُر الاپنے لگے ہیں۔ اس کے کئی رہنما اپنی عادت اور فطرت کے مطابق کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ صرف وہی نہیں بلکہ گودی میڈیا کے پیٹ میں بھی مروڑ اٹھ رہا ہے۔ اپوزیشن کو برا بھلا کہنا گودی میڈیا کے لیے چورن کا کام کرتا ہے۔ لہٰذا وہ چورن پر چورن پھانک رہا ہے۔

اپوزیشن کی یہ میٹنگ کیوں ہوئی تھی اس کے بارے میں زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، قارئین بخوبی واقف ہیں۔ پھر بھی اس سلسلے میں وضاحت کرنا بے معنی نہیں ہوگا۔ دراصل یہ حکومت جن خطوط پر کام کر رہی ہے اور اس کے جو عزائم ہیں ان کے پیش نظر سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر اگلے پارلیمانی انتخابات میں بھی بی جے پی کو کامیابی مل گئی اور مرکز میں پھر اس کی حکومت بن گئی تو پھر اس کے بعد کوئی الیکشن نہیں ہوگا۔ 2029 کے الیکشن کو بھول جانا ہوگا۔ آئین و دستور کو کالعدم کر دیا جائے گا۔ وہ ہندوستان جسے آزادی کے بعد اس کے معماروں اور رہنماؤں نے ایک جمہوری اور سیکولر و سوشلسٹ ملک بنایا تھا ایک ہندو ملک بن جائے گا۔


یہ اندشیہ بے بنیاد نہیں لگتا۔ جس طرح حکومت سی بی آئی، ای ڈی اور محکمہ انکم ٹیکس کو استعمال کرکے اپوزیشن رہنماؤں کو پریشان کر رہی اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو جیلوں میں ڈال رہی ہے وہ کسی خطرناک مستقبل کی جانب اشارہ ہے۔ اب یہ عام وطیرہ بن گیا ہے کہ جس نے بھی حکومت کے کسی فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی اس کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کا استعمال شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی ان منتقمانہ کارروائیوں کی وجہ سے حزب اختلاف کے بہت سے لیڈروں نے خاموشی اختیار کر لی تھی۔ صرف کانگریس ہی وہ واحد سیاسی جماعت تھی جو حکومت کے خلاف کھل کر بول رہی تھی۔ راہل گاندھی جس طرح اس حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے ہیں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔

اسی لیے حکومت نے ان کے خلاف ایک سازش تیار کی اور ایک مقدمے کی آڑ میں ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت کو ختم کر دیا گیا اور ان سے ان کا سرکاری مکان بھی چھین لیا گیا۔ اب اپوزیشن رہنماؤں کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اگر اب بھی انھوں نے ہوش کے ناخن نہیں لیے، اپنی اناؤں کی قربانی نہیں دی، اپنے ذاتی مفادات کو الگ تھلگ رکھ کر اتحاد کی کوشش نہیں کی تو پھر کوئی نہیں بچے گا۔ لہٰذا بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی دعوت پر پندرہ پارٹیوں کے اعلیٰ رہنما پٹنہ پہنچے۔ سترہ پارٹیاں اس میں شریک ہونے والی تھیں لیکن دو پارٹیاں کسی مجبوری کے سبب نہیں آسکیں۔ اس میٹنگ میں جو کہ ایک تاریخی میٹنگ تھی، تمام لیڈروں نے اتحاد پر زور دیا۔ ایسا محسوس ہوا کہ ہر پارٹی اور ہر لیڈر نے اپنے رویے اور اپنے موقف میں لچک پیدا کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میٹنگ انتہائی خوشگوار موڈ میں ہوئی اور وسط جولائی میں شملہ میں اگلی میٹنگ کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے میزبان کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے ہوں گے۔


اس سے قبل مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کانگریس کے خلاف بیان بازی کرتے رہے ہیں اور ان کی موجودگی میں اتحاد نہ ہونے پر مصر رہے ہیں۔ لیکن اس میٹنگ میں وہ تینوں بھی آئے اور جو باڈی لینگویج دیکھنے کو ملی اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان رہنماؤں نے حالات کی سنگینی کو سمجھا ہے۔ ممتا بنرجی نے جس طرح راہل گاندھی کی سیٹ کے پاس جا کر ان سے گفتگو کی وہ اپنے آپ میں ایک بڑا واقعہ ہے۔ البتہ بی ایس پی کی لیڈر مایاوتی اس میٹنگ میں شریک نہیں ہوئیں۔ دراصل گزشتہ دنوں ان کے خلاف بدعنوانی کا ایک معاملہ اجاگر ہوا ہے اور انھیں ڈر ہے کہ حکومت ان کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کا استعمال کرے گی۔ شاید اسی وجہ سے وہ نہیں آئیں۔ لیکن تجزیہ کاروں اور حالات پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ وہ آخر وقت میں اس اتحاد میں شامل ہو جائیں گی۔

تاہم اس میٹنگ کے بعد جو پریس کانفرنس ہوئی اس میں کیجریوال شامل نہیں ہوئے۔ وہ دہلی حکومت کے خلاف مرکزی حکومت کے آرڈیننس پر کانگریس کا موقف جاننا چاہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس اس سلسلے میں اپنی پوزیشن واضح کرے۔ اس پر ممتا بنرجی نے مشورہ دیا کہ کیجریوال کانگریس رہنماؤں کے ساتھ دہلی میں چائے پر بیٹھیں اور اس مسئلے کو حل کریں۔ ادھر کانگریس کا کہنا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس سے قبل اس سلسلے میں اپنا موقف واضح کرے گی۔ دراصل کانگریس کے بعض رہنماؤں کا خیال ہے کہ پارٹی کو اس معاملے پر کیجریوال کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ کیونکہ کیجریوال کانگریس کے سخت خلاف رہے ہیں اور انھوں نے دہلی میں کانگریس کے ووٹوں پر قبضہ کرکے ہی اپنی حکومت بنائی ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس بارے میں کانگریس کوئی ایسا فارمولہ نکالے گی جس سے کیجریوال کی مخالفت کرنے والے پارٹی لیڈر بھی مطمئن ہو جائیں اور آرڈیننس کی مخالفت بھی ہو جائے۔


شملہ میں ہونے والی میٹنگ میں ممکن ہے کہ اس پر تبادلہ خیال ہو کہ بی جے پی کے خلاف کس طرح الیکشن لڑا جائے۔ کئی رہنماؤں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ بی جے پی کے ہر امیدوار کے مقابلے میں اپوزیشن کا صرف ایک امیدوار ہو۔ حالانکہ اس میں بڑی مشکلات ہیں۔ لیکن پھر بھی لوگوں کو امید ہے کہ اس بارے میں کوئی نہ کوئی سمجھوتہ ہو جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ تمام پارٹیاں اپنے عزائم بدلیں گی اور اپنے موقف میں نرمی لائیں گی تاکہ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال کرکے حکمت عملی تیار کی جائے۔ اگر ایسا کوئی فارمولہ بن گیا تو بی جے پی کو بڑی آسانی سے ہرا یا جا سکے گا۔

بی جے پی بھی اس بات سے واقف ہے۔ لہٰذا حکومت کوئی نہ کوئی ایسی چال ضرور چلے گی کہ اپوزیشن اتحاد ہی نہ ہو سکے اور اگر ہو بھی جائے تو ون ٹو ون کا فارمولہ نہ بننے پائے۔ اگر بی جے پی کے ہر امیدوار کے مقابلے میں اپوزیشن کا صرف ایک امیدوار نہیں ہوگا تو اسے ہرانا آسان نہیں ہوگا۔ بی جے پی اپنی طرف سے یہ کوشش کرے گی کہ اس کے ایک امیدوار کے مقابلے میں کئی امیدوار ہوں تاکہ اس کے مخالفین کے ووٹ بٹ جائیں اور اس کی کامیابی یقینی ہو جائے۔ وہ اس کے لیے ہر جائز ناجائز حربہ اختیار کرے گی۔ اپوزیشن رہنماؤں کو اس حربے کو ناکام بنانا ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔