فوج تو اہل ہے، کیا حکومت بھی اہل ہے مودی جی!... اعظم شہاب

بیروزگاری ملک کی40 کروڑ عوام کو نگل رہی ہے۔ فوج کی مضبوطی کے باوجود ملک کی سرحدوں پر دراندازی ہو رہی ہے۔ ان حقیقتوں پر پردہ تو ڈالا جاسکتا ہے مگر انہیں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

اعظم شہاب

بڑے بوڑھے شاید اسی لیے کہتے ہیں کہ آدمی کو کم بولنا چاہیے کیونکہ جب وہ زیادہ بولتا ہے تو پھر وہ جھوٹ بولے گا یا پھر اپنی جگ ہنسائی کا سامان ہی کر لے گا۔ ہمارے پردھان سیوک جی کل اسی کا شکار ہوگئے۔ لال قلعہ سے وہ 86 منٹ تک دہاڑتے رہے اور اس دہاڑ میں وہ یہ بھول گئے کہ جسے وہ اپنی حصولیابی بتا رہے ہیں وہ ان کی ہزیمت کا باعث بن جائے گا، سو یہی ہوا۔ انہوں نے لداخ میں اپنی فوج کی بہادری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا نے لداخ میں دیکھ لیا کہ بھارت اپنی خود مختاری کی حفاظت کے لیے کیا کرسکتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب بھارت مضبوط اور محفوظ ہو۔ جس وقت پردھان سیوک یہ باتیں کہہ رہے تھے تو وہاں پر موجود لوگوں کی جانب سے تالیوں کے خوب بجنے کی خبر آئی مگر تھوڑی ہی دیر بعد سوشل میڈیا پر پردھان سیوک کے اس بیان کے غبارے سے لوگوں نے ہوا نکال دی۔

مودی جی کے اس پروچن کے بعد لوگوں نے ان سے پوچھنا شروع کر دیا کہ لداخ میں فوج نے بہادری کا مظاہرہ تو کیا مگر آپ نے اور آپ کی حکومت نے کیا کیا؟ ایک ٹوئٹر یوزر اشوک شکلا نے کہا کہ لداخ میں آپ نے جو کیا وہ دنیا نے یقینا دیکھ لیا کہ آپ نے ہماری فوج کے 20 جوان مروا ڈالے۔ آپ بھارت کی خود مختاری کی حفاظت کرنے میں اتنے اہل ہیں کہ چین ابھی تک بھارت کی سرزمین پر بیٹھا ہوا ہے۔ آپ براہ راست چین کا نام لینے کے بجائے ہمیشہ اشاروں کنایوں میں بات کرتے ہیں۔ ودیا نامی ایک ٹوئیٹر ہینڈل پر کہا گیا کہ آپ اپنی ناکامی کو اپنی حصولیابی بتاکر پیش کررہے ہیں۔ سندیپ نام کے کسی یوزر نے لکھا کہ یہ انسان نیوز نہیں پڑھتا ہوگا، بس آئی ٹی سیل ہی اس کی معلومات دانی کا ذریعہ ہے۔ ہریش نامی یوزر نے کہا کہ شی زن پنگ نے دنیا کو دکھایا کہ بھارت میں اصلی پپو کون ہے، مودی اصل پپو ہیں۔ اسی طرح سے سیکڑوں لوگوں نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ راہل گاندھی نے بھی مودی پر بہت سخت حملہ کیا ہے اور کہا ہے کہ مودی جی کے علاوہ پورے ملک کو اپنی فوج کی صلاحیت پر بھروسہ ہے۔ راہل گاندھی نے کیا کہا ہے؟ آپ قومی آواز کے انہیں صفحات پر دیکھ سکتے ہیں۔ لنک حاضر ہے۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پردھان سیوک جی کو اس طرح کے جھوٹ، دروغ گوئی اور خود اپنے ہاتھوں اپنی پیٹھ تھپتھپانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تو اس کے جواب سے گزشتہ 6 برسوں سے ہر ہندوستانی واقف ہوگیا ہے۔ دوکاندار وہی مال بیچتا ہے جس کے خریدار ہوتے ہیں۔ آج ملک کی اکثریت جو مال چاہتی ہے مودی جی وہی بیچ رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مال کی عادت ڈالنے میں مودی جی کو بہت محنت کرنی پڑی ہے۔ نیوزچینل، سوشل میڈیا، بھاشن، بیانات اور نیوزچینلوں کے ڈیبیٹ کے ذریعے جھوٹ اور سچائی سے آنکھیں چرانے کا عادی بنا دیا گیا ہے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ کارگر جو نسخہ ہوا ہے وہ پاکستان کے نام پر مسلم دشمنی کے فروغ کا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر چین کی دراندازی کی خبر کے ساتھ عمران خان کی فوٹو قومی نیوز چینلوں پر نظر نہیں آتی۔ مگر بدقسمتی سے ایسا ہو رہا ہے۔

مودی جی نے اپنے بیان میں کہا کہ چاہے ایل اے سی ہو یا ایل او سی، ہماری فوج دونوں کا مقابلہ کرنے کی اہل ہے۔ میرا دعوی ہے کہ مودی جی سے اچانک پوچھ لیا جائے کہ پردھان سیوک جی ایل اے سی اور ایل اوسی میں کیا فرق ہے تو شاید وہ نہ بتا سکیں، کیونکہ وہ اپنی دھن اور اپنے زعم میں رہنے والے شخص ہیں جہاں وہی سچ ہوتا ہے جسے وہ سچ کہہ دیں۔ پھربھلا حقیقت کا ادراک انہیں کیسے ہوسکتا ہے۔ بہر حال مودی جی کے اس بیان کے بعد ہمارے کسی قومی میڈیا پر یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ ہماری فوج تو اہل ہے، کیا حکومت بھی اہل ہے؟ ایل اوسی پر تو کوئی دراندازی نہیں ہوئی ہے، البتہ ایل اے سی پر لداخ کی دھرتی ماں ابھی تک چینی فوجوں کے جوتوں سے کراہ رہی ہے۔ مگر ایل اے سی کا بیلنس کرنے کے لیے ایل اوسی کا ذکر ضروری سمجھا گیا تاکہ مودی جی کے پرم متر شی زی پنگ ناراض نہ ہوجائیں۔ یوں بھی ایل اے سی سے زیادہ ایل او سی کے نام پر ووٹوں کی فصل اچھی آتی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ مودی جی جو پروس رہے ہیں، ہمارا قومی میڈیا اسے سجاکر عوام کے سامنے پیش کررہا ہے اور ملک کی عوام بیوقوف بن رہی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ لال قلعہ کی اپنی تقریر میں مودی جی نے خود کو بے نقاب کردیا ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کے عوام جھوٹ اورجذباتی لن ترانیوں سے کچھ دیر کے لیے بہل تو ضرور جائیں گے، مگر ہر بار بہل جائیں گے؟ اس کا امکان کم ہے۔ بیروزگاری ملک کی 40 کروڑ عوام کو نگل رہی ہے۔ فوج کی مضبوطی کے باوجود ملک کے سرحدوں پر دراندازی ہو رہی ہے۔ ان حقیقتوں پر پردہ تو ڈالا جاسکتا ہے مگر انہیں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */