تو کیا محبت ہار گئی؟... اعظم شہاب

نفرت و استحصال کے نظریے کو شکست دینے کے متمنی اگر مایوس ہونے کے بجائے آج سے ہی نئے سرے سے اپنی صف بندی شروع کر دیں تو یقین جانئے فائنل کا نتیجہ اس سیمی فائنل سے  قطعاً مختلف ہوگا۔

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی اور پی ایم مودی</p></div>

راہل گاندھی اور پی ایم مودی

user

اعظم شہاب

چار صوبوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج 3 دسمبر کو برآمد ہوئے۔ تین صوبوں میں بی جے پی کی جیت نے ان تمام رپورٹوں و قبل از نتائج جائزوں کو غلط ثابت کر دیا جن میں چھتیس گڑھ میں کانگریس کو واضح اکثریت اور مدھیہ پردیش و راجستھان میں کانٹے کی ٹکر کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ یوں بھی سروے و جائزوں کی حیثیت حتمی نہیں ہوا کرتی ہے لیکن ایسا بھی بہت کم ہوتا ہے کہ شکست یا کانٹے کی ٹکر کا رجحان بھرپور اکثریت میں تبدیل ہو جائے۔ لیکن تینوں صوبوں میں ایسا ہوا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یا تو سروے و جائزے پیش کرنے والے ادارے زمینی صورت حال کا اندازہ نہیں لگا سکے یا پھر عین رائے دہی کے وقت کوئی ایسا ’چمتکار‘ ہو گیا جس کا اندازہ بی جے پی کو بھی نہیں ہوا کیونکہ اس کے داخلی سروے میں بھی چھتیس گڑھ و مدھیہ پردیش میں اس کو اکثریت سے دور بتایا گیا تھا۔ خیرکچھ بھی ہو، لیکن اب تو یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی نے کانگریس سے چھتیس گڑھ و راجستھان چھین کر مدھیہ پردیش پر اپنا قبضہ برقرار رکھا ہے۔

اس غیر متوقع نتیجے کے بعد یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ جب کانگریس کی واضح اکثریت کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا تو پھر نتائج اس کے بالکل برخلاف کیونکر آئے؟ تجزیہ نگار اس کے کئی جوابات دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی اسے کانگریس کا ’ریلیکس موڈ‘ میں چلے جانا بتا رہا ہے تو کوئی اتحادی پارٹیوں کے ساتھ اس کے غیر مناسب رویے کا ذکر کر رہا ہے۔ سچ پوچھئے تو اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا، لیکن اسی کے ساتھ اس بیانیے کو بھی پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے جس کے تحت اس الیکشن کو 2024 کے فائنل کے طور پر پیش کیا گیا۔ گزشتہ سال بھر سے میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بٹھایا گیا کہ پانچ ریاستوں کے یہ اسمبلی انتخابات دراصل آئندہ سال کے عام انتخابات کے سیمی فائنل ہیں جن میں کامیاب ہونے والی پارٹی ہی مرکزی اقتدار پر قابض ہوگی۔ اس تصور کے ساتھ بی جے پی نے پولرائزیشن کی مہم چلائی جو اتفاق سے ان ریاستوں میں خاص طور پر اثر انداز ہوئی جنہیں ’کاؤ بیلٹ‘ کہا جاتا ہے۔


ان نتائج کے تناظر میں ایک بات ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ کانگریس ان ریاستوں میں ناکام ہوئی ہے جن میں اس کا مقابلہ براہِ راست بی جے پی سے ہوا۔ تلنگانہ جہاں بی جے پی مقابلے میں نہیں تھی وہاں اس نے واضح اکثریت حاصل کی۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کانگریس کے اندر بی جے پی سے مقابلے کی طاقت نہیں ہے؟ تو اس کا جواب دراصل مقابلے کی نوعیت میں پوشیدہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کانگریس کے مقابل میں تنہا بی جے پی نہیں ہوا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ سَنگھ کے کیڈر سمیت میڈیا، انتخابی کمیشن، مرکزی تفتیشی ایجنسیاں اور کسی حد تک انتظامیہ بھی ہوتی ہے۔ یعنی کانگریس سے تنہا مقابلے کے لیے بی جے پی کا پورا لشکر ہوا کرتا ہے۔ اس لشکر کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے مرکزی حکومت کی سطح پر کی جانے والی کوششوں کا ایک ثبوت بھوپال میں 28 اکتوبر کو منظرِ عام پر آیا جس میں نرمداپورم میں پارٹی کی علاقائی میٹنگ میں وزیر داخلہ امت شاہ نے پارٹی لیڈروں سے کہا تھا کہ ’’کمل کا دھیان نہ رکھنے والے افسران و ملازمین کو چھوڑا نہ جائے۔‘‘

کانگریس کے کسی لیڈر کے ذریعے کسی کو دھمکی دینے یا دیکھ لینے کا کوئی معاملہ سامنے تو نہیں آیا، لیکن الیکشن کے ابتدائی دنوں میں آنے والے اوپینین پول نے اس کو غافل ضرور کر دیا۔ ان رجحانات میں جیسے ہی یہ امکان سامنے آیا کہ کانگریس دو ریاستوں میں بھرپور اکثریت حاصل کرے گی اور دو ریاستوں میں کانٹے کی ٹکر ہوگی تو وہ یہ بھول گئی کہ اس کا مقابلہ اس بی جے پی سے ہے جو نفرت کو بھی دیش بھکتی کے لبادے میں پیش کرنے کا ہنر جانتی ہے۔ اس نے سوچا کہ جس طرح کرناٹک میں مودی جی کا رونا دھونا، حجاب، بجرنگ بلی جیسے موضوعات بی جے پی کو شکست سے نہیں بچا سکے اسی طرح مدھیہ پردیش و راجستھان میں بھی ہوگا۔ لیکن اول تو تینوں ریاستیں جنوبی ہند میں نہیں ہیں کہ جہاں پولرائزیشن کی سیاست اس قدر اثرانداز نہیں ہو سکتی، اور دوسری یہ کہ ان ریاستوں میں ہندو-مسلم منافرت اور ذات پات کی سیاست کا زبردست عمل دخل رہتا ہے جنہیں بی جے پی اپنے حق میں ہموار کر لیتی ہے۔ اس کا نتیجہ اتر پردیش کے گزشتہ اسمبلی انتخاب میں بھی ظاہر ہوا تھا جب تمام رجحانات کے برخلاف بی جے پی کو بھرپور اکثریت حاصل ہوئی۔


ایسی صورت میں جب ’بھار ت جوڑو یاترا‘ کے سوشل آڈٹ کے نتائج کا ملک منتظر تھا، بی جے پی کی کامیابی نے گویا کانگریس کی محبت کی دوکان پر اپنے نفرت کی سیاست کا قفل لگا دیا۔ تو کیا بی جے پی کی یہ کامیابی محبت کی شکست ہے؟ تو اس کا جواب راہل گاندھی کے ہی دوسرے نعرے میں ہی مل جاتا ہے کہ ’ڈرومت‘۔ یعنی کہ اگر تین ریاستوں میں نفرت کی سیاست نے محبت کے پیغام کو شکست دے دی ہے تو اس شکست سے ڈرو مت کیونکہ نفرت کا ایک حربہ ڈر پیدا کرنا بھی ہے۔ ایسی حالت میں شکستہ دل ہونے کے بجائے حقیقی صورت حال کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا احتساب کیا جانا چاہئے کہ آخر وہ کیا عوامل تھے جس کی وجہ سے شکست ہاتھ آئی۔ اس کے بعد اگلا پڑاؤ 2024 کے عام انتخاب کا ہے، نفرت و استحصال کے نظریے کو شکست دینے کے متمنی اگر مایوس ہونے کے بجائے آج سے ہی نئے سرے سے اپنی صف بندی شروع کر دیں تو یقین جانئے فائنل کا نتیجہ اس سیمی فائنل سے قطعاً مختلف ہوگا۔

(نوٹ: یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے ہے، اس سے ’قومی آواز‘ کا متفق ہونا ضروری نہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔