ملک میں بڑے پیمانے پر سیاسی تبدیلی کے آثار

مرکز کی طرح ریاستی حکومتیں بھی عوام کے ووٹ سے ہی تشکیل پائی ہیں۔ ایسے میں کسی کو بھی دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر نواب</p></div>

تصویر نواب

user

نواب علی اختر

آج سے تقریباً 9 سال قبل جب سے مرکز میں بی جے پی زیر قیادت مودی حکومت اقتدار میں آئی ہے اس وقت سے ملک میں جمہوری اداروں پر ایک مخصوص تسلط کو یقینی بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ویسے تو اس طرح کے عزائم بہت پہلے سے ظاہر کئے جاتے رہے ہیں لیکن ان عزائم پرعمل آوری کا سلسلہ چند برسوں سے شروع ہوا ہے۔ مرکز میں مودی حکومت کے تشکیل پانے کے بعد سے یہ کوششیں شدت کے ساتھ شروع ہوگئی ہیں۔ ایسا تاثر عام ہے کہ ایسی کوششوں کو حکومت کی بھی بالواسطہ تائید حاصل ہے۔ اس طرح کی باتیں کرنے والوں پر حکومت اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی خاموشی کے نتیجہ میں ان عناصر کے حوصلے بلند ہیں جو عوامی زندگی میں ملک کے قوانین اور دستوری گنجائشوں کی خلاف ورزی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

جبکہ جمہوری اور وفاقی طرز حکمرانی میں ریاستوں کی منتخب حکومتوں اور مرکزی نمائندوں کا ایک متوازن اور اہم رول ہوتا ہے۔ ہر جمہوری ادارے کو اپنے طور پر ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں۔ ایک ادارے کی دوسرے ادارے میں مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہر ادارے کے اپنے دائرے ہیں اور اسی میں رہتے ہوئے سبھی کو کام کرنے کی ضرورت ہے تبھی توازن کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ تاہم حالیہ عرصہ میں گورنروں کی جانب سے ریاستوں کی منتخب عوامی حکومتوں سے ٹکراؤ عام بات ہوگئی ہے۔ گورنروں کی جانب سے مرکزی نمائندوں کا رول ادا کرتے ہوئے ایک دستوری سربراہ ہونے کی روایت کو متاثر کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے ریاستوں اور گورنروں کے مابین ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ اس سے دونوں ہی فریقین کی شبیہ متاثر ہو رہی ہے۔


 یکے بعد دیگرے کچھ ریاستوں میں اس طرح کے حالات پیدا کر دیئے گیے ہیں۔ یہ صورتحال ان عوام سے بھی مذاق کے مترادف ہیں جو اپنے ووٹ کے ذریعہ اپنی پسند کی حکومتوں کو منتخب کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت بھی عوام کی منتخب حکومت ہے اور ریاستی حکومتیں بھی ان ریاستوں کے عوام کے ووٹ سے ہی تشکیل پائی ہیں۔ ایسے میں کسی کو بھی دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ یہی ہمارے جمہوری اور وفاقی طرز حکمرانی کا اصول ہے۔ مرکز اور ریاستوں میں الگ الگ پارٹیوں کی حکومتیں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ کئی مواقع پر ایسا ہوا ہے کہ مرکز میں کسی پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو ریاستوں میں دوسری پارٹیوں کوعوام نے پسند کیا۔ دونوں ہی حکومتوں کو اپنے اپنے طور پرعوامی فیصلے کا احترام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

سیاسی اختلافات کی وجہ سے ملک میں جمہوری اور دستوری روایات سے انحراف کی روش عام ہوگئی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ خود مرکزی حکومت ایسا طریقہ اختیار کر رہی ہے جس سے ملک کی قدیم روایات کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اس میں یہ خیال بھی نہیں رکھا جا رہا ہے کہ دستور اور قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ وفاقی اور جمہوری طرز حکمرانی کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ گورنروں کے تقرر کے ذریعہ مرکزی حکومت ریاستوں کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر ریاستوں میں حکومتوں اور گورنروں کے مابین اختلافات عام ہوگئے ہیں۔ پہلے بھی یہ اختلافات ہوا کرتے تھے تاہم یہ اتنے عام نہیں تھے۔ ایک دو مسائل پر اختلاف رائے ہوا کرتا تھے لیکن گورنر کی جانب سے ریاستی حکومت کا اور ریاستی حکومت کی جانب سے گورنر کا احترام کیا جاتا تھا۔


 گورنر بھی سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھا کرتے تھے۔ اپنی دستوری اور قانونی ذمہ داریوں کی تکمیل ہی ان کا منشاء ہوا کرتی تھی۔ تاہم حالیہ عرصہ میں مودی حکومت کی جانب سے گورنروں کو جس طرح سے ریاستی حکومتوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اس نے ساری روایت ہی بدل دی ہے۔ گورنر اور ریاستی حکومتیں اب ایک دوسرے کو اپنا حریف سمجھنے لگی ہیں۔ ایک دوسرے پر کسی کو اعتماد نہیں رہا۔ گورنر اور ریاستی حکومتوں کے مابین اختلافات کے دوران اب مرکزی حکومت نے بھی باضابطہ ریاستی منتخبہ حکومتوں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے اور وہ راست گورنر کو ریاستی امور میں فریق بنانے لگی ہیں۔ گزشتہ دنوں رام نومی کے موقع پر ملک کے کچھ حصوں میں تشدد ہوا۔ بہار اور بنگال میں مرکزی وزیر داخلہ نے راستی گورنروں کو فون کیا۔

 حالیہ عرصہ میں کئی ریاستوں میں دیکھا گیا ہے جہاں مرکزی حکومت کے مقرر کردہ گورنر کی جانب سے ریاستی حکومتوں کے کام کاج میں رخنہ اندازی کی گئی ہے، ان میں رکاوٹیں پیدا کی گئی۔ ریاستی حکومتوں کے لیے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں کو نیچا دکھانے کی بھی کوششیں ہوئیں جو افسوسناک ہونے کے ساتھ ہی ہندوستانی طرز حکمرانی کے اصولوں اور روایات کے مغائر ہے۔ اس سلسلے میں دہلی کو سب سے بڑی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے جہاں گزشتہ دنوں کارپوریشن کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود عام آدمی پارٹی کواپنا میئر نہیں بنانے دیا گیا۔ دہلی کی سیاست میں کئی ماہ افراتفری کا ماحول رہا حالانکہ عدالت کی مداخلت کے بعد عام آدمی پارٹی کسی طرح اپنا میئر بنانے میں کامیاب ہوئی۔


بی جے پی اس غلط فہمی کا شکار تھی کہ عام آدمی پارٹی کے ساتھ نورا کشتی جاری رہنے سے کانگریس کو عوام بھول جائیں گے کیونکہ کانگریس کے سابق نائب صدر راہل گاندھی کی’بھارت جوڑو یاترا‘ کی پذیرائی اورعوامی مقبولیت سے بھگوا خیمے میں بھونچال مچا ہوا ہے اور اسی وجہ سے کانگریس سے عوام کا دھیان ہٹا کرعام آدمی پارٹی کے ساتھ مل کر ایک نئی سازش کا تجربہ کیا جا رہا ہے جو کامیاب ہونے والا نہیں ہے۔عوام مہنگائی، نفرت، بے روزگاری جیسے سلگتے مسائل سے عاجز آچکے ہیں۔ اب لوگوں کو مذہب میں بھی اتنی دلچسپی نہیں رہی جو رام مندر یا متھرا جیسے مدعوں پر پگھل جایا کرتے تھے۔ ان مسائل نے ذات پات کی سیاست کرکے اقتدار ہتھیانے والوں کو بے نقاب کرکے عوام کو جملہ بازی کے دام میں نہ پھنسنے کا سبق دیا ہے۔ اس لئے مستقبل میں بڑی سیاسی تبدیلی کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔

اس کا اشارہ تلنگانہ سے مل رہا ہے جہاں گزشتہ روز وزیر اعظم مودی نے عین انتخابات سے قبل متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغازکیا جوعوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ بی جے پی اور مرکزی حکومت سے ریاست تلنگانہ کئی سوالات کے جواب چاہتی ہے۔ بی جے پی قائدین کی جانب سے ریاست میں ریلوے کوچ فیکٹری قائم کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ ریاست کو ایک بھی اعلیٰ تعلیمی ادارہ فراہم نہیں کیے گئے جبکہ بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کو یہ منصوبے دے دیئے گئے۔ ریاست سے ٹیکس وصول کرتے ہوئے بھی ریاست کا حصہ ادا نہیں کیا گیا۔ مرکزی اسکیموں کے فنڈز بھی مناسب انداز سے جاری نہیں کئے گئے۔ مرکزی روزگار میں ریاست کے لیے مناسب مواقع نہیں دیئے گئے۔ صرف انتخابات کے موقع پر منصوبوں کا افتتاح کرکے عوام کی تائید حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔