صدیق کپّن: کیا یوگی حکومت بھی ہزیمت کی منتظر ہے؟... اعظم شہاب

دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ اب ہوا کا رخ تبدیل ہو رہا ہے۔ اس لئے یوگی حکومت کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز آجائے وگرنہ بعید نہیں کہ اسے بھی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑے۔

صدیق کپّن، تصویر آئی اے این ایس
صدیق کپّن، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

دہلی میں آصف تنہا، دیوانگنا کلیتا اور نتاشا نروال کی ضمانت پر رہائی کے بعد متھرا سے یہ خوشخبری بھی آئی کہ 5 ؍اکتوبر 2020 سے سیکشن 151، 107، 116 ؍سی آر پی سی کے تحت گرفتار ملزمان عتیق الرحمان، عالم، مسعود اور معروف صحافی صدیق کپن کو عدالت نے بری کر دیا ہے۔ صدیق کپن کے وکیل نے بتایا کہ عدالت نے کپن اور تین ملزمین کے اوپر سے امن و امان کی خلاف ورزی سے متعلق الزامات کو ہٹا دیا ہے۔ ان بیچاروں کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک دلت لڑکی کی اجتماعی آبرو ریزی کے بعد اس کی رپورٹنگ کے لئے ہاتھرس جا رہے تھے۔ ان لوگوں پر پولیس نے الزام لگایا تھا کہ یہ چاروں صحافی ہاتھرس میں بدامنی پھیلانا چاہتے تھے۔ سب ڈویژنل مجسٹریٹ رام دت رام نے حکم دیا، چونکہ سی آر پی سی کی دفعہ 116 (6) کے تحت کارروائی مکمل کرنے کی حد ختم ہوگئی ہے اور پولیس چارج شیٹ تک داخل نہیں کرسکی ہے، اس لئے چاروں ملزمین کو بری کیا جاتا ہے۔

لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ تب تو صدیق کپن رہا ہوگئے ہوں گے؟ مگر ایسا نہیں ہے۔ یوگی سرکار نے ان پر سیکشن 151، 107، 116 ؍سی آر پی سی کے تحت بے بنیاد الزامات کے علاوہ یو اے پی اے UAPA اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی خلاف ورزی کے سخت الزامات بھی لگا ئے ہیں اس لیے وہ ہنوز جیل میں ہیں۔ اس دوران صدیق کپن کی والدہ کا انتقال بھی ہو گیا اور ان کی تدفین میں بھی وہ شرکت سے محروم رہے۔ ان کو ضمانت دلانے کی خاطر کیرالا ورکنگ جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو انہیں ہائی کورٹ سے رجوع کر نے کے لئے کہا۔ وزیر اعلیٰ کیرالا نے درخواست کی مگر وہ صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ صدیق کپن کی درخواست ضمانت پر دورانِ سماعت اس وقت کے چیف جسٹس بوبڈے نے ان کے وکیل کپل سبل سے پوچھا تھا کہ وہ ہائی کورٹ کیوں نہیں جاتے؟ اس پر سبل نے بتایا تھا کہ درخواست گزار کے اہل خانہ کو نہ تو اس سے جیل میں ملنے دیا جا رہا ہے، نہ کسی وکیل کو ملاقات کی اجازت ہے۔ اس کے بعد جسٹس بوبڈے نے اترپردیش حکومت سے جواب طلب کرنے کے لیے نوٹس جاری کرکے سنوائی کے لیے چار دن بعد کی تاریخ مقرر کر دی تھی۔


اس کے بعد جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے آیا تو عدالت نے یہی موقف اختیار کرتے ہوئے صدیق کپن کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔ صدیق کپن کی گرفتاری کے خلاف پوری صحافتی برادی احتجاج درج کراچکی ہے۔ دہلی یونین آف جرنلسٹس کے صدر ایس کے پانڈے نے یہاں تک کہا کہ ”صدیق کپّن کی گرفتاری اس امر کا اشارہ ہے کہ اترپردیش کی یوگی حکومت میڈیا کو اپنا کام کرنے سے روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ وہ اصل حقائق کو عوام کے سامنے لانے سے روکنے کے لیے کوئی بھی حربہ اپنا سکتی ہے‘‘۔ انہوں نے مشتبہ بنیادوں پر صحافیوں کو گرفتار کرنے کے رجحان کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’صدیق کپّن ایک پروفیشنل جرنلسٹ ہیں۔ انہیں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے ہاتھرس جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا اس لیے فوراً رہا کیا جانا چاہیے‘‘ لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

ڈی یو جے کے علاوہ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے بھی صدیق کپّن کی گرفتاری کے بعد میڈیا کو ہاتھرس کے متاثرہ کنبے سے ملاقات کی اجازت نہیں دینے کے لیے یوگی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ گلڈ کے مطابق ہاتھرس معاملہ میڈیا کے کام میں ریاستی مداخلت کی بدترین مثال ہے۔ ایڈیٹرز گلڈ نے حالیہ مہینوں میں ذرائع ابلاغ پر ریاستی حکومتوں کے بڑھتے ہوئے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ پریس کلب آف انڈیا (پی سی آئی) نے صدیق کپّن کی گرفتاری کو اترپردیش پولیس کے ذریعہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر ایک صحافی پرانسداد دہشت گردی جیسے قوانین کےاستعمال کو غلط ٹھہراتے ہوئے فوری رہائی پر اصرار کیا تھا۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے بھی صدیق کےخلاف درج مقدمات واپس لے کر رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ان ساری اپیلوں کو دو ماہ گزر چکے ہیں لیکن عدلیہ یا انتظامیہ کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔


پریس ایسوسی ایشن آف انڈیا نے بھی یوگی حکومت کے اس اقدام کو میڈیا کا گلا گھونٹنے کی کوشش قرار دیا تھا۔ اس نے اترپردیش پولیس کے اس دعوے کو بے بنیاد بتایا کہ صدیق کپّن کا تعلق پیپلز فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) نامی تنظیم سے ہے۔ صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پولیس اس سلسلے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکی ہے۔ دہلی یونین آف جرنلسٹس کی انتظامیہ کے رکن ایم ساجد نے ریاستی حکومت پر ہاتھرس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے اس گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی اور سپریم کورٹ سے اپیل کی تھی کہ صدیق کپن کو بلا تاخیر رہا کیا جائے۔ اتر پردیش کی پولیس کا دعویٰ تھا کہ اس نے ہاتھرس معاملے پر ذات پات کی بنیاد پر فساد بھڑکانے اور یوگی حکومت کو بدنام کرنے کے لیے تیار کی گئی ایک بین الاقوامی سازش کا پتہ لگایا ہے اور اس کے لیے کئی کروڑ روپیہ بیرونی ممالک سے آئے ہیں۔ حالانکہ سرکاری ادارہ ای ڈی نے اس کی تردید کردی۔

حزب اختلاف کانگریس نے یوگی انتظامیہ کے بین الاقوامی سازش والے پروپگنڈے پر کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ وہ متاثرین کو انصاف دلانے کے بجائے بین الاقوامی سازش کی افواہ گڑھ رہے ہیں۔ آدتیہ ناتھ عوام کو بے وقوف بنانے کے بجائے بیٹیوں کو انصاف دلائیں۔ یہ نہایت افسوسناک صورتحال ہے جس میں صدیق کپن جیسے صحافی کے خلاف انسدادِ دہشت گردی یعنی ’یو اے پی اے‘ اور غداری کے الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔ یوگی اور مودی سرکار کے دور میں عالمی ادارہ (Reporters without border) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ 2020 کے اندر صحافتی آزادی کے باب میں ہندوستان کو 142؍ویں مقام پر رکھا گیا ہے۔ صحافتی آزادی کے لحاظ سے ہندوستان کی حالت اپنے پڑوسی ممالک نیپال، بھوٹان اور سری لنکا سے بھی دگر گوں ہوچکی ہے۔ یہ انحطاط جاری رہا تو بعید نہیں کہ ہندوستان 180 ممالک کی عالمی فہرست میں آخری پائیدان پر پہنچ جائے، لیکن حکومت کو اس کی پرواہ نہیں۔ آصف، دیووانگنا اور نتاشا کے معاملے میں دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ اس بات کا غماز ہے کی اب ہوا کا رخ تبدیل ہو رہا ہے۔ اس لئے یوگی حکومت کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز آجائے۔ وگرنہ بعید نہیں کہ اسے بھی مرکزی وزارت داخلہ کی مانند ہزیمت سے دوچار ہونا پڑے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔