صدیق کپن: پھونکوں سے یہ چراغ بجھائے نہ جائیں گے... اعظم شہاب

جن کے ایمان کا جز ہی حق وانصاف کی سربلندی ہو انہیں نہ تو دنیا کی کوئی جیل اپنے فرض کی ادائیگی سے روک سکتی ہے اور نہ ہی ظلم وستم کی کوئی انتہاہی ان کے پائے استقلال میں لرزش لاسکتی ہے۔

صدیق کپن، تصویر آئی اے این ایس
صدیق کپن، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

ایک ایسا قانون جس کے تحت اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ذمہ داری خود ملزم پر ہو، جس میں پولیس کے سامنے کیا گیا اعترافِ جرم 164؍ کے ہم پلہ قرار پاتا ہو، جس کے تحت گرفتاری 6 ماہ تک ناقابل ضمانت ہو اور جس کی پیچیدگی کا یہ عالم ہو کہ اس کی ہر شق علاحدہ ضمانت کی متقاضی ہو، ایسے قانون کے تحت گرفتار صدیق کپن کو ضمانت دے کر سپریم کورٹ نے واقعی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ گوکہ سپریم کورٹ کے ذریعے کپن کو دی گئی راحت حتمی نہیں ہے لیکن یہی کیا کم ہے کہ اپنے حکم سے سپریم کورٹ نے نہ صرف نچلی عدالت و ہائی کورٹ کو آئینہ دکھا دیا، بلکہ اترپردیش کی یوگی سرکار کو ایک زوردار طمانچہ رسید کر دیا ہے۔ لیکن چونکہ یوگی حکومت شرم وحیا کے ہر لباس سے عاری ہوچکی ہے اس لیے اس طمانچے کا اس پر کسی خاص اثر ہونے کا امکان نہ کے برابر ہے۔ اسی کے ساتھ اس امکان سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نچلی عدالت میں سماعت کے دوران ہی یوگی سرکار پھر کوئی نیا ڈرامہ نہیں شروع کر دے گی۔ کیونکہ جب آئین وقانون پر ہی بلڈوزر چل جائے تو ہٹ دھرمی وجہالت کے علاوہ کسی اور شئے کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟

پچھلے سال جون میں متھرا کی نچلی عدالت نے صدیق کپن کے ساتھ ہاتھرس جانے والے عتیق الرحمان، عالم (ڈرائیور) اور مسعود کو آرپی سی کی دفعہ 116(6),107؍ اور151؍ کے تحت عائد الزامات سے بری کر دیا تھا۔ یہ دفعات امن وامان کی خلاف ورزی سے متعلق تھے جس میں 6ماہ کی مدت میں جانچ مکمل ہوجانی چاہئے۔ چونکہ اترپردیش پولیس متعینہ مدت میں جانچ مکمل کرکے عدالت میں چارج شیٹ داخل نہیں کرسکی تھی اس لیے سب ڈیویژنل مجسٹریٹ رام دت رام نے حکم دیا تھا کہ چونکہ مذکورہ دفعات کے تحت کارروائی کی مدت ختم ہوگئی ہے اس لیے چاروں ملزمان کو ان پر عائد الزامات سے بری کیا جاتا ہے۔ اس برأت کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صدیق کپن اور ان کے دیگر تینوں ساتھی قید سے رہا ہوجاتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یوگی سرکار نے ان پر یو اے پی اے کے تحت بھی مقدمہ درج کر دیا تھا اس لیے وہ ہنوز جیل میں ہی رہے۔ جیل میں کپن کے ساتھ غیرانسانی سلوک کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں ان کے وکیل تک سے ملنے کی آزادی نہیں تھی۔ کپن کے وکیل نے اس ضمن میں سپریم کورٹ سے گہار لگائی تب جاکر یوگی سرکار نے انہیں اپنے وکیل سے ملاقات کی اجازت دی۔ بہر حال اس دوران صدیق کپن کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور انہیں ان کی تدفین میں شرکت سے بھی محروم رکھا گیا۔ کیرالا کے وزیراعلیٰ نے بھی کپن کی رہائی کے لیے درخواست کی مگر اس درخواست کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔


کیرالا کے صحافیوں کی تنظیم کیرالا یونین آف ورکنگ جرنلسٹس نے کپن کی گرفتاری کو غیرقانونی بتاتے ہوئے جب سپریم کورٹ میں Habeas corpus petition داخل کی تو اس وقت کے چیف جسٹس ایس ایم بوبڈے نے ہائی کورٹ جانے کی ہدایت دیدی۔ بوبڈے صاحب نے اسی سماعت کے دوران یہ تاریخی جملہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ وہ آئین کی دفعہ 32 کے تحت دائر درخواستوں کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں۔ اس دفعہ کے تحت ملزمین اپنی بے جا گرفتاری اور اپنے بنیادی حقوق کی پامالی کے خلاف فریاد کرتے ہیں۔ لیکن جب ملک کی سب سے بڑی عدالت کا منصفِ اعلیٰ ہی عوام کے اس بنیادی حق کے خلاف ہو اور نہ صرف خلاف ہو بلکہ اس کا برملا اظہار بھی کرتا ہو تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انصاف کا حصول کس قدر دشوار گزار مرحلہ ہوگا؟ شاید یہی وجہ رہی کہ بوبڈے صاحب کی بنچ نے اس پٹیشن کے خلاف یوگی سرکار کو نوٹس بھی جاری کرنے کی زحمت نہیں کی۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اس حوصلہ شکن رویے کے خلاف بھی کپن اور ان کے مقدمے کی پیروی کرنے والی کیرالا یونین آف ورکنگ جرنلسٹس نے ہار نہیں مانی اور وہ ہائی کورٹ پہنچے جہاں توقع کے مطابق انہیں مایوسی ہی ملی۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کپن یوگی حکومت سے فریاد کرتے یا کوئی ایسا حلف نامہ دیتے کہ آئندہ وہ یوپی میں قدم نہیں رکھیں گے، لیکن اس جیالے شخص نے ملک کی عدلیہ پر اعتماد کرتے ہوئے ایک بار پھر سپریم کورٹ کا رخ کیا جہاں بوبڈے کے بجائے جسٹس یویو للت کی بنچ نے انہیں ضمانت دیدی۔ دراصل کپن کو دوسال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ یوگی سرکار کی مرضی کے خلاف جانے والوں کو سبق سکھایا جاسکے اور کپن آئندہ اس ’گناہ عظیم‘ سے تائب ہوجائیں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کپن نے اپنے حوصلے اور جرأت سے یہ ثابت کر دیا کہ حق کے ساتھ کھڑے ہونے میں بھلے ہی ان کی زندگی ہی کیوں نہ تباہ کر دی جائے، ان کے پائے استقلال میں لرزش نہیں آئے گی۔ کپن کا مقدمہ جب متھرا کی عدالت میں زیرسماعت تھا تو اسی دوران ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی تھی جس میں یہ جیالا شخص درجنوں پولیس اہلکاروں کے گھیرے میں ملک کی عدلیہ پر اپنے اعتماد کا اظہار اور یوگی حکومت کے خلاف علانیہ تنقید کرتے ہوئے نظر آیا تھا۔ اس ویڈیو کے منظرِ عام پر آنے کے بعد یقیناً انہیں بہت مایوسی ہوئی ہوگی، جو کپن کا حوصلہ توڑنا چاہتے تھے۔ جو چاہتے تھے کہ کپن بھی اسی طرح کوئی معافی نامہ تحریر کریں جس طرح ساورکر نے تحریر کیا تھا اور بدقسمتی سے جو آج ’ویر‘ (بہادر) کے لقب سے سرفراز ہیں۔ مگر کپن نے عزیمت کی راہ اختیار کی۔


انہیں عزیمت کے علمبرداروں کی وجہ سے آج حق کی آواز بلند کرنے اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کی روایت زندہ ہے۔ سی اے اے مخالف تحریک میں نمایاں رول ادا کرنے والے عمرخالد و شرجیل امام بھی دہلی فسادات کے الزام میں گزشتہ 2 سالوں سے جیل میں ہیں لیکن ان کے متعلق بھی ایسی کوئی خبر نہیں آئی کہ انہوں نے حکومت کو کوئی معافی نامہ دیا ہو۔ عمرخالد کی درخواستِ ضمانت پر دہلی ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے، یہ فیصلہ عمرخالد کے موافق بھی ہوسکتا ہے اور مخالف بھی، لیکن اگر مخالف بھی ہوا تو بھی یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ان کے استقلال میں کوئی لرزش نہیں آئے گی۔ جن کے ایمان کا بنیاد جز ہی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا ہو، جو لوگ امربالمعروف ونہی عن المنکر کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہوں، ایسے لوگوں کا حوصلہ نہ تو دنیا کی کوئی جیل توڑ سکتی ہے اور نہ ہی ظلم وستم کی کوئی انتہا۔ کیونکہ ان کے اسی ایمان کا ایک حصہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کا اجر اس دنیا میں نہیں بلکہ ان کے رب کے پاس محفوظ ہے اور ان کا رب انہیں بہترین اجر دینے والا ہے۔ اس کے برخلاف جو اس دنیا کی خوشنودی کو ہی اپنی زندگی کا نصب العین قرار دے لیں تو وہ انگریزوں سے بھی معافی مانگ سکتے ہیں اور یوگی و مودی سرکار سے بھی۔ کپن وعمرخالد جیسوں کے عزم وحوصلے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حق وانصاف کے لیے جلنے والے چراغوں کو پھونکوں سے کبھی نہیں بجھایا جاسکتا۔

(نوٹ: مضمون میں رائے مصنف کی ذاتی ہے اور ادارے کا ان کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔