فلسطینیوں کے سینے میں سعودی خنجر

عالم اسلام کی سب سے بڑی بد قسمتی رہی ہے کہ وہ برادر کشی کے لئے غیروں کا سہارا لینے میں ذرا سی شرم یا غیرت محسوس نہیں کرتے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

خانماں برباد فلسطینیوں کے لئے سعودی عرب کے ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کا یہ بیان کہ اسرائیل کو بھی اپنے لئے ایک ہوم لینڈ کا حق ہے اس زخم سے بھی زیادہ گہرا ثابت ہوا ہے جو اسرائیل نے غزہ میں احتجاج کے دوران دس بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کر کے لگایا تھا۔پرنس محمد بن سلمان کا یہ بیان سعودی عرب کی دیرینہ پالیسی کے خلاف ہے جو وہ اسرائیل سے در پردہ تعلقات قائم کرنے کے باوجود اب تک اختیار کیے ہوئے تھا۔پرنس محمد بن سلمان جن کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ امریکہ نے انھیں یہ عہدہ دلوایا ہے اور وہ امریکی اشارہ پر ہی اپنے ملک میں اہم اصلاحات نافذ کر رہے ہیں ۔

ایک امریکی جریدہ دی اٹلانٹک کو دیئے گئے انٹر ویو میں اہم باتیں کہیں ، جریدہ کے ایڈیٹر جیفری گولڈبرگ نے جب ان سے پوچھا کہ کیا یہودیوں کو اپنے آخری ہوم لینڈ میں ایک آزاد ملک کے طور پر رہنے کا اختیار ہے تو انہوں نے کہا کہ میرا یقین ہے کہ دنیا کے ہر شخص کو اپنے ملک میں پر امن طور پررہنے کا حق ہے اسی طرح فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو بھی اپنے اپنے ہوم لینڈ کا حق ہے۔ یہاں پرنس محمد بن سلمان اسرائیل کے وجود کی حقیقت کو نظر انداز کر گئے اور بھول گئے کہ اسرائیل ،فلسطین کی سر زمین پر زبردستی مسلط کیا گیا ایک ملک ہے اور فلسطینیوں کو اپنی غصب شدہ زمین واپس لینے کا حق ہے۔

اگر بدلتے عالمی منظر نامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے حقیقت پسندانہ پالیسی اختیار کرنی بھی ہے تو پہلے فلسطینیوں کو ان کاہوم لینڈ مل جانے کے بعد ان سرحدوں میں اسرائیل کو رہنے دیا جا سکتا ہے جو اقوام متحدہ نے متعین کر دی تھیں۔ اپنے ایک لفظ سے پرنس محمد بن سلمان نے نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پورے عالم اسلام کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ حالانکہ بعد میں پرنس محمد کے والد شاہ سلمان نے ایک بیان جاری کرکے فلسطینی کاز کے تئیں سعودی عرب کے عہد کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک فلسطینیوں کی ایک آزاد مملکت جس کی راجدھانی یروشلم ہو، ہمیشہ کی طرح حمایت کرتا رہےگا اور اس پالیسی میں قطعی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ، لیکن پرنس سلمان کے بیان نے جو زخم لگایا ہے اس پر شاہ سلمان کا یہ بیان مرہم نہیں لگا سکا۔

دنیا جانتی ہے کہ فرنٹ لائن عرب ملک مصراور اردن ہی نہیں خود فلسطین اتھارٹی کے اسرائیل سے سفارتی اور دیگر تعلقات کے قیام کے بعد سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے اپنے تعلقات استوار کر لئے تھے لیکن اسے باقائدہ ابھی تک تسلیم نہیں کیا تھا اور فلسطینیوں کے لئے اپنے ہوم لینڈ کی نہ صرف حمایت کرتا رہا ہے بلکہ عالمی پلیٹ فارموں سے اس کے لئے آواز بھی اٹھاتا رہا ہے ۔ یہی نہیں حماس کے بر سر اقتدار آنے کے بعد جب امریکا نے مالی امداد روک دی تھی اور اپنے حلیفوں پر بھی حماس کی امداد روک دینے کا دباؤ ڈالا تھا تو بھی سعودی عرب امریکہ کے دباؤ میں نہیں آیا تھا اور امداد جاری رکھی تھی فلسطین کو امداد دینے والے ملکوں میں سعودی عرب ہمیشہ سر فہرست رہا ہے۔

بدلتے ہوئے عالمی منظر نامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے سعودی عرب نے سب سے پہلے اپنی اسرائیل پالیسی میں تبدیلی کا اس وقت اشارہ دیا جب مرحوم شاہ عبداللہ نے اپنا مشہور دو مملکتی فارمولہ پیش کیا تھا جس کے تحت اگر اسرائیل 1967 کی جنگ میں جیتے گئے تمام علاقہ خالی کر دے اور وہاں فلسطین ایک آزاد اور خو مختار ملک کے طور پر وجود میں آ جائے جس کی راجدھانی یروشلم ہو تو نہ صرف سبھی ارب ممالک بلکہ عالم اسلام اس کے وجود کو تسلیم کر کے اس سے سفارتی وتجارتی اور دیگر تعلقات قائم کرلیں گے۔

مرحوم شاہ عبداللہ کے اس فارمولہ کو نہ صرف امریکہ اور دنیا کے سبھی ملکوں نے تسلیم کر لیا تھا بلکہ اسرائیل نے بھی اس کی اصولی منظوری دے دی تھی، صرف ایران، حماس اور حزب اللہ نے اس فارمولہ کو مسترد کیا تھا اس فارمولہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے امریکی ثالثی کی وجہ سےاسرائیل اور فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے درمیان گفتگو بھی شروع ہو گئی تھی ، لیکن اسرائیل نے دوغلی پالیسی اختیار کی ، ایک جانب وہ مقبوضہ علاقوں کو خالی کرنے والے فارمولہ کی بنیاد پر گفتگو بھی کر رہا تھا دوسری جانب مقبوش علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر بھی کر رہا تھا ۔فلسطینی وفد ہی نہیں بلکہ خود امریکہ بھی اسرائیل کو ایسا نہ کرنے کی تنبیہ کرتا رہا ۔مگر اسرائیل اپنی دوغلی پالیسی پر کاربند رہا ، جس کی وجہ سے نہ صرف فلسطین سے اس کی گفتگو رک گئی بلکہ دو مملکتی فارمولہ بھی دفن ہو گیا ۔

اسرائیل کہ اس ہٹ دھرمی سے امریکہ کے دونوں سابق صدر جارج بش اور باراک اوباما دونوں ناراض تھے بلکہ اوباما نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ امریکہ صرف انہیں سرحدوں میں اسرائیل کے تحفظ کی ذمہ داری لے سکتا ہے جو 1948میں اقوام متحدہ نے متعین کر دی تھیں ، لیکن اسرائیل پر ان دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر آج بھی گامزن ہے ۔

سعودی عرب کے رویہ میں یہ تبدیلی در اصل ایران کی وجہ سے ہے کیونکہ اسرائیل اور سعودی عرب دونوں ایران کو اپنا مشترکہ دشمن سمجھتے ہیں حالانکہ اس سے زیادہ شرمناک اور افسوس ناک بات اورکوئی ہو ہی نہیں سکتی کہ ایک برادر اسلامی ملک کے مقابلہ سعودی عرب ایک غاصب اور جارح ملک کو اپنا دوست بنا لے جس نے اسلام کی تیسری سب سے مقدس اہم اور تاریخی عبادت گاہ مسجد اقصیٰ پر نہ صرف جارحانہ قبضہ کررکھا ہے ۔ بلکہ اس کی مسماری کی بھی سازش کر رہا ہے۔

سعودی عرب یہ بھی بھول گیا کہ چند دنوں قبل ہی ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف یہ بیان دے چکے ہیں کہ اگر کسی تیسرے ملک نے سعودی عرب کے خلاف کوئی جارحیت کی تو ایران کی فوج اس کے دفاع کے لئے سب سے پہلے پہنچےگی ، افسوس کہ ایران کی اس فراخ دلی کا کوئی مثبت جواب دینے کے بجائے سعودی عرب کے ارباب حل و عقد نےدیرینہ دشمن اسرائیل سے قربت کو فوقیت دی ۔ یہی عالم اسلام کی سب سے بڑی بد قسمتی رہی ہے کہ وہ برادر کشی کے لئے غیروں کا سہارا لینے میں ذرا سی بھی شرم ، غیرت محسوس نہیں کرتے۔

صدام حسین کے خلاف بھی انہوں نے یہی رویہ اپنایا تھا جس کے نتیجہ میں دنیا کا سب سے ترقی یافتہ اور خوش حال ملک گور غریباں میں تبدیل ہو گیا ، جس میں پندرہ لاکھ عراقی بوڑھے ،بچے، جوان، عورت اورمرد دفن ہو گئے۔

اسرائیل کی بھی سب سے بڑی طاقت عرب ملکوں کی یہی برادر کشی اور خود غرضی ہے ورنہ بقول مرحوم علامہ خمینی اگر ہر مسلمان اسرائیل پر ایک ایک مٹھی خاک ڈالے تو وہ اسی خاک میں دفن ہو سکتا ہے۔

ایران کا رویہ بھی کوئی بہت زیادہ قابل تعریف نہیں ہے اپنی اسٹریٹجک اور مسلکی مصلحتوں کے چلتے وہ شام میں بشار الاسد حکومت کی حمایت کرکےنہ صرف شامی عوام کو ان کے جمہوری حقوق سے محروم رکھ رہا ہے بلکہ ان کے قتل عام میں بھی برابر کا گنہ گار ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔