’لوجہاد‘ کا مردہ اکھاڑنے پر پھنسیں ریکھا شرما... نواب علی اختر

خواتین کبھی بھی محفوظ کیسے ہوسکتی ہیں، جب ایسا منتخب ایجنڈا چلانے والی خاتون ایسے کمیشن کی قیادت کر رہی ہے۔

رکھا شرما اور بھگت سنگھ کوشیاری / تصویر سوشل میڈیا
رکھا شرما اور بھگت سنگھ کوشیاری / تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

نئی دہلی: قومی خواتین کمیشن کی سربراہ ریکھا شرما مہاراشٹرا کے گورنر سے ملاقات کے دوران ’لوجہاد‘ کا مردہ اکھاڑنے کی وجہ سے تنازعات میں گھر گئی ہیں۔ ان کے کچھ مبینہ پرانے ٹوئٹس بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں اور خواتین کمیشن سے انہیں ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ در اصل منگل کو انہوں نے مہاراشٹرا کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری سے ملاقات کی تھی۔ قومی خواتین کمیشن کے مطابق اس دوران انہوں نے گورنر سے ریاست کے کووڈ مراکز میں خواتین مریضوں کی عصمت دری اور چھیڑ چھاڑ، ون اسٹاپ سنٹروں کی ناکامی اور ’لو جہاد‘ کے معاملات میں اضافے پر بات کی۔

کمیشن کی ایک ریلیز کے مطابق ریکھا شرما نے گورنر سے کہا کہ مہاراشٹرا میں’لوجہاد‘ کے معاملے بڑھ رہے ہیں۔ بات چیت میں انہوں نے باہمی رضا مندی سے دو الگ الگ مذاہب کے لوگوں کی شادی اور لو جہاد کے مابین فرق کی نشاندہی کی اور کہا کہ اس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔

’لوجہاد‘ کا مردہ اکھاڑنے پر پھنسیں ریکھا شرما... نواب علی اختر

یہاں تنازعہ اس بات پر کھڑا ہوا ہے کہ انہوں نے’لو جہاد‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ در اصل مرکز کی مودی حکومت فروری میں خود پارلیمنٹ میں کہہ چکی ہے کہ موجودہ قوانین میں ’لوجہاد‘ کی اصطلاح کی تعریف نہیں ہے اور کسی بھی مرکزی ایجنسی نے اس سے متعلق کیس کی اطلاع نہیں دی ہے۔ پارلیمنٹ میں تحریری سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا حکومت کے علم میں ہے کہ کیرالہ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ لو جہاد کسی چیز کو کہا ہی نہیں جاتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں 4 فروری 2020 کو امور داخلہ کے وزیر مملکت جی کشن ریڈی نے کہا تھا کہ ’لو جہاد‘ لفظ کی موجودہ قوانین کے تحت تعریف نہیں کی گئی ہے۔ ’لو جہاد‘ کا کوئی معاملہ کسی بھی مرکزی ایجنسی نے رپورٹ نہیں کیا ہے۔

اس دوران حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ آئین نے سبھی کو کسی بھی مذہب کو اپنانے اور اس کی تشہیر کرنے کی آزادی دی ہے۔ حالانکہ کئی دائیں بازو کے گروہ ہندو لڑکی اور مسلمان لڑکے کے مابین شادی کے لئے’لو جہاد‘ کے لفظ کا استعمال کرتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر مذہب تبدیل کر کے شادی کرلی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کو لے کر بحث چھڑ گئی کہ خواتین کمیشن کی سربراہ کیسے اس لفظ کا استعمال کر رہی ہیں اور کن اعداد وشمار کی بنیاد پر ’لوجہاد‘ کے معاملے بڑھنے کی بات کہہ رہی ہیں جبکہ مرکزی حکومت خود اس بات سے انکار کرچکی ہے۔ قومی خواتین کمیشن نے ٹوئٹر پر ریکھا شرما اور گورنر کوشیاری کی تصاویر اور معلومات شیئر کی تھی۔ جس کے کچھ دیر بعد ہی سوشل میڈیا پر ریکھا شرما سوالوں کی زد میں آگئیں۔


ایک ٹوئٹر صارف دیوی پرساد مشرا نے کمیشن کے ٹوئٹ پر جواب دیتے ہوئے لکھا کہ کیا این سی ڈبلیو اور اس کی سربراہ یہ واضح کریں گی کہ ’لو جہاد‘ سے ان کا کیا مطلب ہے؟ کیا آپ اسے اسی مطلب کے ساتھ استعمال کر رہی ہیں جیسے شدت پسند گروہ کر رہے ہیں؟ اگر ہاں تو کیا آپ بغیر کسی قانونی بنیاد کے ان کے نظریہ کی حمایت کر رہی ہیں؟

پلووی نامی صارف نے سوال اٹھایا کہ کیا بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ قومی خواتین کمیشن ان معاملات کو اٹھائے گا جن میں دیگر مذاہب میں شادی کرنے کے لیے خواتین پر حملہ کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ انھیں مار دیا جاتا ہے۔ پلووی نے یہ بھی لکھا کہ یہ توہین آمیز ہے، خواتین اور اقلیتوں کے خلاف جرائم کے لیے ریاست کی بے حسی کے ساتھ اشتعال انگیزی اورعدم رواداری بڑھ رہی ہے۔ کیا حقیقت میں کسی مذہب کو نشانہ بنانے کے لیے ’لوجہاد‘ لفظ کا استعمال کرنا آئینی ہے؟


وہیں شہنا یاسمین نے لکھا کہ این سی ڈبلیو کو کون سے’لو جہاد‘ کے معاملے ملے ہیں۔ کیا ریکھا شرما 5 معاملے دکھا سکتی ہیں؟ اداکارہ ارمیلا ماتونڈکر نے بھی ٹوئٹ کیا ہے کہ اس معاملے میں خواتین کبھی بھی محفوظ کیسے ہوسکتی ہیں، جب ایسا منتخب ایجنڈا چلانے والی خاتون ایسے کمیشن کی قیادت کر رہی ہے۔

یہ پہلی بار نہیں ہے جب ریکھا شرما متنازعہ ٹوئٹ کر کے مشکل میں پھنسیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ ایسے بیانات دیتی رہی ہیں جو اشتعال انگیزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس موقع پر ریکھا شرما کی پریشانی اس وقت اور زیادہ بڑھ گئی جب کچھ سوشل میڈیا صارفین نے ان کے کچھ متنازعہ ٹوئٹس شیئر کر کے دعویٰ کیا کہ یہ ان کے کئی سال پہلے پرانے ٹوئٹس ہیں۔ ان میں سے کچھ مبینہ ٹوئٹس نریندر مودی کے اقتدار میں آنے سے پہلے یعنی 2012 اور 2014 کے ہیں، جس میں خواتین اور خواتین رہنماوں اور دیگر رہنماوں کے بارے میں قابل اعتراض باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ انہیں شیئر کر کے لوگ ان کی زبان اور ذہنیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔


ریکھا شرما دراصل اگست 2015 میں قومی خواتین کمیشن سے وابستہ تھیں۔ کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق ریکھا شرما نے 7 اگست 2018 کو قومی خواتین کمیشن کی چیئر پرسن کا عہدہ سنبھالا تھا۔ قومی خواتین کمیشن میں شامل ہونے سے پہلے بی جے پی میں سرگرم طور سے جڑی ہوئی تھیں۔ وہ ہریانہ میں بی جے پی کی ضلع سکریٹری اور میڈیا انچارج تھیں۔ سوشل میڈیا پر بحث تیز ہونے کے بعد انھیں قومی خواتین کمیشن کی چیئر پرسن عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ اپوزیشن کانگریس کی جانب سے ریکھا شرما کے استعفیٰ کا مطالبہ کیے جانے کے بعد عام آدمی پارٹی نے بھی پریس کانفرنس کر کے ریکھا شرما کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔