پلاننگ کمیشن کو پھر سے قائم کرنا بھی انتخابی ایشو بننا چاہیے... بھرت ڈوگرا

آخر ایسی کیا بات ہوئی گئی تھی کہ پلاننگ کمیشن اور پنج سالہ منصوبوں کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، حقیقت تو یہی ہے کہ موجودہ دور میں منصوبہ بند ترقی اور پلاننگ کمیشن کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

بھرت ڈوگرا

آزادی کے بعد ہندوستان کے سامنے ترقی سے متعلق کئی بڑے چیلنجز تھے اور معیشت کو بازار کی طاقتوں کے سہارے نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ غریبی کم کرنے، ملک کی خود مختاری بڑھانے اور انتہائی ضروری بنیادی صنعت قائم کرنے کے لیے منصوبہ بند ترقی کی بہت ضرورت تھی۔ اس لیے ہمارے ملک میں پلاننگ کمیشن کا قیام مرکزی سطح پر کیا گیا اور مختلف ریاستی حکومتوں نے بھی ریاستی سطح پر پلاننگ کمیشن کو قائم کیا۔ اس طرح ملک کے فیڈرل ڈھانچے میں منصوبہ بند ترقی کی سوچ کو مضبوطی سے قائم کیا گیا۔ جواہر لال نہرو کا منصوبہ ترقی میں گہرا عقیدہ تھا۔ بعد میں جب اندرا گاندھی نے ’غریبی ہٹاؤ‘ کا نعرہ دیا تو اس وقت کے پنج سالہ منصوبہ کو بھی اس کے مطابق ہی تیار کیا گیا۔

اس طرح ملک میں 12 پنج سالہ منصوبے تیار کیے گئے اور 2010 کی دہائی میں 13ویں پنج سالہ منصوبے پر بھی کام چل رہا تھا۔ اس وقت کسی نے سوچا نہیں تھا کہ اتنے وقت سے چل رہے منصوبہ بند ڈیولپمنٹ اور پنج سالہ منصوبوں کے نظام کو جلد ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن 2014 میں این ڈی اے حکومت کی آمد کے بعد ایسا ہی ہوا۔ اس حکومت کے سب سے پہلے کاموں میں یہ تھا کہ پلاننگ کمیشن و پنج سالہ منصوبوں کے نظام کو ختم کر دیا گیا۔ یہ ایک جھٹکے میں کیا گیا اور اتنا متنازعہ فیصلہ لینے سے پہلے قومی سطح پر، ریاستی حکومتوں سے، ماہرین اور عوام سے کوئی وسیع مشورہ تک نہیں کیا گیا۔


آخر ایسی کیا بات ہو گئی تھی کہ پلاننگ کمیشن اور پنج سالہ منصوبوں کی ضرورت نہ رہ گئی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ دور میں منصوبہ بند ترقی اور پلاننگ کمیشن کی ضرورت پہلے سے مزید بڑھ گئی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ترقی اور ماحولیاتی تحفظ میں توازن بنانے کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔ پہلے جو ڈیولپمنٹ کا ماڈل بنتا تھا، اس میں ہم بنیادی طور پر یہ غور کرتے تھے کہ محدود وسائل میں سبھی لوگوں کی ضرورتوں کو کس طرح پورا کیا جائے۔ اب اس کے ساتھ ایک بڑا ایشو اور جڑ گیا ہے، کہ ساتھ ساتھ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بھی کم کرنا ہے۔ اب اگر محدود وسائل میں بڑھتی آبادی کی ضرورتوں کو اچھی طرح پورا کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو بھی کم کرنا ہے تو یہ بہت احتیاط سے اور منصوبہ بند ترقی کی راہ پر چلتے ہوئے ہی ممکن ہے۔ اس وجہ سے ہی مضمون نگار نے کافی وقت سے اس پر زور دیا ہے کہ منصوبہ بند ترقی اور پلاننگ کمیشن کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔

اسی طرح زیادہ مجموعی ترقی کے لیے اور عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے بھی منصوبہ بند ترقی اور پلاننگ کمیشن کی اشد ضرورت ہے۔ اگر صنعت کاروں، ارب پتیوں کے زیادہ اثر کی حالت میں چھوڑ دیا گیا تو عدم مساوات کے کم ہونے کی جگہ پر عدم مساوات کے مزید بڑھنے کا پورا امکان ہے۔ اگر عدم مساوات بڑھ رہے ہیں اور چند ہاتھوں میں ملکیت و آمدنی کا ارتکاز بڑھ رہا ہے تو اس حالت میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم رکھتے ہوئے سبھی لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔


اس لیے پلاننگ کمیشن کو نئی زندگی دے کر 13ویں پنج سالہ منصوبہ کو اس طرح سے تیار کرنا چاہیے جس سے کہ سبھی لوگوں کی ضرورتوں کو اطمینان بخش طریقے سے پورا کرنے، عدم مساوات کو کم کر مساوات بڑھانے اور ماحولیات کی حفاظت کرنے کے مواقع ساتھ ساتھ حاصل ہو سکیں۔ اس طرح جو منصوبہ بند ترقی پٹری سے ہٹ گئی ہے، اسے پھر سے پٹری پر لایا جا سکے گا اور طویل مدتی چیلنجز کا سامنا کرنے میں بھی ملک زیادہ اہل بنے گا۔

ہاں، اتنا ضرور ہے کہ پلاننگ کمیشن کو نئے سرے سے قائم کرتے ہوئے یہ بھی نشان زد کرنا ہوگا کہ اب پلاننگ کمیشن کو عدم مساوات کم کرنے، مساوات و انصاف کو آگے بڑھانے پر پہلے سے بھی زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اپنے آخری سالوں میں پلاننگ کمیشن اس مساوات و انصاف کے راستہ سے تھوڑا ہٹ گیا تھا۔ اب منصوبہ بند ترقی کی راہ اختیار کرتے ہوئے مساوات و انصاف پر اور ماحولیاتی تحفظ پر پہلے سے بھی زیادہ توجہ دینی ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔