راہل کی مانسروور یاترا: کیا تمام ہندو تقاریب پر بی جے پی کی اجارہ داری ہے!

راہل گاندھی نے کہا تھا کہ جب کرناٹک دورہ کے وقت ان کا طیارہ حادثہ ہونے سے بال بال بچا تھا، تو ان کے ذہن میں یکبارگی یہی آیا تھا کہ انھیں کیلاش مانسروور کی یاترا کر بھگوان شیو کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مرنال پانڈے

کانگریس صدر راہل گاندھی نے اسی سال 29 اپریل کو دہلی کے رام لیلا میدان میں ایک ریلی کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ اس سال کیلاش مانسروور کی یاترا پر جائیں گے۔ ہندو عقیدہ میں کیلاش مانسروور کو بھگوان شیو اور ان کی بیوی پاروتی کی رہائش تصور کیا جاتا ہے۔ راہل گاندھی نے کہا تھا کہ جب کرناٹک کے ہُبلی جاتے ہوئے تکنیکی خرابی کی وجہ سے ان کا طیارہ حادثہ کا شکار ہونے سے بال بال بچا تھا تو ان کے ذہن میں یکبارگی یہی خیال آیا تھا کہ انھیں کیلاش مانسروور کی یاترا کر بھگوان شیو کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔

اسی تعلق سے راہل گاندھی 31 اگست کو دو ہفتہ کے لیے کیلاش مانسروور یاترا پر نیپال اور لہاسا کے راستے روانہ ہو گئے۔ لیکن ان کی اس یاترا کے لیے استعمال کیے جانے والے راستہ پر بی جے پی ترجمان تنقید کر رہے ہیں، کیونکہ اس راستے میں راہل گاندھی چین کے ماتحت علاقوں سے گزریں گے۔ ہندوستان اور چین کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے کیلاش مانسروور تیرتھ یاترا کا یہ راستہ 1954 سے 1978 کے درمیان بند رہا۔ لیکن، اب پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ 1997 میں اس راستے پر سوئس نگاری کورسُم فاﺅنڈیشن نے ایک چھوٹا میڈیکل سنٹر بھی کھولا ہے، تاکہ تیرتھ یاتریوں کی ضرورت پڑنے پر علاج کیا جا سکے۔

کیلاش پربت اور مانسروور جھیل کی تیرتھ یاترا کی تاریخ ہزاروں سال قدیم ہے۔ مانسروور جھیل پانچ پاکیزہ جھیلوں یا پنچ سروور میں سے ایک ہے۔ اس پنچ سروور میں مانسروور، بندو، پمپا،نارائن اور پشکر شامل ہیں۔ مہابھارت میں کیلاش کو پربتوں کا راجہ، تپسویوں کی عبادت کے لیے بہترین مقام اور آبِ حیات دینے والی ندیوں کا ذریعہ کہا گیا ہے۔ مہابھارت میں اس پربت کے سلسلے میں جو کچھ تذکرہ ہے وہ علامتی طور پر درست ہے۔ کیلاش پربت جہاں واقع ہے وہیں سے پورے گنگا کے پورے ہندوستانی میدانوں میں ندیوں کا سلسلہ قائم ہوتا ہے۔ سندھو، ستلج، برہمپتر اور گھاگھرا، ان چاروں ندیوں کا ذریعہ برف کے لبادہ میں لپٹا یہی پاکیزہ مقام ہے۔

کیلاش پربت کا تبتی نام ’گنگ رِن پو چے‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے نایاب زیور۔ کیلاش پربت کا یہ تبتی نام اس پربت سے جڑے جذبات اور عقیدوں کو متعارف کرتا ہے۔ یہ پربت یعنی پہاڑ ’بان پو‘ کے ذریعہ بودھ مذہب کے پہلے قائم تبتی مذہب ’بان پو‘ کے عقیدتمندوں کا بھی پاکیزہ تیرتھ رہا ہے۔ بان پو کے عقیدت مند جانگ جونگ میری نام کے دیوتا کی عبادت کرتے رہے ہیں۔

بودھ مذہب کے ماننے والوں کا خیال ہے کہ بدھ نے اس علاقے کا کئی بار سفر کیا اور یہاں عبادت کی۔ بودھ رِشی پدماسمبھو 7ویں-8ویں صدی میں تبت میں بودھ مذہب کا وجرائنی تانترک برادری لے کر آئے۔ مانا جاتا ہے کہ انھوں نے بان پو طبقہ کو اپنے سحر انگیز سے جنگ میں شکست دے دی تھ اور مٹھی بھر برف سے بان ری نامی ایک مقامی پہاڑ کی بنیاد ڈال دی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے اسے اپنے ذریعہ شکست خوردہ لیکن معزز دشمن کا مقام اعلان کر دیا تھا۔ اس طرح مذاہب کی پرامن موجودگی کو یقینی بنایا۔ یہ علاقہ جین مذہب کے عقیدت مندوں کے لیے بھی پاکیزہ تصور کیا جاتا ہے۔ جین مذہب کے ماننے والے کیلاش پربت کو میرو پربت کہتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان کے پہلے تیرتھنکر رِشبھ دیو جی نے اس جگہ کا دورہ کیا اور یہیں اَشٹ پد نامی پہاڑ پر ’نِروان‘ حاصل کیا۔

ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ 14ویں دلائی لامہ نے مانسروور جھیل میں صوبہ، ضلع اور وان پرستھ آشرم کو ظاہر کرتے ہوئے تین حروف دیکھے تھے جن سے موجودہ دلائی لامہ کا پتہ لگایا جا سکتا تھا۔

کیلاش پربت کے نزدیک ہی اس علاقے میں میٹھے پانی کی واحد جھیل مانسروور ہی ہے جس میں پہاڑ کے گلیشیر سے لگاتار پانی فراہم ہوتاہے۔ 15060 فٹ کی اونچائی پر واقع اس جھیل کا دائرہ 410 کلو میٹر ہے۔ یہ ایک دیگر جھیل راکشش تال سے جڑی ہوئی ہے جو کہ کھارے پانی کی جھیل ہے۔ مانا جاتا ہے کہ راکشش راج راون نے اسی جگہ پر بھگوان شیو کو خوش کرنے کے لیے عبادت کی تھی۔ اس جھیل میں پانی میں رہنے والا کوئی جانور نہیں ہے اسی لئے مقامی لوگ اس کے پانی کو زہریلا مانتے ہیں۔

کیلاش مانسروور تیرتھ یاترا میں اصل عمل پربت کا دن بھر چکر لگانا ہوتا ہے۔ یہ ایک مشکل عمل ہوتا ہے کیونکہ اونچائی والے علاقے میں مشکل راستوں والا یہ چکر 52 کلو میٹر کا ہوتا ہے۔ کچھ مقامی عقیدتمند تو اس عمل کو ساشٹانگ کرتے ہوئے پوراکرتے ہیں۔

بی جے پی ترجمان راہل گاندھی کے تیرتھ منصوبوں کی تنقید کرتے ہوئے جو باتیں کہتے ہیں وہ کافی اُکتانے والے رہے ہیں۔ راہل گاندھی کے اعلان کردہ ’شیو آرادھنا‘ کی ان کی تنقید میں ایک تنظیمی پنڈت جیسی چھاپ دیکھنے کو مل رہی تھی جیسے کہ صرف ان کی ہی پارٹی نے سبھی ہندو تقاریب کو کرنے کا ذمہ لے لیا ہے۔ ذاتی اور سیاست سے الگ بات کہنے کی عادت نے مذہبی لغت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اور پھر وہ اچانک سے سنگین سیاسی الزامات در الزامات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہندوستان میں سیاسی اقتدار کے منتظمین کے ذہن و دماغ کو سمجھنے کے لیے آج بھی یہ ایک ضروری تحقیق ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Sep 2018, 3:42 PM