مہاراشٹر بی جے پی پر راہو-کیتو کا ’پرکوپ‘!

جالنہ میں مراٹھا براداری پر پولیس کے لاٹھی چارج نے ریاستی حکومت کی مٹی مزید پلید کر دی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>دیویندر فڑنویس، ایکناتھ شندو، اجیت پوار / ٹوئٹر /&nbsp;<em>@MahaDGIPR</em></p></div>

دیویندر فڑنویس، ایکناتھ شندو، اجیت پوار / ٹوئٹر /@MahaDGIPR

user

اعظم شہاب

مہاراشٹر میں ’راہو‘ اور ’کیتو‘ بی جے پی کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک ایسی افتاد اس پر آتی چلی جا رہی ہے جو اس کی مٹی مزید پلید کیے دے رہی ہے۔ تازہ ترین معاملہ جالنہ میں مراٹھا ریزرویشن کے حامیوں پر پولیس لاٹھی چارج کا ہے، جس کے بعد سے پوری ریاست میں حکومت کے خلاف ناراضگی کا زبردست طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس ناراضگی کی وجہ سے وزیر اعلیٰ سے لے کر نائب وزرائے اعلیٰ تک ہر کوئی اس بات کا اعادہ کرتے نہیں تھک رہے ہیں کہ وہ مراٹھوں کو ریزرویشن دینا چاہتے ہیں۔ جبکہ اسی ریزرویشن مانگنے کی پاداش میں ہی ان پر لاٹھی چارج ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت مراٹھا برادری کو ریزرویشن دینا ہی چاہتی ہے، تو پارلیمنٹ میں قانون بنا کر ریزرویشن دینے سے اسے کس نے روک رکھا ہے اور اگر یہی اس کا موقف بھی ہے تو پھر جالنہ میں لاٹھی چارج کی بھلا کیا ضرورت تھی؟ اسے کہتے ہیں گلے پڑ جانے پر بغل گیر ہو جانا۔

جالنہ میں لاٹھی چارج کے خلاف پورے مہاراشٹر میں حکومت کے خلاف زبردست ناراضگی پھیلی۔ کانگریس سے لے کر این سی پی تک اور شیوسینا یو بی ٹی سے لے کر ایم این ایس تک ہر پارٹی کے لیڈر نے اس کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا، جبکہ ادھوٹھا کرے نے اس کے لیے فڑنویس سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ اس واقعے کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیر 4 ستمبر کو ریاستی حکومت کی کابینہ میں نائب وزیر اعلیٰ دیوندر فڑنویس کو اس لاٹھی چارج پر معافی مانگنی پڑ گئی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لاٹھی چارج کی ذمہ داری لینے سے حکومت نے پوری طرح انکار کر دیا ہے۔ نائب وزیر اعلیٰ فڑنویس کا کہنا ہے کہ لاٹھی چارج کا حکم حکومت کی جانب سے نہیں دیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مراٹھا ریزرویشن کے حامیوں کی یہ بھوک ہڑتال نہایت پرامن تھی تو بھلا پولیس اپنی سطح پر لاٹھی چارج کیسے کر سکتی ہے؟


جالنہ دراصل مراٹھواڑہ کا ایک اہم شہر ہے جہاں مراٹھا ریزرویشن کا مطالبہ کرنے والے لوگوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا ہے۔ ہوا یوں کہ جالنہ ضلع کے امبڑ تحصیل میں ایک گاؤں ہے انتروالی شراٹی۔ ریاستی حکومت آج کل ایک پروگرام چلا رہی ہے جس کا نام ہے ’حکومت آپ کے دروازے پر‘۔ اس پروگرام کے تحت وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے انتروالی شراٹی میں تشریف لانے والے تھے۔ وزیر اعلیٰ کے اس دورے کی مناسبت سے مراٹھا ریزرویشن کا مطالبہ کرنے والوں نے وہاں پر ایک احتجاجی پروگرام کی تیاری کی جس میں منوج جرانگے نامی ایک نوجوان کی قیادت میں 10 لوگوں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ چونکہ وزیر اعلیٰ کو وہاں پر تشریف لانا تھا اس لیے اس احتجاج کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا تاکہ ریاست بھر میں یہ پیغام دیا جا سکے کہ وزیر اعلیٰ کا ’حکومت آپ کے دروازے پر‘ پروگرام بہت کامیاب رہا۔

وزیر اعلیٰ کی جالنہ آمد کی تشہیر اس وقت تک مثبت نہیں ہو سکتی تھی جب تک کہ احتجاج کرنے والے ان کی آمد سے قبل ہی اپنا احتجاج ختم نہ کر دیتے۔ اس لیے پولیس نے پہلے ان احتجاجیوں کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کی، لیکن جس برادری کا ’ایک مراٹھا لاکھ مراٹھا‘ کا نعرہ ہو اور ایک آواز میں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو جاتے ہوں، انہیں اس قدر آسانی سے احتجاج ختم کرنے پر بھلا کس طرح آمادہ کیا جا سکتا تھا؟ سو اس کے لیے یہ ترکیب نکالی گئی کہ وزیر اعلیٰ کی آمد سے قبل بھوک ہڑتال کرنے والے منوج جرانگے کو ان کی صحت کا حوالہ دے کر اٹھا کر اسپتال پہنچا دیا جائے۔ اتفاق کی بات تھی کہ احتجاجیوں کو پولیس کی اس منصوبہ بندی کی خبر لگ گئی اور لوگ جائے احتجاج پر پولیس کا مقابلہ کرنے کے لیے جمع ہو گئے۔


دلچسپ بات یہ رہی کہ احتجاج کرنے والے لوگوں کو تو پولیس کی منصوبہ بندی کی خبر مل گئی، لیکن پولیس اس بات سے لاعلم رہی کہ احتجاجی پولیس سے مقابلے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ پھر اس کے بعد وہی ہوا جو ایسی صورت میں ہوتا ہے کہ پولیس بھوک ہڑتال کرنے والے منوج جرانگے کو جیسے ہی زبردستی اٹھانے کے لیے آگے بڑھی، وہاں پر موجود مراٹھا ریزرویشن کے حامیو ں نے پولیس پر حملہ کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پتھراؤ شروع ہو گیا، ایک دوسر ے کو پکڑ کر مارا جانے لگا۔ یہ صورت حال دیکھ کر پولیس کے ہاتھ پاؤں پھولنے لازمی تھے، سو اس نے لاٹھی چارج کر دیا۔ اس کے بعد تو بھیڑ کچھ ایسی بے قابو ہوئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے 100 لوگ زخمی ہو گئے، جن میں درجن بھر سے زائد پولیس اہلکار بتائے جا رہے ہیں۔

اس واقعے کے بعد پوری ریاست میں حکومت کے خلاف ناراضگی کا طوفان امنڈ پڑا۔ حکومت نے لوگوں کی ناراضگی کو دور کرنے کے لیے جالنہ ضلع کے پولیس سربراہ کو جبراً رخصت پر بھیج دیا۔ لیکن وہ کہاوت ہے نا کہ جب آدمی پر برا وقت آتا ہے تو اس کے اونٹ پر بیٹھے ہونے پر بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ یہاں لوگوں کی ناراضگی دور کرنے کے لیے حکومت مراٹھا ریزرویشن تحریک سے جڑے مگر بی جے پی سے وابستہ لوگوں کے ساتھ میٹنگ شروع کی تو دوسری جانب جالنہ و اس کے اطراف کے علاقوں میں ایک بار پھر تشدد بھڑک اٹھا۔ اس کے بعد نائب وزیر اعلیٰ فڑنویس نے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جانے گا۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ یہ پورا معاملہ ایکناتھ شندے کی وجہ سے شروع ہوا اور استعفیٰ مانگا جانے لگا فڑنویس کا۔ اسے کہتے ہیں راہو کا پرکوپ۔


ہندوی جیوتش شاستر میں راہو-کیتو کو شنی دیو کے ماتحت سمجھا جاتا ہے۔ اب جو پارٹی شب و روز ہندوتوا کی کشتی پر سوار رہتی ہو اگر اس کے سپر سی ایم خود کو ہی شنی دیو سمجھنے لگ جائیں حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ راہو-کیتو شنی دیو کے تابع رہیں۔ لیکن یہاں تو ان تینوں گرہوں کی سمت ہی ایک دوسرے کے خلاف ہے۔ راہو (شندے) اس بات پر ناراض ہیں کہ شنی دیو نے کیتو (اجیت پوار) کو اپنے گربھ میں بٹھا کر ان کی اہمیت کیوں کم کر دی، جبکہ کیتو اس بات پر نالاں ہیں کہ راہو کی وجہ سے وہ وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہنچنے میں دیری ہو رہی ہے جبکہ وہ آئے ہی اس لیے تھے کہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوں گے۔

مہاراشٹر میں مراٹھا برادری کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کافی پرانا ہے۔ 1981 میں مزدور لیڈر انا صاحب پاٹل کے ذریعے شروع ہوئے مراٹھا ریزرویشن کے مطالبے پر 2014 تک خوب سیاست ہوتی رہی۔ 2014 میں کانگریس و این سی پی کی حکومت نے مراٹھا برادری کو 16، جبکہ پسماندہ مسلمانوں کو 4 فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد ریاست میں بی جے پی کی حکومت آ گئی اور ریزرویشن دینے کا یہ معاملہ عدالت پہنچ گیا۔ ممبئی ہائی کورٹ نے مراٹھا ریزرویشن پر روک لگا دی جبکہ مسلمانوں کو تعلیم و ملازمت میں 4 ریزرویشن جاری رکھے جانے کا فیصلہ دیا۔ چونکہ ریاست میں بی جے پی کی حکومت تھی اس لیے اس نے عدالت کے فیصلے کے باوجود مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں دیا۔ اس ضمن میں وزیر اعلیٰ دیوندر فڑنویس کی دلیل یہ تھی کہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینا آئین کے خلاف ہے، جبکہ اس ریزرویشن تک میں اس بات کی صراحت موجود تھی کہ مسلمانوں کو یہ ریزریشن ان کی پسماندگی کی بنیاد پر دیا جا رہا ہے۔


کہا جاتا ہے کہ مہاراشٹر بی جے پی کے سر پر گزشتہ اسمبلی انتخابات کے ساتھ ہی بدقسمتی کی دیوی براجمان ہو گئی۔ 2019 میں اس نے شیوسینا کے ساتھ اسمبلی انتخاب جیتا لیکن عین موقع پر ادھو ٹھاکرے نے اسے ٹھینگا دکھا دیا۔ اجیت پوار کو لے کر منھ اندھیرے حکومت بنائی تو پتہ چلا کہ ڈیڑھ دن میں ہی وہ حکومت منھ کے بل گر گئی۔ ڈھائی سال کی انتھک محنت کے بعد آپریشن لوٹس کے ذریعے شندے کو توڑ کر اپنے ساتھ ملایا تو پتہ چلا کہ مراٹھا برادری اس سے ناراض ہو گئی۔ مراٹھوں کو رام کرنے کے لیے اجیت پوار کو این سی پی سے توڑا تو ایک سروے سے معلوم ہوا کہ مراٹھوں کی توجہ حاصل کرنا تو دور عام لوگ بھی اس کی جانب سے اپنی نظریں پھیرنے لگے ہیں۔ ہندوی جیوتش شاشتر میں اس کیفیت سے چھٹکارا پانے کے لیے شنی دیو کی آرادھنا کی جاتی ہے لیکن جب شنی دیو ہی منھ پھیر لیں تو وہی ہوتا ہے جو گزشتہ روز جالنہ میں ہوا۔

2019 کے انتخاب میں فڑنویس یہ اعلان کرتے ہوئے ووٹ مانگ رہے تھے کہ میں دوبارہ واپس آؤں گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح پردھان سیوک صاحب نے لال قلعہ سے اگلے میقات کے لیے اپنی واپسی کا اعلان کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ شرد پوار نے اس کا کریڈیٹ فڑنویس کو دیا تھا۔ لیکن فڑنویس نے یہ اعلان کرتے ہوئے لوگوں کو یہ بتانا بھول گئے تھے کہ میں واپس تو آؤں گا لیکن کچھ ایسی حرکتیں کر جاؤں گا کہ بہت جلد واپس بھی چلا جاؤں گا اور اگر خود نہیں گیا تو آئندہ انتخابات میں لوگ مجھے واپس ناگپور پہنچا دیں گے۔ ان کے معافی کے اعلان کے بعد اب ان سے یہ پوچھا جانا چاہئے کہ کہیں وہ واپس جانے کا اعلان تو نہیں کر رہے ہیں کیونکہ جس مراٹھا ووٹ کے لیے انہوں نے اجیت پوار کو اپنے ساتھ ملایا تھا اس کے پانچ فیصد ووٹ بھی انہیں حاصل ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔

(یہ مضمون نگار کے ذاتی رائے ہیں، اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔