ندائے حق: پاکستان کی نئی قومی سلامتی پالیسی– نئے عہد و پیماں... اسد مرزا

تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کی نئی قومی سلامتی میں قومی دفاع کو عوامی ترقی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔

پاکستان، تصویر آئی اے این ایس
پاکستان، تصویر آئی اے این ایس
user

اسد مرزا

کافی دھوم دھام کے بعد، پاکستان کی ’پہلی‘ قومی سلامتی پالیسی (NSP) آخر کارمنظرِ عام پر آ گئی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ 75 سالوں سے یہ ملک قومی سلامتی کی پالیسی کے بغیر موجود تھا، پھر بھی بھارت کے ساتھ چار جنگوں، 1990 کی دہائی میں جوہری تجربات، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ایسوسی ایٹ 'ڈبل گیمز' کے نتیجے میں امریکا کی جانب سے پابندیوں سے بچ گیا اور کئی معاشی خرابیاں و کوتاہیوں کے باوجود پاکستان ایک بحیثیت ایک ملک جو کہ اپنے آپ کو ’اسلامی‘ ملک کہلانا پسند کرتا ہے، ابھی بھی عالمی سیاست کی بساط پر موجود ہے۔ گو کہ اس نے اپنی اس 75سالہ تاریخ میں اپنی قومی سلامتی کے مطالبات کی بنا پر انسانی و عوامی وسائل کی فروغ اور ان کی ترقی پر زیادہ دھیان نہیں دیا ہے۔

تاہم ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی حکومت جو کہ ملک میں ایک صاف شفاف سیاسی نظام قائم کرنے کے لیے اپنی پابندی کا اظہار کرکے برسرِ اقتدار آئی تھی اس نے پہلی مرتبہ انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے قومی سلامتی کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے باوجود جس طریقے سے انسانی وسائل کے بنیادی مسئلے اور عوامی ترقی کے وعدوں پر پالیسی میں مستقبل کے لیے حکمت عملی وضع کی گئی ہے اس پر نا صرف غیر ملکوں بلکہ پاکستان میں بھی پالیسی کی کافی نکتہ چینی کی گئی ہے۔


62 صفحات پر مشتمل NSP کا غیر درجہ بند حصہ یعنی Unclassified حصہ قومی سلامتی کے فریم ورک کی وضاحت کرتا ہے، اس کے نفاذ کے اصولوں کو بیان کرتا ہے، قومی ہم آہنگی کو تقویت دینے، ملک کے اقتصادی مستقبل کو محفوظ بنانے، اس کے دفاع، علاقائی سالمیت اور پاکستان داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی کو رہنما اصول دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بدلتی ہوئی دنیا میں خارجہ پالیسی اور انسانی سلامتی کے لیے رہنما اصول دینے کی بھی کوشش کی گئی۔

بیان بازی میں بھیگی ہوئی، فقروں اور نافہم الفاظوں سے بھرپور اس دستاویز پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اس سے ظاہر ہوگا کہ جس طرح سے اسے تیار کیا گیا ہے، اس میں ’امن‘، ’جیو اکنامکس‘ اور’مکمل‘ جیسے ظاہری طور پر متوجہ کرنے والے دعووں اور پوشیدہ معانی اور حکومت کا نقطہ نظر سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ پالیسی کا دعویٰ ہے کہ 'تمام اسٹیک ہولڈرز' یا شراکت داروں کی اتفاقِ رائے کا نتیجہ یہ پالیسی ہے، لیکن سب سے عجیب بات یہ ہے کہ پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر اور ان کا ڈویژن پارلیمنٹ کو 'تمام اسٹیک ہولڈرز' کے نظام کا حصہ نہیں مانتے۔


یہ نئی پالیسی گزشتہ 75 سالوں میں پہلی بار تشکیل دی گئی ہے، لیکن پارلیمنٹ کو یا سیاسی رہنماؤں کو اعتماد میں لیے بغیر۔ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ پہلی مرتبہ روایتی فوجی سلامتی کو انسانی فلاح و بہبود کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے اور اقتصادی سلامتی پر بنیادی توجہ مرکوز کی جا رہی ہے، جس کا نتیجہ لازمی طور پر انسانی سلامتی کو پاکستان میں عمل پیرا کرنے اور ایسی تدابیر کو اپنانے پر متوجہ ہوگا جس سے کہ عوامی معاشی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جاسکے۔

پالیسی کی سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ ماضی کی تباہ کن فوجی مہم جوئیوں سے تنقیدی طور پر صحیح نتائج اخذ کیے بغیر قومی سلامتی کا ایک نیا تصور پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اس خستہ حال سکیورٹی نظام کی ناکامیوں کا تجزیہ کرنے کے بجائے اور ان سے کچھ نئے سبق حاصل کرنے کے بجائے انھیں چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور یہ سوال پوچھنا ضرو ری ہوجاتا ہے کہ ”پہلی“ قومی سلامتی پالیسی کی دستاویز میں ایسا کیا نیا ہے، جس پر اپنی ستائش کی جا رہی ہیں؟


پہلی مرتبہ یہ بڑی تاخیر سے تسلیم کیا جا رہا ہے کہ ’معاشی تحفظ‘ کو یقینی بنائے بغیر ”روایتی تحفظ“ یعنی دفاع ممکن نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روایتی سیکورٹی کے بوجھ تلے ایک کمزور معیشت پاکستان میں پہلے ہی منہدم ہو چکی ہے۔ اور نتیجتاً روایتی فوجی سیکورٹی بھی بڑھتے ہوئے دباؤ میں آ تی چلی جا رہی ہے۔ شائع شدہ NSP دستاویز صرف ایک تجریدی تجزیاتی اور منقطع فریم ورک فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ روایتی سلامتی اور انسانی سلامتی کے درمیان غیر واضح طور پر ایک لکیر کھینچنے سے گریزاں ہیں۔

مزید یہ کہ ایک بامعنی اور بنیادی تبدیلی کی شکلیں کیا ہونی چاہئیں؟ سادہ اور واضح الفاظ میں، انسانی سلامتی، ریاست کی سلامتی کے برعکس، لوگوں کے بنیادی حقوق کی بنیاد پر ان کے تحفظ کا مطالبہ کرتی ہے۔ لیکن کسی بھی قسم کی تبدیلی کی اس بنیادی خصوصیت کا ذکر اتفاقی اور سطحی طور پر ہی پالیسی میں کیا گیا ہے، اور وہ بھی دستاویز کے آخری باب میں۔ پانچ باب صرف روایتی سلامتی اور اس سے متعلق دیگر معاملات سے متعلق ہیں، ایک اور باب خارجہ پالیسی کا احاطہ کرتا ہے اور ایک باب اقتصادی سلامتی سے متعلق ہے لیکن جس چیز کو پالیسی کا بنیادی مرکز بناکر پیش کیا جا رہا ہے، اس پر زیادہ تفصیلی اور سنجیدہ بات چیت نہیں کی گئی ہے۔


دستاویز نے بلاشبہ پاکستان کی دفاع پر زور دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی دستاویز نے بھارت کے ساتھ روایتی ہتھیاروں میں بڑھتے ہوئے عدم توازن پر تشویش بھی ظاہر کی ہے۔ ساتھ ہی معیشت کی ترقی میں ازالہ ضروری شرائط کے طور پر تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر ایک منحصر اور کمزور معیشت کے تضادات اور مطالبات بنیادی ہیں تو پہلے انہیں درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے پھر منطقی طور پر روایتی سلامتی کے تمام پہلوؤں کو معاشی ضروریات کے تابع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جو کہ پرامن بقائے باہمی، باہمی طور پر فائدہ مند اقتصادی تعاون، اور طویل اور صبر آزما مذاکرات کے ذریعے ہی ”بنیادی مسائل کی بحالی اور ان کے ممکنہ حل کی ضمانت دے سکتے ہیں۔

انتہائی پیچیدہ بنیادی مسائل کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ اختیار کرنے کے بجائے، اس کے لیے تمام پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات کے پرامن حل، سرحدوں کے پار باہمی طور پر فائدہ مند تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور اقتصادی باہمی انحصار کو مضبوط بنانے کے لیے اقتصادی ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ پاکستان ان میں سے کسی بھی موضوع پر سنجیدگی کے ساتھ عمل پیرا ہونے سے گریز کرتا ہے اور وہ ان تمام مسائل کا حل صرف جنگی ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش عملاً اور تصوراتی طور پر کرتا ہے۔ کیونکہ بنیادی طور پر پاکستانی دفاعی عملے کی نفسیات ہمیشہ سے بھارت مخالف رہی ہے اور وہ کبھی بھی، کنہی بھی حالات کے پس منظر یا پیشِ نظر اپنی اس بنیادی سوچ سے علیحدگی اختیار کرنے میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ بھارت مخالف جذبات کو بھڑکا کر ہی وہ اپنے لیے عوامی حمایت کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔