ایسی تیسی کریں اویسی!... اعظم شہاب

اویسی صاحب کی ایم آئی ایم نے جو کھیل بہار کے گوپال گنج میں کھیلا ہے، وہی اب وہ گجرات میں بھی دہرانے جا رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ بی جے پی کی مدد کی صورت میں ہی ظاہر ہوگا۔

اسدالدین اویسی، تصویر آئی اے این ایس
اسدالدین اویسی، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

ٹی وی چینلوں پر رات دن ہندو۔مسلم کا کھیل کھیلنے والے نیوز اینکروں کو ہمارے اویسی صاحب اتنی آسانی سے دستیاب کیسے ہوجاتے ہیں اور سیکنڈوں ومنٹوں کے حساب وکتاب سے چلنے والے سلائیٹ میں انہیں گھنٹوں گھنٹوں کا اسپیس کیسے مل جاتا ہے؟ اس راز سے بہار کے گوپال گنج کے نتیجے نے پردہ اٹھا دیا۔ اس اسمبلی سیٹ پر بی جے پی کے مقابلے میں آرجے ڈی، کانگریس، جے ڈی یو اور کمیونسٹ پارٹی سب نے مل کر اپنا مشترکہ امیدوار اتارا، لیکن ہمارے اویسی صاحب کی بدولت بی جے پی کی امیدوار یہ سیٹ 1794؍ووٹوں سے جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ بی جے پی کی امیدوار کو یہاں سے 70053 ووٹ ملے، آر جے ڈی کے امیدوار کو 68259 ملے جبکہ ایم آئی ایم کے امیدوار نے 12214؍ووٹ حاصل کیے۔ بہن جی کی امیدوار بھی یہاں سے میدان میں تھی۔ بہن جی نے یہاں سے لالو پرساد یادو کے سالے سادھو یادو کی اہلیہ اندرا یادو کو اپنا امیدوار بنایا، جنہوں نے 8854 ووٹ حاصل کیے۔ اس لیے گوپال گنج سیٹ سے بی جے پی کی امیدوار کی کامیابی کا سہرا راست طور پر اویسی صاحب کی ایم آئی ایم کے ہی سر جاتا ہے۔

یہاں سے آرجے ڈی کے امیدوار کو ہرانے کا کریڈیٹ سادھو یادو کو اس لیے بھی نہیں دیاجاسکتا کیونکہ ان کا مقصد ہی آرجے ڈی کے امیدوار کو ہرانا تھا۔ اسی سیٹ سے سادھو یادو 2000 میں آرجے ڈی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ 2005 کے الیکشن میں آرجے ڈی نے جب سادھو یادو کے بجائے امبیکا پرساد کو ٹکٹ دے دیا تو سادھو یادو آرجے ڈی کی مخالفت میں آگئے۔ انہوں نے اپنی اہلیہ اندرا یادو کو آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اتار دیا جنہیں 22617 ووٹ ملے اور وہ تیسرے نمبر پر رہیں۔ 2010 میں آرجے ڈی نے ریاض الحق کو ٹکٹ دیا تو سادھو یادو نے کانگریس سے ٹکٹ حاصل کیا، لیکن بی جے پی کے امیدوار سبھاس سنگھ 15893 ؍ووٹوں سے کامیاب ہوگئے اور سادھویادو   8448 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ اس کے بعد سے یہ سیٹ ابھی تک بی جے پی کے ہی پاس ہے۔ اس پے درپے شکست کے باوجود سادھو یادو اس سیٹ پر اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ 2020 کے الیکشن میں بی ایس پی کے ٹکٹ پر سادھو یادو دوسرے نمبر پر آگئے تھے اور یہی وجہ رہی کہ اس بار بھی بی ایس پی کی ہی ٹکٹ پر انہوں نے اپنی بیوی کو میدان میں اتارا۔ گویا سادھو یادو ہر الیکشن میں یہاں سے اپنی قسمت آزماتے ہیں لیکن وہ انہیں دغا دے جاتی ہے۔ جبکہ اویسی صاحب 2020 میں بہار میں قدم رنجہ فرمایا۔ اس لیے آرجے ڈی کی شکست کے لیے سادھو یادو یا بی ایس پی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔


گوپال گنج کے اس ضمنی الیکشن کے ساتھ ملک بھر میں دیگر6 سیٹوں پر بھی الیکشن ہوئے۔ انہیں سیٹوں میں سے تلنگانہ کی مونوگڈو سیٹ بھی تھی جہاں سے کل 48؍امیدوار میدان میں تھے۔ اس سیٹ پر ٹی آر ایس کے امیدوار نے بی جے پی کے امیدوار کو تقریباً 10؍ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان 48 امیدواروں میں اویسی صاحب کی ایم آئی ایم کا امیدوار نہیں تھا۔ یہی نہیں بلکہ دیگر سیٹوں پر بھی اویسی صاحب کا کوئی امیدوار نہیں تھا۔ لیکن بہار کے گوپال گنج جاکر انہوں نے اپنا امیدوار ضرور اتار دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اویسی صاحب گوپال گنج کی مقابلہ جاتی صورت حال سے لاعلم تھے؟ تو اس کا جواب انہوں نے گزشتہ دنوں گجرات کی 30 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کے اعلان سے کردیا۔ جس طرح اویسی صاحب کو یہ معلوم ہے کہ گجرات میں جاکر وہ کوئی سیٹ نہیں جیت سکتے، اسی طرح انہیں اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ گوپال گنج میں ان کا امیدوار کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ظاہر ہے کہ یہاں سے ایم آئی ایم کو ملنے والا ووٹ مسلمانوں اور یادووں کے ہی تھے۔ جس طرح گجرات پردھان سیوک و شاہ صاحب کی جنم کرم بھومی ہے، اسی طرح تلنگانہ بھی اویسی صاحب جنم کرم بھومی ہے۔ یہیں سے وہ پارلیمنٹ بھی جاتے ہیں۔ لیکن تلنگانہ کی اس سیٹ پر انہوں نے اپنا امیدوار نہیں اتارا۔

 گوپال گنج سیٹ سے بی جے پی امیدوار کی کامیابی پر شاہنواز حسین کا کہنا تھا کہ جے ڈی یو اور آرجے ڈی سب مل کر بھی بی جے پی کو نہیں ہرا سکیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہار میں مستقبل بی جے پی کا ہے اور وہ پارلیمانی الیکشن میں ریاست کی کل 40 سیٹوں پر کامیاب ہوگی۔ لیکن اس قدر خوشی منانے کے ساتھ ہی اگر شاہنواز حسین اویسی صاحب کا شکریہ بھی ادا کر دیتے تو کم ازکم احسان مندی کا حق تو ادا ہو جاتا لیکن جب بات پردہ داری کو ہو تو اپنے ہاتھوں ہی اپنی پیٹھ تھپتھانے پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی یہ اویسی صاحب کے ذریعے بی جے پی کو ملنے والی مدد مسلمانوں کی سیاسی طاقت کی مضبوطی کے نام پر تھی۔ اویسی صاحب اس کے ذریعے مسلمانوں کی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے جو ضروری بھی ہے، لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہرطاقت کا ہر جگہ مظاہرہ کسی طور مفید نہیں ہوتا۔ شاہنواز صاحب بھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بی جے پی کو ملنے والی یہ کامیابی اویسی صاحب کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ وگرنہ اویسی صاحب کی کوشش نہ ہوتی اور وہ اس سیٹ سے اپنا امیدوار نہ اتارتے تو آرجے ڈی بی جے پی کو اس بری طرح پٹخنی دی ہوتی کہ نہ کسم دیوی کہیں نظر آتیں اور نہ ہی شاہنواز حسین۔


یہ اسمبلی سیٹ پہلے سے ہی بی جے پی کے پاس تھی۔ سابق ریاستی وزیر سبھاش سنگھ اس سیٹ سے چار بار منتخب ہوئے۔ اسی سال اگست میں ان کے انتقال کے بعد یہ سیٹ خالی ہوگئی تھی اس لیے لوگوں کی ہمدردیاں فطری طور پر ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ تھیں۔ لہروں کے سہارے اپنی نیا پار لگانے والی بی جے پی نے لوگوں کی اس ہمدردی کی لہر کو کیش کرنے کی غرض سے سبھاش سنگھ کی بیوہ کسوم دیوی کو اپنا امیدوار بنا دیا۔ آرجے ڈی نے جے ڈی یو، کانگریس وکمیونسٹ پارٹیوں کے اتحاد کرتے ہوئے موہن پرساد گپتا کو ٹکٹ دیا۔ اگر یہ دونوں ہی میدان میں ہوتے تو غالباً ووٹنگ سے قبل ہی نتیجہ سامنے آگیا ہوتا کیونکہ یہ بات گوپال گنج کے لوگ ہی نہیں بلکہ پورے بہار کو معلوم تھا کہ اگر دو رخی مقابلہ رہا تو آرجے ڈی کی لالٹین بی جے پی کے کمل کو خاکستر کر دے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور حیدرآباد سے ہمارے اویسی صاحب آدھمکے اور انہوں نے عبدالسلام صاحب کو ایم آئی ایم کی ٹکٹ پر میدان میں اتار دیا۔

اویسی صاحب نے اب اسی کھیل کا مظاہرہ گجرات میں بھی کرنے کا اعلان فرمایا ہے۔ انہوں نے اس کے لیے 30؍اسمبلی سیٹوں کا انتخاب بھی کرلیا ہے جہاں وہ اپنے امیدوار اتاریں گے۔ ان میں وہ سیٹیں ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی ٹھیک ٹھاک ہے۔ مثال کے طور پر کَچھ کی ابڈاسا، مانڈوی، بھج، انجار، گاندھی دھام، بناس کاٹھا کی وڈگام، پاٹن ضلع کی سدپور، احمدآباد کی ویجل پور، دریاپور، جمال پور، کھاڑیا، دانی لمڑ، کھیڑ برہما، جونا گڑھ، پنچ محل، گرسومناتھ، بھروچ، سورت ارولّی، جام نگر، آنند اور سریندرنگر کی کچھ سیٹیں ہیں۔ یہ وہ سیٹیں جن کی بنیاد پر بی جے پی ہندو بنام مسلم پولرائزیشن بہ آسانی کرسکے گی۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اویسی صاحب بی جے پی کے ایک مددگار کے طور پر کام کر رہے ہیں اور کیا وہ اس بات کو نہیں سمجھ رہے ہیں؟ اویسی صاحب کے اس کھیل سے گجرات میں بی جے پی کے خلاف الیکشن لڑ رہی اپوزیشن پارٹیوں میں تشویش ہونا لازمی ہے۔ کیونکہ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اویسی صاحب کی پارٹی یہاں جیتنے کے لیے نہیں بلکہ انہیں ہرانے کے لیے اپنا امیدوار اتارے گی۔ ظاہر ہے کہ اس کا راست اثر سیکولر ووٹوں پر ہی پڑے گا جو بی جے پی کی کامیابی کا ضامن ہوگا۔ ملک کی موجودہ صورت حال کے پیشِ نظر اویسی صاحب اگر اپنی سیاسی حکمتِ عملی پر غور فرمائیں تو یہ مسلمانوں کے حق میں زیادہ مفید ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔