نڈا کا ہماچل اور شاہ کا گجرات!... اعظم شہاب

ہماچل میں باغی اگر بی جے پی کے لیے آزار بنے ہوئے ہیں تو گجرات میں موربی سانحہ پر ہونے والی لیپاپوتی اس کے لیے سوہانِ روح بن گئی ہےـ

امت شاہ اور جے پی نڈا، تصویر آئی اے این ایس
امت شاہ اور جے پی نڈا، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

نڈا صاحب کے ہماچل اور شاہ صاحب کے گجرات میں بی جے پی کے پیروں کے نیچے سے اس قدر تیزی کے ساتھ زمین کے کھسکنے کا اندازہ نہ تو پردھان سیوک کو رہا ہوگا اور نہ ہی بی جے پی کے عام کارکن کو۔ دونوں ریاستوں میں بی جے پی خود کو بہت مضبوط کہتی اور کہلواتی ہے، لیکن حالت یہ ہے کہ ہماچل میں پارٹی کے اندر بغاوت اس قدر اپھان پر ہے کہ اپنے وزراء تک سے بات نہ کرنے والے پردھان سیوک باغیوں کی منت سماجت کرتے نظر آنے لگے ہیں۔ دوسری جانب گجرات میں انہیں ہر ہفتے پہنچنا پڑ رہا ہے اور شاہ صاحب نے تو خیر وہاں ڈیرہ ہی ڈال لیا ہے۔ کہاں تو پورے ملک کو کانگریس مکت و اپوزیشن مکت کرنے کا عزم اور کہاں اپنا ہی گھر بچانا مشکل۔ عبرت کا یہ مقام بھی کتنا عجیب ہے کہ ایک ایسی پارٹی جو پوری دنیا میں خود کو سب سے مضبوط، منظم اور طاقتور سمجھتی ہے، اس کی حالت یہ ہے کہ اس کو اپنی ہی حکومت والی ریاستوں میں کامیابی کا یقین نہیں ہے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر قدرت کے اس قانون پر یقین مزید پختہ ہوجاتا ہے کہ رعونت، جھوٹ، تکبر و حرص کا انجام ذلت وخواری کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

ہماچل کی تو خیر ہر پانچ سال بعد حکومت تبدیل کرنے کی روایت رہی ہے، لیکن گجرات والوں کو آخر کیا ہوگیا کہ وہ بھی اس بار صاحب اور ان کے وعدوں سے موہ بھنگ کئے ہوئے نظر آرہے ہیں؟ ویسے گزشتہ الیکشن میں بھی یہی صورت حال تھی لیکن پردھان سیوک کے ویکٹم کارڈ سے کسی طرح ناک بچ گئی تھی، پھر بھی گولی کنپٹی کو چھوتے ہوئے گزری تھی۔ لیکن اس بار حالات گزشتہ بار سے بھی بدتر ہیں۔ چند روز قبل اے بی پی سی ووٹر کے سروے میں 40 فیصد سے زائد لوگوں کے ذریعے حکومت تبدیلی کی بات کہی گئی ہے۔ گوکہ یہ سروے بی جے پی کے ٹمٹماتے چراغ کو تیز کرنے کی ایک کوشش ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کوشش سے سراسمیگی میں ہی اضافہ ہوا ہے۔ اس سروے کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماچل وگجرات میں دونوں جگہ بی جے پی کو بھرپور اکثریت دی گئی ہے لیکن سروے میں شامل ہونے والوں کے اعداد وشمار نے مٹی پلید کرکے رکھ دی۔ ویسے بھی آج کل سروے اور پیشین گوئیوں کی حیثیت تفریح سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتیں۔


اے بی پی سی ووٹر کے سروے میں بتایا گیا ہے کہ ہماچل سے1361 ؍اور گجرات سے 1425 ؍لوگوں کی رائے لی گئی ہے۔ ایک ایسا سروے جس میں دو ریاستوں میں ایک ہی پارٹی کو بھرپور اکثریت دی گئی ہو، اس میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی رائے لیا جانا واقعی حیرت انگیز ہے۔ معلوم نہیں اس زحمت کی بھی کیا ضرورت تھی، یہ کام تو اسٹوڈیو میں ہی بیٹھ کر ہوسکتا تھا؟ پھر بھی اگر ہم سروے کرنے والے ادارے کی اس بات پر یقین کرلیں کہ ان چند سو لوگوں کی رائے جاننے کے لیے اس نے اپنے لوگوں کو باقاعدہ فیلڈ میں دوڑایا ہے تو بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان چند سو لوگوں کی آراء پر ہماچل کے 73لاکھ اور گجرات کے 6 کروڑ لوگوں کی سوچ کو منطبق کرسکتے ہیں؟ کمال کا ہے یہ سروے بھی، جس طرح ملک کی بیروزگاری اور گجرات کی بدحالی پر پردہ ڈالا جاتا ہے، اگر اسی طرح رائے شماری کے اعداد کو بھی نہ بتایا جاتا تو بھی لاج رہ جاتی، لیکن وہ کہا جاتا ہے ناکہ جب مشیت ہی ذلیل کرنے پر آمادہ ہو تو پھرعقل بھی گھاس چرنے چلی جاتی ہے۔

بی جے پی نے ہماچل پردیش کے لیے اپنا انتخابی منشور جاری کیا ہے۔ اپنے انتخابی منشور کو بی جے پی اب ’سنکلپ پتر‘ یعنی عہد نامہ کہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ منشور میں جو باتیں کہی گئی ہیں وہ بی جے پی کا عہد ہے جس کو پورا کرنے یا نہ کرنے میں وہ اپنے طور پر آزاد ہے۔ گویا انتخابی منشور جاری کرنے سے قبل ہی جوابدہی سے بچنے کی راہ تلاش لی جاتی ہے۔ اپنے سنکلپ پتر میں یونیفارم سول کوڈ اور مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے بجٹ مختص کئے جانے کے وعدوں کے ساتھ اس نے عورتوں کے لیے ’استری شکتی سنکلپ‘ پیش کیا ہے۔ جس میں سرکاری ملازمتوں میں عورتوں کو 33 فیصد ریزرویشن، بی پی ایل فیملی کی بیٹیوں کی شادی کے لیے 51ہزار، اسکولی طالبات کو سائیکل اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کو اسکوٹی دینا وغیرہ شامل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس استری شکتی سنکلپ کے سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی لوگوں نے یہ سوال کرنا شروع کر دیا کہ کیا یہ بھی گجرات میں بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی کی طرح ہی ہوگا؟ کیونکہ گجرات میں بھی اسی طرح عورتوں کے لیے ایک اسکیم جاری ہے۔


گجرات میں سنکلپ پتر یعنی انتخابی منشورکے لیے بی جے پی نے 15؍نومبر تک لوگوں سے رائے طلب کی ہے۔ معلوم نہیں اس تکلف کی کیا ضرورت تھی، اگر ہماچل کی ہی مانند یہاں پر بھی یو سی سی کے نفاذ کا ہی سنکلپ دوہرا دیا جاتا تو بھلا کون پوچھنے والا تھا؟ ویسے بھی گجرات میں اب بھلا ترقی وعوامی فلاح وبہبود کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ گزشتہ 27سالوں میں بی جے پی نے گجرات کو ترقی کے نام پر اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ وہ ملک کی سب سے مقروض ریاست بن گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈھائی عشروں سے زیادہ حکومت کرنے کے باوجود کیا ابھی تک بی جے پی گجراتیوں کے مسائل سے واقف نہیں ہوسکی ہے اور اگر ہوئی تو اتنے عرصے تک اس نے کیا کیا؟ لیکن بی جے پی کے انتخابی منشور سے قبل ہی کانگریس نے اپنے وعدوں سے لوگوں کی توجہ ضرور مبذول کرالی ہے۔ بنیادی ضروریات کی تکمیل اور عوامی مفاد کو ترجیح دے کر کانگریس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کی سیاست پولرائزیشن سے پرے ہے۔ اس نے کسی بھی جذباتی ایشو کو ہاتھ نہ لگاتے ہوئے صرف عوامی ترجیحات پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ریاستوں کے دیہی علاقوں میں کانگریس کی طاقت پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی ہے۔ ہماچل میں اگر باغی بی جے پی کے لیے آزار بنے ہوئے ہیں تو گجرات میں موربی سانحہ اس کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں اگر مرکزی حکومت بجائے دہلی سے چلنے کے گجرات سے چلنے لگے تو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔