گجرات بی جے پی: ڈوبتے کو ’یو سی سی‘ کا سہارا!...اعظم شہاب

دلچسپ بات یہ ہے کہ 27 سال تک حکومت کرنے کے بعد بھی گجرات میں بی جے پی کے پاس کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس کی بنیاد پر وہ عوام سے ووٹ مانگ سکے

وزیر اعلیٰ گجرات بھوپیندر پتیل / آئی اے این ایس
وزیر اعلیٰ گجرات بھوپیندر پتیل / آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

گجرات کے اندر جب بی جے پی کو اپنی سانسیں اکھڑتی محسوس ہونے لگیں تواس نے یکساں سول کوڈ کا کلمہ پڑھنا شروع کر دیا۔ انتخابی کمیشن آئندہ دو ایک روز میں انتخاب کا اعلان کر سکتا ہے لیکن اس سے قبل ہی بی جے پی کی حالت غیر ہو چکی ہے اوپر سے یہ پل حادثہ۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی کامیابی کے لیے کسی ایک موضوع پر ٹھہرہی نہیں پا رہی ہے۔ پہلے اس نے بلقیس بانو مجرمین کی رہائی کے ذریعے ماحول سازی کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ اپوزیشن یا دیگر انصاف پسندتو دور خود بی جے پی کے اندر سے ہی اس کی مخالفت میں آوازیں اٹھنے لگیں۔ اس نے گجرات کو ترقی یافتہ ریاست ثابت کرنے کے لیے مہاراشٹر کے کچھ بڑے پروجیکٹ گجرات منتقل کرنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ نہ صرف مہاراشٹر بلکہ گجرات میں بھی لوگوں نے دوسری ریاست کا حق چھیننے پر تھو تھو کرنی شروع کر دی۔ ہندوتوا کے نام پر لوگوں کوورغلانے کی کوشش شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ کیجریوال نے خود کو پردھان سیوک سے بڑا ہندوتواوادی بناکر پیش کر دیا۔ اب مرتاکیانہ کرتا کی مصداق یکساں سول کوڈ کا پتہ پھینکا گیا ہے لیکن اس کی بھی حیثیت یہ ہے کہ خود بی جے کے لوگ ہی اس پر تکیہ نہیں کرپارہے ہیں۔

یوسی سی ہمیشہ سے آر ایس ایس کا ایجنڈا رہا ہے۔ لیکن مرکز میں گزشتہ8سالوں سے برسرِ اقتدار ہونے کے باوجود بی جے پی آج تک اس کو لاگو نہیں کرسکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہندوستان کی تکثریت کے خلاف ہے۔ جس ملک میں 12؍ہزار سے زائد قبائل ہوں، جہاں ہرمذہب کے ماننے والوں کا علاحدہ علاحدہ پرسنل لاء ہواور جو ایک دوسرے سے متصادم بھی ہوں، وہاں اس کو لاگو کرنا ویسا ہی ہے جیسے تمام لوگوں کو ایک ہی قسم کا کھانا کھانے کا پابند کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت میں مرکزی حکومت خود اس کے ناقابلِ عمل ہونے کی گواہی دیتی ہے۔اسی ماہ کی 18؍تاریخ کو مرکزی حکومت نے یوسی سی لاگو کرنے کی ضمن میں سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ یہ لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے اس کے لاگو کرنے کے مفادِ عامہ کی عرضداشت بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے نے ہی داخل کی تھی۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے بی جے پی کی ہی مرکزی حکومت سپریم کورٹ میں اس کے ناقابلِ عمل ہونے کی بات کہتی ہے اور گجرات میں اس کو نافذ کرنے کے لیے کمیٹی بنانے کا فیصلہ کرتی ہے؟ تو اس کا جواب الیکشن میں اس کی ناقابلِ یقین صورت حال میں پوشیدہ ہے۔


گجرات میں 27سال سے بی جے پی کی حکومت ہے،لیکن اس دوران اسے کبھی بھی یوسی سی کا خیال نہیں آیا۔ اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں پربھی اس نے کبھی یوسی سی کی بات نہیں کی۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں پر بھی وہ یو سی سی کا ذکر نہیں کرتی۔لیکن گجرات جہاں اب اس کی مدتِ کار ختم ہونے والی ہے، وہاں پر وہ اس کے نافذ کرنے کی بات ضرور کرتی ہے۔ اسی طرح جب اتراکھنڈ میں الیکشن ہونے والا تھا تو یوسی سی کی بات آئی اور کمیٹی بنائی گئی تھی۔ الیکشن کے بعد یوسی سی کا نفاذ تو دور کمیٹی کے بار ے میں بھی کسی کو کوئی خبر نہیں ہوئی۔ بالکل اسی طرح اب جبکہ گجرات الیکشن سرپرہے اور بی جے پی کو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ اس کی پولرائزیشن کی ہرکوشش ناکام ہورہی ہیں تو اس نے یوسی سی کے لیے کمیٹی بنانے کا اعلان کردیا۔ کیا یہ دلچسپ بات نہیں ہے کہ ایک ایسی ریاست جہاں بی جے پی کی 27سال حکومت رہی، جووزیراعظم ووزیرداخلہ کی جنم بھومی ہے اور جس کو آدرش بناکر اس نے پورے ملک میں ماحول سازی کی تھی، اسی ریاست میں آج اسے پولرائزیشن کا سہارا لینا پڑرہا ہے اوریو سی سی جیسے جذباتی باتوں کو اچھال کر ووٹ مانگنا پڑ رہا ہے؟ اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ بی جے پی کی حالت انتہائی خراب ہے اور الیکشن سے قبل ہی اپنی ہار تسلیم کرچکی ہے۔یوں بھی یوسی سی کا نفاذ ریاستی حکومت کے نہیں بلکہ مرکزی حکومت کے اختیارمیں ہے۔

سچائی یہ ہے کہ اپنے دورِ اقتدار میں بی جے پی نے گجرات میں ایسا کچھ کیا ہی نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر وہ عوام سے ووٹ مانگ سکے۔ اس نے گجرات کے لوگوں کو سلوگن کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔یہی وجہ ہے کہ اسے بار بار اپنا وزیراعلیٰ تبدیل کرنا پڑا۔ اس نے اپنی پوری توجہ عوامی فلاح وبہبود کے کاموں کے بجائے امیج بلڈنگ پر لگائی،جس کے لیے اس نے لاکھوں کروڑوں روپئے صرف کیے۔ گجرات میں بی جے پی کے ترقیاتی کاموں کا اندازہ موربی ضلع میں مچھّو ندی پر بنے پُل کے ٹوٹنے سے لگایا جاسکتا ہے جس میں 91سے زائد افراد موت کے منھ میں اور 70 سے زائد لوگ زخمی ہوکر اسپتال پہنچ گئے۔کہاجاتا ہے کہ یہ اس قدر مصروف پُل تھا کہ حادثے کے وقت اس پر 300لوگ موجود تھے۔کیا گجرات حکومت کو اندازہ نہیں تھا کہ اس پل پر لوگ تفریح کی غرض سے آتے ہیں،پھر آخراس کو مضبوط کیوں نہیں بنایا گیا؟محض رونگ وروغن کے لگانے کو ہی اگر مرمت سمجھ لیا جائے تو بی جے پی یہی کام پورے ملک میں کررہی ہے۔ بی جے پی اس کے لیے کانگریس یا گاندھی خاندان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتی کیونکہ ستائیس سال سے وہ اقتدار میں ہے۔ اس حادثے میں مرنے والوں کو مرکزی حکومت کی جانب سے دو لاکھ اور ریاستی حکومت کی جانب سے ۴لاکھ روپئے دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی اور ریاستی حکومت کی جانب سے زخمیوں کو 50-50 ہزار روپے دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ یہی رقم اگر پُل کی مرمت پر خرچ کی جاتی تو یہ حادثہ رونما ہی نہیں ہوتا۔لیکن جن کو دن رات ہندو مسلمان کھیلنے سے فرصت نہ ہو وہ بھلا تعمیر و ترقی کے کام کیونکر کرسکتے ہیں۔


کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بی جے پی کے ووٹ بینک میں کوئی سیندھ نہیں لگائی جاسکتی۔ یہ ایسی ہی بات جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ آندھی آئے گی تو دھول نہیں اڑے گی۔ جو لوگ یہ باتیں کہتے ہیں ان کے سامنے خود گجرات کی ہی مثال ہے۔ 2002میں گجرات میں بی جے پی کے پاس 127 سییٹں تھی جو 2012 میں گھٹ کر 117 ہو گئیں اور پھر 2017 میں یہ سیٹیں کم ہو کر 99 پر پہنچ گئیں۔ اتر پردیش میں 2017 کے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے پاس 312سیٹیں تھیں جو 2022میں کم ہوکر 255رہ گئیں۔ خود دہلی میں جہاں بی جے پی کی مرکزی حکومت بھی ہے، وہاں 2013کے الیکشن میں بی جے پی کے پاس 32سیٹیں تھیں۔2015میں دوبارہ الیکشن ہوا تو بی جے پی سمٹ کر 3پر پہنچ گئی۔ اس کے پانچ سال بعد جب پھر الیکشن ہوا تو بی جے پی 3 سے آگے بڑھ کر 8 سیٹ پر آگئی۔ اگر بی جے پی کے ووٹ بینک میں سیندھ نہیں لگتی تو گجرات میں بی جے پی 127 سے 117 اور پھر 117 سے 99 پر کیسے پہنچتی؟ اگر بی جے پی کا روایتی ووٹر بی جے پی کے ساتھ ایماندار رہتا ہے تو دہلی جہاں بی جے پی ایک زمانے میں سب سے بڑی اور مضبوط پارٹی ہوا کرتی تھی وہ وہاں 31 سے سمٹ کر 3 اور 8 پر کیوں پہنچتی؟ اتر پردیش جسے ہندوتوا کی لیباریٹری بنانے میں پوری بی جے پی نے سردھڑ کی بازی لگادی تھی، وہاں وہ 312 سے سمٹ کر 255 تک کیوں آ گئی؟ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی کا کوئی ووٹ بینک نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ بی جے پی سے کبھی جدا نہیں ہوگا؟ یہ سوچنا بھی غلط ہے۔

گجرات میں بی جے پی حکومت کے خلاف عوام میں اس قدر شدید ناراضگی ہے کہ بی جے پی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس ناراضگی کو دور کرنے کے لیے وہ کیا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگوں کو جذباتی مسائل میں الجھاکر ان کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا چاہتی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ داؤ بھی الٹا جارہا ہے۔ پردھان سیوک صاحب آج کل گجرات میں ہیں۔ اتوار کو انہوں نے مہاراشٹر سے گجرات جانے والے ٹاٹاایئربیس پروجیکٹ کا افتتاح کیا اور پیرکو کیوڑیا علاقے میں سردارولبھ بھائی پٹیل کے اسٹیچو آف یونٹی کا افتتاح کیا۔ اس اسٹیچو آف یونٹی کی صورت حال یہ ہے کہ اس کے لیے وہاں کے آدیواسیوں کے سیکڑوں کے ایکڑ زمین حکومت نے لے لیا ہے جس کے خلاف آدیواسیوں کا زبردست احتجاج جار ی ہے۔ندیوں کو جوڑنے کا مرکزی حکومت کا ایک اہم پروجیکٹ ہے جس کے تحت ملک کی بھر کی 30 ندیوں کو آپس میں جوڑا جانا ہے۔گجرات میں اس پروجیکٹ کے تحت پار، تاپی اور نرمدا رند ی کو آپس میں جوڑا جانا تھا جسے یورلنک پروجیکٹ کہاجاتا تھا۔ اس پروجیکٹ کے خلاف لوگوں نے اس قدر زبردست احتجاج کیا کہ حکومت کو اسے واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔گجرات کے اس پروجیکٹ سے باہر ہونے کی صورت میں اب مرکزی حکومت کایہ پروجیکٹ ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا ہے۔


یہی حال ہزاروں کروڑ روپئے کے ویدانتا پروجیکٹ کا بھی ہے جو سورت سے کچھ 60 کلومیٹر لگنا تھا لیکن اس کی بھی اس قدرسخت مخالفت ہوئی کہ اس کو ڈراپ کردینا پڑا۔بھرت مالا کے نام پر جو بڑے بڑے انفراسٹرکچر پروجیکٹ جو جگہ جگہ پلان کئے جارہے ہیں، جس میں لوگوں کی ہزاروں ایکڑ زمین جائے گی، اس کے خلاف ہرجگہ لوگوں کے ذریعے مخالفت ہورہی ہے۔ کانگریس کے زمانے میں آدیواسیوں کی زمینوں کے تحفظ کے لیے فارسٹ رائیٹ ایکٹ بنا لیکن بی جے پی نے حکومت اس پر عمل نہیں کیا، جس کے خلاف آدیواسی سخت احتجاج کررہے ہیں۔ یہ پوری صورت حال ریاست میں بی جے پی کی پوزیشن کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اب ایسی صورت میں اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور ہتھیار نہیں بچتا کہ وہ لوگوں کو جذباتی باتوں میں الجھائے۔ بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی سے فائدہ اٹھانے کا اس کا حربہ ناکام ہوگیا، دوسری ریاستوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا بھی اس کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوا۔ عوامی ناراضگی ہے کہ وہ دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ ایسی صورت میں یوسی سی کا ناقابلِ عمل فارمولہ اس کے کتنا کام آئے گا؟اس کااندازہ لگانا مشکل نہیں۔گزشتہ گجرات الیکشن میں 99سیٹ پر آنے کے بعد اثر یہ ہوا کہ بی جے پی راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ہار گئی۔اگراس بار یہ گجرات ہار جاتی ہے یا پچھلی بار سے کم سیٹ لاتی ہے تو اس کا اثر ایک بار پھر ایم پی، راجستھان، چھتیس گڑھ اور کرناٹک پر پڑے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔