مشترکہ ایشوز کو مقصد بنا کر مضبوط اتحاد تشکیل دینا ہوگا .. مرنال پانڈے

اپوزیشن پارٹیوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مضبوط اتحاد کے لیے سبھی پارٹیوں کے مشترکہ مفادات کا خیال رکھا جانا انتہائی ضروری ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مرنال پانڈے

پہلے زمانے میں جب کیٹرر یا ویڈنگ پلانر نامی خرچیلی چیزیں منظر عام پر نہیں آئی تھیں، شادی بیاہوں کی بڑی بڑی تقاریب بھی صدیوں تک گاؤں یا محلہ سطح کے گٹھ جوڑ کی مدد سے ہنستے کھیلتے منعقد کی جاتی رہی ہیں۔ ان گٹھ جوڑ یعنی اتحاد میں ذات برادری کے علاوہ دیگر ذات و مذہب کے لوگ بھی کسی نہ کسی سطح پر اپنائیت سے شریک ہوتے تھے کیونکہ بہترین انعقاد کرنا پورے طبقہ کی عزت کا سوال ہوا کرتا تھا۔ ان انعقاد کی کامیابی کے لیے جو رسم و رواج اور شرائط و ضوابط بنے وہ کسی نہ کسی سطح پر آج بھی ایک مضبوط ہندوستانی گٹھ جوڑ بنوانے میں معاون ہو سکتے ہیں۔

اتحاد کا پہلا عنصر یہ ہوتا تھا کہ سبھی فیملی کے مشترکہ مفادات کا خیال رکھا جائے۔ شادی ان میں سے ایک بڑا ایشو تھا کیونکہ اس کے انعقاد کے دوران سماج اپنی مصروف زندگیوں کے اندر ایک دوسرے پر انحصار سے روبرو ہوتا تھا۔ لہٰذا گھر کے لوگوں کے علاوہ باہر گاؤں رشتے طے کرانے میں نائی کی، مانگ میں سندور ڈالنے میں ناون اور دھوبن کی، چوڑی پہرائی-کنواں پجائی میں کہار اور کمہارن، سب کا واضح کردار رکھا جاتا رہا۔ سیاست کے گٹھ جوڑ کی کامیابی کا پہلا منتر ہے گٹھ جوڑ کے لیڈروں کے ذریعہ ہر پارٹی کے معاونین کو ان کی گٹھ جوڑ کے لیے لازمیت کا لگاتار عزت کے ساتھ احساس دلاتے رہنا۔

انتخاب سے قبل علاقائی پارٹیوں کے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کرنے والی بی جے پی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ کام اپنے گزشتہ چار سالوں میں کامیابی سے نہیں کیا، جس کا نتیجہ اسے عین 2019 سے قبل ہوئے ضمنی انتخابات میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اتحادی پارٹیوں میں سے شیو سینا، جنتا دل یو، یہاں تک کہ اکالی اور پاسوان تک اپنی ناخوشی برسرعام ظاہر کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کو یہ بات اپنے مستقبل کے لیے نوٹ کرنی ہوگی۔ ہندوستان کا ووٹر وِبھیشن کی بھی بے عزتی پسند نہیں کرتا۔

دوسرا منتر ہے، شروع سے ایسے علاقائی ایشوز کو نظر میں رکھنا جو سبھی شراکت داروں کے لیے موضوعِ فکر ہوں اور پھر ان کو ساتھ مل کر اس طرح راستہ نکالنا کہ ان کی علاقائی پہچان اور ساکھ بنی رہے۔ فی الحال ایسا کرنے کے لیے ایک بہت عمدہ موقع تاریخ نے ان کی جھولی میں ڈالا ہے... یعنی کسان و زراعت کا معاملہ۔ ہر ریاست میں آج کسان کی بدحالی اور نوجوانوں میں بڑھتی بے روزگاری زبردست فکر کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ یہ یاد رکھنے والی بات ہے کہ وہ جس بھی حالت میں ہیں، زراعت ہی آج بھی ملک کے ہر علاقے میں سب سے زیادہ ہاتھوں، خصوصاً خواتین کو روزگار مہیا کرواتی ہے۔ اس لیے زراعت کے معاملے کو مشترکہ فکر کا بڑا ایشو بنا کر پالیسی طے کرنا 2019 میں گٹھ جوڑ کو مضبوطی اور انسانی سروکار کو فروغ دے سکتا ہے۔

اب تک حکومت نے زراعت کے تئیں لچھے دار باتیں تو کئی کی ہیں لیکن مجموعی طور پر کم از کم زراعتی قیمت طے کرنے کے طریقوں یا بجلی، پانی، فرٹیلائزر کی سبسیڈی کی شرح تھوڑی بڑھانے پر ہی زیادہ توجہ دی ہے۔ دوراندیشی کے ساتھ عالمی ماحولیات میں آتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے تراکیب، بھاری تعمیرات سے ختم ہوتے آبی ذرائع کے تحفظ، مناسب ذخیرہ اندوزی کا حلقہ تعمیر کرنے یا کسان کا سارا منافع ہضم کرنے والے بچولیوں کی حوصلہ شکنی کرنے جیسے کام بہت کم ہی کیے گئے۔

اپوزیشن اتحاد کو یہ دھیان میں رکھنا ہوگا کہ نوجوانوں، خواتین کو چھوٹے یا درمیانے شہری تاجر بن کر بھرپور پیسہ کمانے کا خواب دکھانا ناممکن ہے کیونکہ اس کے لیے جس سطح کی تکنیکی اور لسانی صلاحیت اور ای-ایجوکیشن درکار ہے وہ دینے لائق تعلیمی ڈھانچہ ابھی ہمارے یہاں نہیں بن سکا ہے۔ نتیجتاً ڈگری ہوتے ہوئے بھی ہمارے زیادہ ترنوجوان اچھی تکنیکی مشینوں اور روبوٹکس سے چلائی جا رہی مشینوں کے لیے اہل نہیں ہیں۔ ہر سال گاؤوں سے تھوڑا بہت پڑھ کر نکلے نوجوانوں کی کثیر تعداد کے مدنظر ابھی ان کے لیے زراعت کو مفید اور جینے لائق پیسہ کمانے کا ادارہ بنانا ہی زیادہ مناسب اور کارآمد ثابت ہوگا۔

یہاں ہم پاتے ہیں کہ آئین نے زراعت اور بجلی پیداوار کے ایشوز تو ریاستوں کے حق اختیار میں رکھے ہیں لیکن بجلی قیمتوں پر کنٹرول مرکز کا ہے۔ اس لیے طرح طرح کے ٹیکس لگا کر پٹرولیم مصنوعات سے زبردست منافع کماتی رہی حکومت کے پیش نظر اپوزیشن اتحاد کو شہر و گاؤں ہر کہیں عوام کو ساتھ لینے کا ایک موقع مل جاتا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں کو کم کرانے سے متعلق وہ مدلل محاذ بندی کریں تو اسےمکمل عوامی حمایت ملے گی کیونکہ زراعت ہی نہیں، ٹرانسپورٹیشن اور ہر طرح کی مال ڈھلائی کی قیمتیں بھی اس سے متاثر ہوتی ہیں۔

یہی درست ہے کہ سرکاری ٹیکس کم ہوا تو مرکزی ترقیاتی منصوبوں پر اثر پڑے گا۔ لیکن غور سے دیکھیے کہ وہ منصوبے آخر ہیں کیا؟ چار دھام یاترا کے لیے نازک علاقے میں سڑکوں کی چوڑاکاری، جو پہاڑوں کو ہلا رہا ہے اور منداکنی جیسی ندیوں کو ملبے سے بھر رہا ہے؟ کسانوں کو غیر ضروری سبسیڈی، جو کہیں کہیں ایک سے دس روپے تک کے چیک میں ان تک پہنچ رہی ہے؟ جَن دھن منصوبہ جس کے ہزاروں اکاؤنٹ خود حکومت کی جانچ میں فرضی ثابت ہوئے؟

آخری ایشو زراعتی شعبہ میں بچولیوں کے کردار کو کم کرنے کا ہے۔ اس کے لیے ذخیرہ اندوزی کے ٹھوس منصوبے اور کسان کو براہ راست منڈیوں سے جوڑنے والے ای-اسٹیج کی پریکٹیکل تجاویز گٹھ جوڑ کو ریاستی سطح پر بھروسہ اور مقبولیت دلوائیں گی۔ حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج ثابت کر رہے ہیں کہ ذات، مذہب یا پرتشدد فرقہ واریت کے ایشوز کی سیاست اب بہت دور کا سفر طے نہیں کرتی۔ اس ملک کی روح یکجہتی اور میانہ روی ہے جس بات کو پہلے بدھ، مہاویر اور پھر گاندھی ہم کو سمجھا گئے۔ یہاں مذہب نہیں بلکہ اعمال، اور جناح نہیں بلکہ گنّا ہی صحیح گٹھ جوڑ کے لیے مدلل انتخابی ایشو بن سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */