نرملا کا نرالا سر!

اوبامہ کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بیان پر مسلم ممالک کے ایوارڈز کا پردہ ڈالنے والی وزیرخزانہ کو کیا ملک میں ہونے والے واقعات کی بھی خبر ہے؟

نرملا سیتارمن / تصویر یو این آئی
نرملا سیتارمن / تصویر یو این آئی
user

اعظم شہاب

مودی جی جب تک امریکہ میں تھے، مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک والے اوبامہ کے بیان کو اپنی نرملا تائی کسی طرح برداشت کرتی رہیں، لیکن جیسے ہی وہ مصر پہنچے، پھٹ پڑیں۔ اس کی ایک وجہ آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کا وہ حشر بھی تھا جنہیں اوبامہ کو ’حسین اوبامہ‘ کہنے پر ایسی لتاڑ پڑی کہ ان کی سٹی پٹی گم ہوگئی۔ لیکن پردھان سیوک کے مصر پہنچنے کے بعد چونکہ میدان صاف تھا اور کسی دوسری پریس کانفرنس کا امکان بھی ختم ہوگیا تھا، اس لیے نرملاتائی کو اوبامہ پر پلٹ وار کا موقع مل گیا۔ انہوں نے اوبامہ کو مسلم ممالک پر بمباری یاد دلا دی، جس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں سے متعلق ہمارے پردھان سیوک کو نصیحت پلانے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکیے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکہ نے مسلم ممالک پر بمباری کی تھی تو کیا اس بنیاد پر ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو جائز ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شوگر کا مریض کسی کے شکر کنٹرول کے مشورے پر محض اس لیے تنقید کرنے لگے کہ مشورہ دینے والا خود شکر کا استعمال کرتا رہا ہے۔ ایسی صورت میں مشورے کی اہمیت تھوڑی ہی کم ہوجائے گی؟ مشورہ دینے والے نے جو مناسب سمجھا وہ بتا دیا، اب ماننا یا نہ ماننا مریض کا کام ہے۔ لیکن جب آدمی کو یہ غلط فہمی ہوجائے کہ اس کو کوئی بیماری نہیں ہے تو اسے صحت سے متعلق ہر مشورہ گراں گزرنے لگتا ہے اور یہی معاملہ نرملا تائی کے ساتھ بھی ہے۔ وہ بجائے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے واقعات پر غور کرنے کے اوبامہ کو امریکہ کی غلطیاں یاد دلانے لگی ہیں۔


نرملاتائی کا کہنا ہے کہ مودی کو جو 13؍ایوارڈ ملے ہیں، ان میں سے 6؍ایوارڈ ان ممالک نے دیئے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اس کے ذریعے وہ بتاناچاہتی ہیں کہ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہوتا تو مسلم ممالک انہیں ایوارڈز نہیں دیتے۔ اب اسے نرملا تائی کی سادگی کہیں یا چالاکی کہ انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اوبامہ نے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی بات کہی ہے ناکہ مسلم ممالک کے ساتھ، مودی جی کے تعلقات پر سوال کیا ہے۔ ہرملک کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں اور یہ تعلقات بسا اوقات دوستی میں بھی تبدیل ہو جایا کرتے ہیں۔ اس دوستی کی بنیاد پر وہ ممالک اپنے یہاں کی پالیسی تھوڑی تبدیل کرتے ہیں؟

اتفاق کی بات ہے کہ وزیرخزانہ جس دن اوبامہ کے بیان پر تنقید کر رہی تھیں، اسی دن ملک میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے کئی ایسے واقعات ہوئے جو ان کے بیان کی ہی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ جس پلوامہ کے نام پر مودی جی 2019 کے الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے، اسی پلوامہ ضلع کی ایک مسجد میں ہندوستانی فوج کے راشٹریہ رائفلز کی پچاسویں بٹالین کے کچھ جوان گھس گئے اور نمازیوں سے زبردستی جئے شری رام کے نعرے لگوائے۔ یہ واقعہ ایسے وقت ہوا جب وزیر داخلہ امت شاہ جموں کشمیر کے دوروزہ دورے پر موجود تھے۔ اس واقعے کی جموں و کشمیر کے تین سابق وزراء نے بہ یک وقت مذمت کی ہے۔ کیا تائی بتائیں گی کہ نماز ادا کرنا مودی کی ’یکساں سلوک والی حکومت‘ میں کب سے جرم ہوگیا؟


کیا تائی کو اس بات کی خبر ہے کہ ہماچل پردیش کے بدسر میں بجرنگ دل کے لوگوں نے ریلی نکال کر اترکاشی کی طرح یہاں سے بھی مسلمانوں کو اپنی دوکانیں ومکانات خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا ہے؟ اس ریلی میں ان کے ایک وزیر کا دیش کے غداروں کو گولی مارنے والا بدنام زمانہ نعرہ لگایا گیا۔ اس تعلق سے سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز موجود ہیں جن میں 30 دنوں کے اندر مسلمانوں کو بدسر چھوڑنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ مہاراشٹر کا ناسک ایک ترقی یافتہ شہر کہا جاتا ہے جہاں ملک کے کرنسی نوٹوں کا پریس بھی ہے۔ جس دن نرملا تائی اوبامہ کو نصیحت پلا رہی تھیں، عین اسی دن ناسک میں ممبئی کے کرلا کے رہنے والے دو نوجوانوں کو گائے کا گوشت لے جانے کے الزام میں پکڑکر اس بری طرح مارا گیا کہ ان میں سے ایک نوجوان کی موت ہوگئی۔ اس واقعے پر مہاراشٹر کی ان کی پارٹی کی حکومت ابھی تک خاموش ہے۔

ظاہر ہے ان معاملات پر نہ تو تائی کچھ بولیں گی اور نہ ہی بی جے پی کا کوئی لیڈر اپنا منھ کھولے گا۔ کسی اور کو تو چھوڑیئے، خود پردھان سیوک صاحب بھی اس پرخاموش ہی رہیں گے۔ نرملا تائی اسی بات پر مطمئن ہیں کہ مودی جی کو مسلم ممالک ایوارڈ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلم ممالک کے دیئے ہوئے ایوارڈز کی اہمیت ہے، لیکن اپنے ملک کے مسلمانوں کے آنسوؤں اور ان کی تکلیفوں کی کوئی پراوہ نہیں۔ انہیں یادرکھنا چاہئے کہ اپنے ملک میں ان کی حکومت کے سوتیلے سلوک کی وجہ سے بہنے والا ایک آنسو بھی ان کے ان تمام ایوارڈ کو بہالے جانے کے لیے کافی ہے، جن پر انہیں ناز ہے۔ ابامہ کو 6 مسلم ممالک پر بمباری کی یاد دلاکر وہ خود کو اور بی جے پی کومطمئن تو کرسکتی ہیں لیکن مسلمانوں کے ساتھ ملک میں جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے، کیا اس پر وہ اپنے ضمیر کو بھی مطمئن کرسکتی ہیں؟


جن اوبامہ کو وزیرخزانہ نے مسلم ممالک پر بمباری یاد دلائی ہے یا بسوا سرما صاحب نے جنہیں حسین اوبامہ کہا ہے، جب وہ ہندوستان کے دورے پر تشریف لائے تھے تو یہی پردھان سیوک صاحب تھے جو انہیں مارے محبت کے ’مائی فرینڈ براک‘ کہتے نہیں تھک رہے تھے۔ قومی میڈیا میں تو اس وقت پردھان سیوک اور اوبامہ کی ایسی ’کیمسٹری‘ بیان کی جا رہی تھی گویا دونوں ایک دوجے کے لیے ہی بنے ہیں۔ اس وقت نہ نرملا تائی کو مسلم ممالک پر بمباری یاد آئی تھی اور نہ ہی ہیمنت بسوا سرما کو ’حسین اوبامہ‘ یاد آئے تھے۔ لیکن جیسے ہی اوبامہ نے ہندوستانی مسلمانوں کا ذکر کیا، امریکہ کی بمباری بھی یاد آگئی اور ان کا ’حسین اوبامہ‘ ہونا بھی منکشف ہوگیا۔ اسے کہتے ہیں آئینہ دکھانے پر برا لگنا۔

یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر یہی مشورہ جوبائیڈن نے دیا ہوتا تو بی جے پی کے کسی لیڈر کی زبان تک نہ کھلتی۔ ان لوگوں کی ہمت وہیں سامنے آتی ہے جہاں سے جواب کی امید نہ ہو اور جہاں سے ان کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو۔ کیا یہ دلچسپ نہیں ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی نصیحت اوبامہ واشنگٹن میں دیتے ہیں اور اس کا جواب دہلی میں دیا جاتا ہے؟ جب مودی جی واشنگٹن میں بائیڈن کے عشائیہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے تو نرملا تائی چاہتیں تو اسی وقت اس کا جواب دے سکتی تھیں، لیکن جن صاحب بہادر کا ایک عام جرنلسٹ کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے گلہ خشک ہوجائے، تو ان کے سپہ سالاروں کو ایک سابق صدر کے بیان پر ان کی ہی سرزمین پر جواب دینے کی ہمت بھلا کیسے ہوسکتی ہے؟


 اگر مسلم ممالک کے ایوارڈز ہی مودی حکومت کی مسلمانوں کے ساتھ یکساں سلوک کا ثبوت ہوتا تو یہ بھی یاد رکھا جانا چاہئے کہ متحدہ عرب امارات بھی مودی حکومت کو ایوارڈ دے چکا ہے اور وہیں کی شاہی خاندان کی ایک خاتون کا بی جے پی کے ایک اور سپہ سالار تیجسوی جئے سوریہ کے خلاف ٹوئٹ آج تک لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ یو اے ای کی ہی طرح سعودی عرب نے بھی ایوارڈ دیا تھا بلکہ سعودی عرب کا ایوارڈ تو یواے ای سے بھی بڑا تھا، پھر پیغمبرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق نوپور شرما و نوین کمارکے بیان پر اسی سعودی عرب نے زبردست اعتراض بھی کیا تھا، جس کی پاداش میں بی جے پی کو نوپور شرما کو ان کے عہدے سے ہٹانا پڑا اور نوین کمار کو 6 سال کے لیے پارٹی سے برخاست کرنا پڑا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلم ممالک کے ایوارڈز مودی حکومت کی رواداری کا ثبوت ہزگز نہیں ہیں۔ 

(مضمون میں جو بھی لکھا ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اس سے قومی آواز کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔