انتخابی فائدے کے لیے نہیں ملک کی ترقی کے لیے نہرو نے 1952 میں خواتین کے کردار کی وکالت کی تھی

ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ایک موقع پر کہا تھا ’’مجھے پورا یقین ہے کہ ہماری حقیقی ترقی تبھی ہوگی جب خواتین کو عوامی زندگی میں اپنا کردار ادا کرنے کا پورا موقع ملے گا۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>تصویر قومی آواز</p></div>

تصویر قومی آواز

user

سید خرم رضا

انتخابی فائدہ اٹھانا اور جائز و ضروری حق دینا، دونوں میں بہت فرق ہے۔ جن خواتین کے حق یعنی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں خواتین کے لیے 33 فیصد ریزرویشن دینے کے مقصد سے لوک سبھا سے بل منظور ہوا ہے، اس کو 90 کی دہائی میں ہی خواتین کو مل جانا چاہئے تھا، لیکن 9 سال کی اکثریت والی مضبوط حکومت کے اقتدار میں رہنے کے بعد خواتین کے بارے میں اس وقت سوچنا جب ملک کے عام انتخابات سر پر ہیں اور خواتین کو ایک ’رائے دہندہ طبقہ‘ کے طور پر ٹریٹ کرنا شاید خواتین کے ساتھ ایک بھدا مذاق ہے۔ حکومت میں بیٹھے لوگوں کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ اس ملک کی خواتین ہر شعبے میں بہت آگے نکل چکی ہیں۔

مصنف ندھی شرما نے اپنی تحریر کردہ کتاب ’شی دا لیڈر، وومین ان انڈین پالیٹکس‘ یعنی ’خواتین رہنما، ہندوستانی سیاست میں خواتین‘ کے تعارف میں بہت تفصیل کے ساتھ ہندوستان میں خواتین کی جدوجہد کو تحریر کیا ہے۔ انہوں نے سی ایس ڈی ایس کے سنجے کمار کے ایک بیان کو تحریر کیا ہے جس میں سنجے کمار نے کہا ہے کہ ’’سال 2015 کے بہار اسمبلی انتخابات میں ہم نے یہ تبدیلی پہلی مرتبہ دیکھی کہ خواتین رائے دہندگان کا ووٹنگ ٹرن آؤٹ مردوں کے مقابلے میں تین فیصد زیادہ  ہے۔ اور اس کے بعد سے یہ رجحان کئی ریاستوں میں دیکھنے کو ملا۔ اب تو یہ رجحان 15 سے 16 ریاستوں میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔‘‘ اس کا مطلب صاف ہے کہ ہندوستانی خواتین میں سیاسی بیداری میں زبردست اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ خواتین میں بڑھتے تعلیمی رجحان، میڈیا کی بدلتی شکل (یعنی خبروں کو صرف پڑھا نہیں بلکہ کام کرتے ہوئے سنا بھی جا سکتا ہے)، خواتین کا اپنے حقوق کے تئیں بیداری وغیرہ ہیں۔


خواتین کو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں 33 فیصد ریزرویشن دینے سے متعلق بل کے پیچھے خواتین کی ایک لمبی جدوجہد ہے۔ ندھی شرما لکھتی ہیں کہ کانسٹیٹیونٹ اسمبلی کی رکن پورنیما بنرجی نے 11 اکتوبر 1949 کو  کہا تھا کہ ’’میں اس بات کو واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ خواتین کو کسی قسم کا ریزرویشن نہیں چاہئے، لیکن میرا مشورہ ہے کہ اگر کانسٹیٹیونٹ اسمبلی کی کسی خاتون رکن کی سیٹ خالی ہوتی ہے تو اس کو خواتین کے ذریعہ ہی پُر کیا جانا چاہیے۔‘‘ یعنی خواتین پہلے اس حق میں نہیں تھیں کہ ان کو کوئی ریزرویشن دیا جائے اور پورنیما بنرجی نے پہلی مرتبہ دبے الفاظ میں ڈرتے ڈرتے یہ بات کہی تھی۔

ندھی لکھتی ہیں کہ 1970 میں خواتین ایکٹیوسٹ نے پہلی مرتبہ ہندوستانی سیاست میں خواتین کے کردار کے تعلق سے اپنا رخ تبدیل کیا کیونکہ آزادی کے بعد جو ابتدا میں جوش تھا وہ ختم ہو گیا تھا اور سیاست کے تیئں خواتین کے اندر مایوسی گھر کر گئی تھی۔ ندھی نے تحریر کیا ہے کہ اس کے ساتھ 1975 میں اقوام متحدہ نے اعلان کر دیا تھا کہ سال 1975 ’خواتین کا بین الاقوای سال‘ رہے گا۔ اقوام متحدہ نے خواتین کے تعلق سے تمام رکن ممالک سے رپورٹ طلب کی تھی۔ اس وجہ سے وزارت تعلیم اور سماجی بہبود نے ایک دس رکنی کمیٹی تشکیل دی اور خواتین کے تعلق سے اس کمیٹی کی رپورٹ کو اب تک کی سب سے جامع رپورٹ کہا جا سکتا ہے۔ ندھی نے کمیٹی کی رپورٹ کے حوالے سے تحریر کیا ہے ’’کچھ سیاسی پارٹیاں خواتین کی ترقی کے تعلق سے زبانی جمع خرچ کرتی رہیں گی اور ٹوکن کے طور پر کچھ اقدام اٹھائیں گی۔‘‘


ندھی نے تحریر کیا کہ خواتین کو حقوق دینے کے لیے سب سے سنجیدہ قدم کرناٹک میں رام کرشن ہیگڑے کی حکومت نے 1980 میں لیا جب کرناٹک حکومت نے ریاست کے پنچایتی راج اداروں میں خواتین کے لئے 25 فیصد نشستیں محفوظ کر دیں۔ ایک لمبے سفر کے بعد 1988 میں مرحوم وزیر اعظم راجیو گاندھی نے فیصلہ کیا کہ پنچایتی راج اداروں کو آئینی طور پر منظور کیا جائے اور خواتین کے لیے ریزرویشن کو متعارف کرایا جائے۔ ندھی تحریر کرتی ہیں کہ راجیو گاندھی نے اس کے لیے اپنے معتمد خاص اور وزیر منی شنکر ایر کو اس پر بات کرنے کی ذمہ داری دی۔ منی شکر ایر کی جب اپنے ساتھی وزیر بھجن لال سے اس موضوع پر بات ہوئی تو بھجن لال کا کہنا تھا کہ ’’یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن ہم اتنی خواتین کہاں سے ڈھونڈیں گے۔‘‘ بھجن کے اس سوال پر منی شنکر ایر نے کہا کہ ’’کوشش تو کریں۔‘‘

حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو ایک زبردست دور اندیش اور روشن خیال رہنما تھے۔ اس وقت جب خواتین سیاسی طور پر اتنی بیدار نہیں ہوئی تھیں اس وقت نہرو کی یہ روشن خیالی ہی تھی کہ انہوں نے ملک کے پہلے انتخابات کے نتائج کے بعد ہی 18 مئی 1952 کو ملک کے وزرائے اعلی کو تحریر کیا ’’میں نے اس بات کو بہت افسوس کے ساتھ نوٹس کیا کہ کتنی کم خواتین منتخب ہوئی ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ کچھ ایسا ہی ریاستی اسمبلیوں اور کونسل میں بھی ہوا ہوگا۔ اس کا مقصد کسی کے تیئں اپنا نرم رخ یا کسی نا انصافی کی طرف اشارہ کرنا نہیں ہے لیکن یہ ملک کے مستقبل کی ترقی کے لیے بہتر نہیں ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہماری حقیقی ترقی تبھی ہوگی جب خواتین کو عوامی زندگی میں اپنا کردار ادا کرنے کا پورا موقع ملے گا۔‘‘


خواتین ریزرویشن بل ہمیشہ سے بہت جذباتی مسئلہ رہا ہے۔ اس سے قبل 1996، 1998 اور 1999 میں پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں 33 فیصد نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کرنے کا بل پیش کرنے کی کوششوں کو لے کر ہمیشہ ہی پارلیمنٹ میں زبردست ہنگامہ رہا ہے۔ فی الحال سترہویں لوک سبھا یعنی 2019-2024 کے درمیان 82 خواتین ارکان ہیں جو آزاد ہندوستان میں اب تک سب سے زیادہ ہیں جو کہ 15 فیصد ہے۔ واضح رہے کہ 1952 میں ہوئے پہلے پارلیمانی انتخابات میں 24 خواتین ارکان منتخب ہوئی تھیں جو کل تعداد کا 4.4 فیصد تھیں۔ سب سے اچھا پہلو یہ ہے کہ ملک نے اب تک ایک خاتون وزیر اعظم اندرا گاندھی کی شکل میں دیا ہے۔ خواتین کے لئے ریزرویشن ہمارے منتخب ارکان کی جانب سے خواتین کے کردار کا اعتراف ہے، چاہے یہ انتخابی ہو یا نہ ہو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔