پاکستان کی امریکہ سے طلاق اور روس، چین سے بیک وقت نکاح

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مزمل سہروردی

لاہور: میں کبھی یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ پاکستان امریکہ کے نکاح میں تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو ایک رکھیل کے طور پر رکھا ہوا تھا۔ یہ درست ہے کہ امریکہ ایک مالدار طاقتور رئیس کی طرح کا ملک ہے اور پاکستان ایک غریب مگر خوبصورت دوشیزہ۔یہ بھی درست ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت تھی اسی لئے وہ اکثر پاکستان کے ساتھ محبت کا اظہا ر بھی کرتا تھا۔ اور دوسری طرف پاکستان پوری دنیاسے بے نیاز بس امریکہ سے وفا کو ہی اپنی زندگی کا مشن سمجھے بیٹھا تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ستر سال اسی طرح گزر گئے۔ اس دوران امریکہ کئی بار پاکستان سے ناراض بھی ہوا لیکن پاکستا ن کا موقف تھا کہ وہ غریب ہے کمزور ہے ساتھ ہمسائے میں بھارت جیسا دشمن بیٹھا ہے ایسے میں اسے امریکہ جیسے یار کی ضرورت ہے۔ اس لئے بھارت سے بچنے کے لئے پاکستان نے ستر سال خود کو امریکہ کی قید میں رکھا۔

لیکن جیسے رنگ بدلتا ہے آسماں کیسے کیسے۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ اتنے سالوں کی رفاقت اس طرح ٹوٹ جائے گی۔ یہ تو صرف طلاق نہیں ہوئی بلکہ اعلان لا تعلقی شروع ہو گیا ہے۔ اٹوٹ محبت نفرت میں بدل گئی ہے۔ امریکہ تو ماضی میں بھی پاکستان کے ساتھ اپنی دولت اور طاقت کے نشہ میں بد تمیزی کرتا رہا ہے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ پاکستان نے ترکی بہ ترکی جواب دینے شروع کر دیے ہیں۔ کھلم کھلا اعلان بغاوت کر دیا ہے۔ امریکہ کے دشمنوں سے ہاتھ ملانے کا اعلان کر دیا ہے۔یہ طے کرنا بھی مشکل ہے کہ ا مریکہ نے پاکستان کو چھوڑا ہے یا پاکستان نے نئے دوست مل جانے کی وجہ سے امریکہ کی چھٹی کروا دی ہے۔

نائن الیون کے بعد جب پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا تو ایک ہی شرط تھی کہ بھارت کو افغانستان کے معاملات سے دور رکھا جائے گا۔ نائن الیون کے بعد ابتدائی سالوں میں اس خاموش معاہدہ پر عمل بھی ہوا۔ لیکن پھر پاکستان نے گوادر امریکی فرم کو دیے جانے ولا معاہدہ ختم کر کے گوادر کی پورٹ چین کو دے دی۔ یہ پاکستان کی طرف سے امریکہ کے خلاف پہلی بغاوت تھی۔ اور یہی ایک بغاوت دونوں کے درمیان طلاق اور اعلان لا تعلقی کا باعث بنی ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ روس کو افغانستان کی بنجر زمین سے کوئی محبت نہیں تھی۔ آپ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ افغانستان میں کوئی عراق اور لیبیا کی طرح تیل کے ذخائر نہیں ہیں کہ روس اور امریکہ وہاں فوجیں لائے ہوئے ہیں۔ یہ گرم پانی تک پہنچنے کی لڑائی ہے۔ روس افغانستان میں آیا تھا کیونکہ اس کے بعد وہ پاکستان میں آنا چاہتا تھا۔ اسی فلسفہ کے تحت پاکستان نے روس کے خلاف امریکی جنگ لڑی۔ تا کہ روس کی گرم پانی تک رسائی روکی جائے اور پھر تھک ہار کر روس افغانستان سے واپس چلا گیا جس کو آج بھی پاکستان میں پاکستان کی فتح سمجھا جاتا ہے۔

لیکن آج وہی پاکستان امریکہ سے طلاق اور اعلان لا تعلقی کے بعد رو س اور چین کو اپنے گرم پانی کی گوادر پورٹ بیچنے کو تیار ہو گیا ہے۔ جو امریکہ کو قبول نہیں۔ باقی تو سب بہانے ہیں۔ چین کے پاس بھی کوئی گرم پانی کی پورٹ نہیں ہے۔ ویسے بھی چین کو دنیا کو کوئی سامان بھیجنے کے لئے سات دن لگتے ہیں۔ ایسے میں اگر اسے پاکستان کی گوادر پورٹ سے راستہ مل جائے تو وہ یہی سامان تین دن میں بھیج سکے گا۔ گرمیوں میں بھی خوب کاروبار ہو سکے گا۔

پاکستان سمجھتا ہے کہ امریکہ پاکستان سے بہت دور بیٹھا ہے۔ اس کی پاکستان میں دلچسپی عارضی رہتی ہے۔ پھر امریکہ بھارت کے بہت قریب چلا گیا ہے۔ اس لئے پاکستان کو امریکہ پر اعتبار نہیں رہا۔ اسی لئے اس نے چین کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چین کو گوادر کی پورٹ دے دی گئی ہے۔ سی پیک منصوبے کے تحت چین کو پاکستان کے راستے اپنا سامان دنیا کو پہنچانے کا راستہ دے دیا ہے۔ آپ کو پاکستان میں ہر جگہ چین نظر آرہا ہے۔ پاکستان کے ا سکول کالجوں میں اب چینی زبان سکھانے کے ہزاروں سینٹر کھول دئے گئے ہیں۔ سرکاری افسروں کو چینی زبان سیکھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔آپ کو پاکستان میں چینیوں کی آبادی بڑھتی نظر آرہی ہے۔ اب تو سٹورز میں بھی چینی شاپنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ آج کل دانشور قوم کو سمجھا جا رہے ہیں کہ چین اور بھارت کی لڑائی ہے اس لئے چین پاکستان کا امریکہ سے بہتر دوست ہو سکتا ہے۔ چین پر زیادہ اعتبار کیا جا سکتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلان کر دہ افغان پالسیی پاکستان کے لئے کوئی سرپرائز نہیں تھی۔ اس سب کا پاکستان کو بہت پہلے سے انداذہ تھا۔ اگر امریکہ نے پاکستان کو چھوڑنے کی تیاری کر رکھی تھی تو اس بار پاکستان نے بھی امریکہ کو چھوڑنے کی مکمل تیاری کر رکھی تھی۔ دونوں فریق تیار تھے۔ اسی لئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے بعد پاکستان نے پہلے تین دن کوئی رد عمل نہیں دیا۔ بلکہ پہلے اس پالیسی کا چین نے جواب دیا اور پاکستان کے دفاع میں ایک بھر پور بیان جاری کیا۔ اس سے ہی چین کی پاکستان میں دلچسپی کا انداذہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد روس کی وزارت خارجہ نے پاکستان کے حق میں بیان جاری کیا ۔ان دونوں سپر پاورز کے بیان آنے کے بعد پاکستان نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔ یہ طے تھا کہ پہلے روس اور چین پاکستان کے حق میں واضح لائن لیں گے پھر پاکستان امریکہ سے علیحدگی کا اعلان کرے گا۔

پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں ایوانوں نے امریکہ کے خلاف متفقہ قرادادیں منظور کر لی ہیں۔ لیکن یہ قراردادیں ایسے ہی منظور نہیں ہو گئیں۔ اس سے پہلے پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی جس میں فوج کے چاروں سربراہ بری، نیوی اور فضائی فوج کے سربراہ بیٹھتے ہیں۔ اس کے ساتھ آئی ایس آئی کے سربراہ بھی بیٹھتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے وزیر اعظم وزیر خارجہ وزیر دفاع اور وزیر خزانہ بیٹھتے ہیں۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا فورم ہے جہاں فوج اور حکومت مل کر بیٹھتے ہیں۔ اس کمیٹی کے دو بڑے اجلاس ہوئے ہیں۔ یہ طویل اجلاس تھے۔ دراصل ان اجلاسوں میں امریکہ کے ساتھ سخت لائن لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں ایوانوں میں پاکستان میں انتخابات میں حصہ لینے والی اکثر جماعتیں موجود ہیں اور سب نے یک زبان ہو کر امریکہ کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ امریکہ کے ساتھ ہر قسم کا تعاون ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ حتیٰ کے امریکی ڈپٹی سیکرٹری خارجہ کو پاکستان کا دورہ کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ پاکستان نے امریکہ سے ہر قسم کا تعلق از خود ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کہہ دیا ہے جائو چھٹی کرو۔

پاکستان سمجھتا ہے کہ امریکہ آہستہ آہستہ افغانستان میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ اور اس بات کے بھی قوی امکان ہیں کہ بھارت کی فوج افغانستان میں آجائے گی۔ اس طرح بھارتی فوج پاکستان کے دونوں طرف آجائے گا۔ پاکستان کے ملٹری دانشور کہہ رہے ہیں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اگر نیٹو کی افواج افغانستان میں ناکام ہوئی ہیں۔ روس کی افواج افغانستان میں ناکام ہوئی ہیں۔ امریکی فوج افغانستان میں ناکام ہوئی ہے تو بھارت کی فوج افغانستان میں کیسے کامیاب ہو سکتی ہیں۔ بھارت کو آنے دیں۔ دوسری طرف پاکستان نے گرم پانی کی پورٹ دیکر ان کو ساتھ ملا لیا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ روس چین اور ایران کے دورہ پر جا رہے ہیں۔ ایران کی شمولیت اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان سعودی عرب ہی نہیں عرب اتحاد سے بھی دور جا رہا ہے۔ پاکستان نے اگر روس چین کے ساتھ جانا ہے تو پھر سعودی عرب اور عرب اتحاد کے ساتھ چلنا بھی مشکل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Sep 2017, 2:13 PM