مودی جی کی نیاری بھیٹ، یوگاسن اور خالی پیٹ... اعظم شہاب

پردھان سیوک جی نے اپنے ’من کی بات ‘ میں 21؍جون کو ملک واسیوں سے یوگا کرنے کی اپیل کی ہے، ہمارے خیال سے یہ ایک لایعنی اپیل ہے کیونکہ ملک گزشتہ 8 سالوں سے مسلسل یوگا کی ہی مُدرا میں ہے۔

یوگا، تصویر آئی اے این ایس
یوگا، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

کہا جاتا ہے کہ ہمارے پردھان سیوک جی کچھ کریں نہ کریں لیکن اپنے ’من کی بات‘ ضرور کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں جو کرنا چاہئے وہ اس سے کہیں زیادہ اہم ہے، لیکن معلوم نہیں کیوں وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ من کی بات کرنا ہی ان کے لئے بہت ضروری ہے۔ یہ ضروری کام وہ گزشتہ 8 سالوں سے نہایت پابندی سے کر رہے ہیں اور ہر ماہ کے آخری اتوار کا دن انہوں نے اس کے لئے مخصوص کر رکھا ہے۔ لیکن خود انہوں نے اپنے ’پہلی بار‘ کے نعرے سے عوام کا مزاج اس قدر بگاڑ دیا ہے کہ وہ اب ہر ماہ کی اس تکرار سے بیزار ہوچکے ہیں۔ لیکن چونکہ بی جے پی کے ہر لیڈر کو اس بات کی خاص تاکید ہے کہ وہ پردھان سیوک کے من کی بات خود سنیں اور دوسروں کو بھی سنانے کا اہتمام کریں، اس کے علاوہ ہمارے قومی میڈیا پر بھی اس کی تشہیر کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے اس لئے کہیں نہ کہیں سے من کی بات کا پروچن کانوں میں پڑہی جاتا ہے۔ گزشتہ کل بھی وہ حسبِ روایت ریڈیو پر نمودار ہوئے اور اس بار انہوں نے لوگوں سے 21 جون کو یوگا کرنے کی اپیل کی ہے اور اسے انسانیت کے نام پر یوگا قرار دیا ہے۔ اپنے من کی بات میں انہوں نے یوگا کے مختلف پروگرام بھی دیئے ہیں جن میں ایک ’گارڈین رنگ‘ بھی ہے۔

یوگا کی افادیت سے بھلا کسے اختلاف ہوسکتا ہے؟ زندہ رہنے کے لئے جس طرح آکسیجن اور کھانے پینا ضروری ہے اسی طرح صحت مند رہنے کے لئے یوگا اور دیگر ورزشیں بھی ضروری ہیں۔ لیکن ہمارے پردھان سیوک جی صرف یوگا کی ہی تلقین کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یوگ کا تعلق چونکہ ہندوی تہذیب سے ہے اور ہمارے پردھان سیوک جی اس تہذیب کی نمائندگی فرماتے ہیں اس لئے ان کی نظر میں یوگا ہی سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے ذریعے وہ اپنی ہندوتواوادی شناخت کو مزید تقویت پہنچانا چاہتے ہوں، مگر چونکہ اس ملک میں ہر راشٹربھکت کو ہر طرح کے دعوے کی بھرپور آزادی حاصل ہے، چاہے وہ سیکڑوں ہزاروں سال کی مسجدوں کو مندر ہونے کا دعویٰ ہی کیوں نہ ہو، اس لئے اگر خود پردھان سیوک جی یوگا کو انسانیت کے لئے ضروری ہونے کا دعویٰ کریں تو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔


یوں بھی انسانیت کی ابتدا تو 2014 کے بعد ہی ہوئی ہے، اس سے پہلے نہ کوئی یوگا سے واقف تھا اور نہ ہی کسی کو اپنے صحت کی فکر تھی۔ یوگا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عام طور پر خالی پیٹ کیا جانا چاہئے۔ یوگاسن کرنے میں تو اس بات کی خاص تاکید کی جاتی ہے کہ آپ کا معدہ خالی رہے۔ ایک سدگرو صاحب ہیں، انہوں نے تو باقاعدہ یوگا کے لئے خالی پیٹ ہونے کی وجہ اور اس کے فوائد تک گنوائے ہیں۔ اس لئے اعتراض اس بات پر ہونا چاہئے کہ یوگا جیسے مفید عمل کے لئے ایک ہی دن مخصوص کیوں کیا گیا کیونکہ یوگا کے لئے خالی پیٹ ہونے کی جو شرط ہے، اس کو ہمارے ملک کے لوگ ہر روز پورا کر رہے ہیں۔ اس لئے پردھان سیوک یوگا ڈے کی مناسبت سے جو پروچن فرمایا ہے وہ انسانیت کے لئے نہ سہی ہمارے ملک کے لئے انتہائی ضروری ہے۔

ایک ایسا ملک جہاں کی 60 فیصد سے زائد آبادی دو وقت کے کھانے کے لئے حکومت کی جانب سے مفت تقسیم ہونے والے راشن کی محتاج ہوگئی ہو، جہاں دال، ساگ، سبزیوں اور تیل وغیرہ کی قیمتوں میں بوسٹر انجن لگ گیا ہو اور وہ سرپٹ بھاگ رہی ہو، جہاں ایندھن کی قیمتوں میں محض آٹھ سالوں میں 40 روپئے سے زائد کا اضافہ ہوگیا ہو اور حکومت اس سے 27 لاکھ کروڑ روپئے کا منافع کما چکی ہو، جہاں بیرزگاری گزشتہ 45 سالوں میں ریکارڈ بنا چکی ہو اور ملک کا سربراہ پکوڑے بیچنے کو بھی روزگار قرار دیتا ہو، اس ملک کے لوگوں کے لئے یوگا سے بہتر بھلا کون سا عمل ہوسکتا ہے؟ یوگا کرنے کے لئے خالی پیٹ ہونا ضروری ہے، اس لحاظ سے ہمارے ملک کے لوگ تو روزآنہ اور ہر وقت یوگا کرسکتے ہیں۔ اس لئے ہمیں اعتراض اس بات پر ہے کہ یوگا کے لئے 21 جون کو ہی مخصوص کیوں کیا گیا۔


پہلے زمانے میں جب راتیں طویل ہونے لگتی تھیں تو لوگ اپنے چراغوں کے تیل میں اضافہ کر دیا کرتے تھے۔ اس سے دو فائدہ ہوتے تھے، پہلا یہ کہ رات جلد ختم ہونے کا احساس ہوتا تھا اور دوسرا یہ کہ تیل کے بچ جانے کا اطمینان۔ یہی حال ہمارے پردھان سیوک جی کی بھی ہے۔ ملک میں بڑھتی مہنگائی، بیروزگاری، مذہبی نفرت کا جنون اور سب سے بڑھ کر عدم برداشت پر قابو پانے کی اہلیت، خواہش نہ تو موصوف کے اندر ہے اور نہ ہی ان کی ٹیم اس قابل ہے۔ اس لئے یوگا، آتم نربھر بھارت، اپواد میں اوسر جیسے جذباتی نعروں کا تیل بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ ناکامی ونااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے ہمارے ملک میں ایک ایسی ترکیب ایجاد ہوگئی ہے جو سچائی کو اسی طرح نگل رہی ہے جس طرح کورونا نے ہزاروں زندگیاں نگل لیں۔ لیکن جس طرح کورونا سے ہونے والی اموات کی حقیقی تعداد سیاسی مفاد کے پردے میں چھپ گئی اسی طرح اس ترکیب کے پردے میں ملک کی حقیقی صورت حال کو چھپا لیا جاتا ہے۔ یہ ترکیب نعرے اور سلوگن ہیں، جس کے بہاوٴ میں مہنگائی، بیروزگاری، معیشت کی بربادی، مذہبی ہم آہنگی یہاں تک کہ حکومتی نااہلی بھی تنکے کی طرح بہہ رہی ہے۔ گزشتہ 8 سالوں سے ہمارے ملک میں اسی ترکیب پر عمل ہو رہا ہے اور یقین جانئے یہ ترکیب نہایت کارگر بھی ہے۔ اگر نعروں اور سلوگن سے ملک چلتا تو یقین جانئے آج ہمارا ملک دنیا میں ایک نمبر پر ہوتا۔

اس کام میں ہمارے قومی میڈیا کا رول ملک کے ذرائع ابلاغ کی تاریخ میں سنہرے لفظوں میں لکھا جائے گا۔ ہمارے قومی میڈیا کے لئے کیا یہ اعزاز کم ہے کہ 19؍مئی سے 21؍مئی یعنی کہ محض تین دنوں میں ان کے سیمیں پردوں پر جو مباحثے منعقد ہوئے ہیں ان میں سے 90 فیصد مباحثے گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ پر ہوئے۔ ایک یوٹیوب چینل نے اس کا جائزہ پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ آج تک پر کل 15؍پرائم ٹائم شو ہوئے جن میں سے13؍گیان واپی پر ہوئے۔ ٹائمز ناوٴ 12؍میں سے 11، اے بی پی پر 8 میں سے 8، نیوزانڈیا 18 میں سے 12، زی نیوزپر 12 میں سے 7 اور آر بھارت میں 12؍ میں سے10؍ پرائم شو مندر و مسجد پر ہوئے۔ اس کے علاوہ پورے مئی مہینے میں قومی میڈیا پر کل 150؍بحثیں ہوئیں، جن میں سے 138؍بحثیں ہندومسلم پر تھیں۔ بی جے پی حمایتی بحثیں 9؍ اور ملک سے غداری کے قانون پر 3 بحث ہوئی۔ اس سے ملک کی میڈیا کے مزاج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔


گویا یہی وہ مسئلے ہیں جن کی وجہ سے مرکزی حکومت کو آج ملک کے 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن دینا پڑ رہا ہے اور انہیں کی وجہ سے آج مہنگائی کی ڈائن پورے ملک کو نگل رہی ہے۔ یہ شاید ہمارے قومی میڈیا کے طریقہٴ کار کی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں جب پردھان سیوک کی بائیڈن سے ملاقات ہوئی تو غیرملکی میڈیا پردھان سیوک پر اپنے سوالات کے ساتھ ٹوٹ پڑا تھا۔ اگرہمارا قومی میڈیا پردھان سیوک سے سوالات کرنے کی اپنی ذمہ داری نبھاتا تو غیرملکی سرزمین پر ہمارے ویشیو گرو کی اتنی تضحیک نہیں ہوتی۔ پردھان سیوک جی ابھی حال ہی میں جاپان گئے تو جاکر دیش واسیوں کو یہ معلوم ہوا کہ دنیا میں جاپان بھی کوئی ملک ہے اور یہ بات بھی ہمارے قومی میڈیا نے ہی بتائی۔ پردھان سیوک جی کے 21؍جون کو ملک واسیوں سے یوگا کرنے کی اپیل کے بعد اب ہمارا قومی میڈیا یوگا کی افادیت بیان کرنے پر اپنا زور صرف کئے ہوئے ہے۔ لیکن اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی یہ کوشش لایعنی ہے کہ کیونکہ ملک گزشتہ 8 سالوں سے مسلسل یوگ کی ہی مُدرا میں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔