مودی جی! سینٹرل وِسٹا کا گلابی چشمہ اتاریے اور تیرتی لاشیں دیکھیے!... سہیل انجم

پوری دنیا کا میڈیا موجودہ خوفناک صورت حال کے لیے مودی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے اور یہ بھی کہہ رہا ہے کہ اگر اس نے وقت رہتے پلاننگ کی ہوتی تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔

بہار کے بکسر میں گنگا میں تیرتی ہوئی لاشیں / آئی اے این ایس
بہار کے بکسر میں گنگا میں تیرتی ہوئی لاشیں / آئی اے این ایس
user

سہیل انجم

کیا مودی حکومت پر اسپتالوں میں آکسیجن اور دواؤں کی عدم دستابی کی وجہ سے مرنے والوں کے لواحقین کی آہ و بکا کا کوئی اثر پڑ رہا ہے۔ کیا شمشانوں میں بیک وقت جلتی چتائیں حکومت کے ضمیر کو کچوکے لگا پا رہی ہیں۔ کیا گاؤوں تک میں کورونا کی بڑھتی ہلاکت خیزی پر حکومت کوئی جنبش کر رہی ہے۔ کیا دریاؤں میں تیرتی لاشیں حکومت کی سنگ دلی کو کم کرنے میں کامیاب ہیں۔ کیا دنیا بھر میں ہندوستان اور بالخصوص حکومت کی ہونے والی بدنامی کا کوئی اثر وزیر اعظم او ران کی کابینہ پر پڑ رہا ہے۔ یہ اور ایسے جتنے بھی سوالات ہیں ان کا جواب تلاشنے کی کوشش عبث ہے۔ اگر کوئی جواب ہے تو نفی میں ہے۔ کورونا کی اس دوسری لہر نے نہ تو وزیر اعظم کے سیاسی عزائم پر کوئی اثر ڈالا ہے اور نہ ہی حکومت کی بے حسی و لاپروائی میں کوئی کمی آئی ہے۔

پوری دنیا کا میڈیا موجودہ خوفناک صورت حال کے لیے مودی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے اور یہ بھی کہہ رہا ہے کہ اگر اس نے وقت رہتے پلاننگ کی ہوتی اور آنے والے خطرے کا مقابلہ کرنے کی کوئی تیاری کی ہوتی تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔ کورونا کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے حکومت نے ایک ٹاسک فورس بنائی ہے جس کا نام ’’کووڈ۔19 ٹاسک فورس‘‘ ہے۔ نیتی آیوگ کے ایک رکن ڈاکٹر وی کے پال اس کے سربراہ ہیں۔ اس کمیٹی نے اکتوبر یا نومبر ہی میں اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے ملک میں دوسری لہر کی وارننگ دی تھی اور اس کے لیے تیاری کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ دوسری لہر میں آکسیجن کی ضرورت پڑے گی اس کا انتظام کیا جانا چاہیے۔


عالمی تنظیموں اور اداروں نے بھی دوسری لہر کی پیشین گوئی کی تھی۔ لیکن حکومت نے نہ تو اپنی کمیٹی کی رپورٹ پر کوئی دھیان دیا اور نہ ہی عالمی اداروں اور سائنس دانوں کی پیشین گوئیوں پر۔ اسے اس کی کوئی فکر نہیں تھی کہ کورونا کی دوسری لہر آئے گی تو کیا ہوگا۔ اسے فکر تھی تو پانچ ریاستوں اور خصوصاً مغربی بنگال میں الیکشن جیتنے کی تھی۔ وزیر اعظم، ان کے وزار اور پارٹی لیڈروں نے الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر، کورونا گائڈ لائن کی خلاف ورزی کرکے اور سیاسی مصلحت کے پیش نظر ایک سال پہلے ہی ہری دوار میں کمبھ میلے کا انعقاد کرکے دراصل خود ہی کورونا کو یہ موقع دیا کہ وہ پورے ملک میں اپنے پاؤں پھیلا لے اور انسانی جانوں کو اپنی خوراک بنا لے۔

حزب اختلاف اور خاص طور پر کانگریس کی جانب سے حکومت کی اس بے حسی کی مخالفت اور کورونا کا مقابلہ کرنے پر توجہ دینے کی اپیلیں کی جاتی رہیں۔ لیکن حکومت نے ایک تو ان پر کوئی دھیان نہیں دیا اور دوسرے کانگریس کو یہ کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کی کہ وہ عوام میں خوف و ہراس پیدا کر رہی ہے اور عوام کو گمراہ کر رہی ہے۔ اب جبکہ تیسری لہر کی پیشین گوئی کر دی گئی ہے تب بھی حکومت خواب غفلت سے بیدار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔


اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے اس وقت سب سے اہم معاملہ تاریخ میں اپنا نام درج کرانے کا ہے۔ ان کی دلچسپی لوگوں کی جان بچانے میں نہیں بلکہ سینٹرل وِسٹا منصوبے کی تکمیل کرکے دار الحکومت دہلی کے قلب کا نقشہ تبدیل کرنے اور اس حوالے سے اپنی تعریف و ستائش کے اسباب پیدا کرنے میں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے وزیر اعظم یہ چاہتے ہوں کہ جب وہ وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹ جائیں تب بھی ان کا نام باقی رہے اور مستقبل کا مورخ جب نئی دہلی اور بالخصوص راشٹرپتی بھون، پارلیمنٹ ہاوس، انڈیا گیٹ، کناٹ پلیس اور لوٹینز زون کی تاریخ لکھے تو یہ کہنے پر مجبور ہو کہ ہندوستان میں نریندر مودی نامی ایک ایسا وزیر اعظم گزرا تھا جس نے اس پورے علاقے میں تعمیرات کروا کر ایک نیا منی شہر بسایا تھا۔

اس وقت بھی جبکہ پورا ملک کورونا کی بھیانک تباہ کاریوں کی زد پر ہے سینٹرل وسٹا کا کام زور شور سے جاری ہے۔ حزب اختلاف کی جانب سے اس کی مخالفت کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ایسے ہنگامی حالات میں تو کم از کم اس تعمیراتی منصوبے کو روک دینا چاہیے اور حکومت کی پوری توجہ کورونا کے خاتمے پر مبذول ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں عدالتوں کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا گیا لیکن کوئی فائدہ نہیں۔ سپریم کورٹ نے خود نئے پارلیمنٹ ہاوس کا سنگ بنیاد رکھنے کی اجازت وزیر اعظم کو دے دی تھی۔ دہلی میں لاک ڈاون نافذ ہے اور صرف لازمی خدمات سے متعلق سرگرمیوں کی اجازت ہے لیکن اس کا اس منصوبے پر کوئی اثر نہیں۔ کیونکہ مرکزی حکومت نے اسے بھی لازمی خدمات کے زمرے میں شامل کر دیا ہے۔ اس نے اس کام کے لیے ضروری اشیاء اور مزدوروں کو لانے لے جانے کی اجازت بھی دہلی پولیس سے لے لی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت 180 گاڑیاں سامانوں اور مزدوروں کو لانے لے جانے میں مصروف ہیں۔ راشٹرپتی بھون سے لے کر انڈیا گیٹ تک کے زائد از تین کلومیٹر کی سڑک پر مسلسل کھدائی چل رہی ہے اور چار سو مزدور اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔


کانگریس صدر سونیا گاندھی، سابق صدر راہل گاندھی اور جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے بار بار اس منصوبے کی مخالفت کی ہے اور اسے فی الفور رو ک کر کورونا مریضوں کے علاج پر توجہ مبذول کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ راہل گاندھی نے اپنے حالیہ بیان میں وزیر اعظم مودی سے کہا ہے کہ آپ سینٹرل وسٹا دکھانے والا گلابی چشمہ اتاریے اور دریاؤں میں تیرتی لاتعداد لاشوں، اسپتالوں کے سامنے مریضوں کی میلوں تک طویل قطاریں اور عوام سے چھینے جا رہے ان کے جینے کے حق پر نظر ڈالیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کے نئے گھر اور اس پورے منصوبے پر 20 ہزار کروڑ روپے کا صرفہ آئے گا اور اتنی رقم میں ویکسین کی 62 کروڑ خوراکیں، 22 کروڑ ریمڈیسیور انجکشن، 10 لیٹر کے تین کروڑ آکسیجن سلنڈر اور 13 آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) بن جائیں گے۔ بارہ اپوزیشن جماعتوں اور چار وزرائے اعلیٰ نے بھی ایک مشترکہ مکتوب لکھ کر اس منصوبے کو روک دینے اور اس پر خرچ ہونے والے بیس ہزار کروڑ روپے کو آکسیجن، ویکسین اور ادویات کی فراہمی پر صرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سرکردہ اسکالروں، فنکاروں اور میوزیم کے ماہرین نے ایک دستخط شدہ بیان میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں صحت ایمرجنسی کے پیش نظر اس منصوبے کو فوری طور پر روک دیا جائے۔ ہندوستان اور جنوبی ایشیا کے امور پر کام کرنے والے عالمی تاریخ دانوں اور عجائب گھروں کے ماہرین کی عالمی برادری نے اس منصوبے کی خاطر نیشنل میوزیم، نیشنل آرکائیوز اور اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار آرٹس کی عمارتوں کو منہدم کرنے کے منصوبے پر اپنی تشویش ظاہر کی اور ان تہذیبی اداروں کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان عمارتوں کی تباہی سے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔


خیال رہے کہ سینٹرل وسٹا منصوبے کے تحت پارلیمنٹ کی ایک نئی عمارت تعمیر ہوگی جو مثلث نما ہوگی اور جس میں 1200 سے زیادہ اراکین پارلیمنٹ کی گنجائش ہوگی۔ نائب صدر اور وزیر اعظم کی مستقل رہائش گاہیں، ایک مشترکہ سینٹرل سکریٹریٹ اور تمام مرکزی وزرا کی رہائش گاہیں بھی تعمیر کی جائیں گی۔ موجودہ ساوتھ بلاک اور نارتھ بلاک کی حیثیت تبدیل ہو جائے گی۔ نائب صدر اور وزیر اعظم کی رہائش گاہوں کی تعمیر علی الترتیب مئی 2022 اور دسمبر 2022 تک مکمل ہو جائے گی۔ سال 2022 ہندوستان کی آزادی کا 75 واں سال ہوگا۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا اثر جہاں اس پورے علاقے کی خوبصورتی پر پڑے گا وہیں مسلم شناخت کے آثار بھی ختم ہو جائیں گے۔ ان کے مطابق سینٹرل وسٹا کے نقشے میں پارلیمنٹ کی جامع مسجد، سابق صدر جمہوریہ فخر الدین علی احمد کا مزار، انڈیا گیٹ پر واقع تاریخی مسجد جسے پانی والی مسجد کہتے ہیں، کرشی بھون کے پاس واقع مسجد اور سنہری باغ روڈ کے چوک پر واقع مسجد کا کوئی ذکر نہیں ہے۔


بعض ماہرین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ جو عمارتیں تعمیر ہوں گی وہ ایک مخصوص مذہب کی علامتوں سے مزین ہوں گی۔ بہر حال ابھی ان اندیشوں کے سلسلے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم آر ایس ایس کی سربراہی میں چلنے والی اس حکومت سے یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ ان نئی تعمیرات سے ہندوتوا کی ثقافت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے اور تاریخ میں اپنے کچھ کارنامے درج کرائے جائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 May 2021, 9:11 PM