کم از کم آمدنی کی ضمانت کا حق: راہل کی اعلان کردہ ’اسکیم‘ جس سے غربت کا خاتمہ ممکن!

آج مودی سرکار اس اعلان پر معترض ہے لیکن اسی سرکار کے ذریعہ 2017 میں جو اقتصادی سروے کرایا گیا تھا اس میں واضح طورپر کہا گیا تھا کہ سرکار یونیورسل بیسک انکم لاگو کرنے کے امکانات تلاش کر رہی ہے۔

کانگریس صدر راہل گاندھی
کانگریس صدر راہل گاندھی
user

م. افضل

ہندوستان قدرتی وسائل سے مالامال ایک عظیم ملک ہے اور سنہرا انقلاب آنے و آبپاشی نظام میں آئی بہتری سے ہماری زمینیں سونا اگلنے لگی ہیں اب اگر اس کے بعد بھی شہریوں کی ایک بڑی تعداد غربت کی سطح سے اوپر نہیں اٹھ پارہی ہے اور آج بھی لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں لوگ فاقہ کشی کا شکار ہیں تو یہ بات ہمارے آج کے مہذب معاشرہ کے لئے بلاشبہ باعث شرم ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اب تک اس سوال پر سنجیدگی سے کبھی غور نہیں ہوا کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا وسائل اور دولت کی غیر مساویانہ تقسیم اس کے لئے ذمہ دار ہے یا پھر ہمارے سیاسی نظام میں کوئی خامی ہے، جسے بدعنوانی کی دیمک اندر ہی اندر کھوکھلا کرتی جارہی ہے؟۔

بدعنوانی کی بات آئی تو ہمیں راجیوگاندھی کا ایک قول یاد آگیا۔ وزارتِ عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بدعنوانی کے حوالہ سے انہوں نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب ضرورت مند اور مستحق شہریوں تک فلاح وبہبود کی اسکیموں کے لئے براہ راست مالی امداد پہنچانے پر غوروخوض ہورہا تھا۔ آنجہانی راجیوگاندھی نے کہا تھا کہ مرکز سے ترقیاتی اور فلاحی اسکیموں کی مد میں اگر ایک روپیہ گاؤں کو بھیجا جاتا ہے تو وہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ ایک پیسہ رہ جاتا ہے یعنی 99 پیسہ نظام کی خامی اور بچولیوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ تاہم اس کے لئے بدعنوانی ہی نہیں اور بھی دوسرے اسباب ذمہ دار ہوسکتے ہیں لیکن یہ بات اپنی جگہ پوری طرح سچ ہے کہ ملک میں شہریوں کی ایک بڑی آبادی آزادی کے اتنے دنوں بعد بھی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور افلاس کا شکار ہے۔

کانگریس صدر راہل گاندھی نے حال ہی میں ایک ایسا اعلان کیا ہے جس نے سیاست کے گلیاروں میں ایک ہلچل سی مچادی ہے۔ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیاں اس اعلان سے سکتہ میں ہیں اور اب اطلاعات ہیں کہ سرکار اس کا توڑ تلاش کرنے میں مصروف ہوگئی ہے۔ راہل گاندھی کا یہ اعلان محض ایک اعلان نہیں بلکہ ایک عہد ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو وہ غریب شہریوں کو کم ازکم آمدنی کے حق کی ضمانت دے گی، اس کے تحت ہر ماہ ایک مقررہ رقم ان کے اکاؤنٹ میں سرکار کی طرف سے ڈالی جائے گی۔ اس اعلان پر بی جے پی نے سخت اعتراض کیا ہے اور سوال کیا ہے کہ اس کے لئے وسائل (فنڈ) کا انتظام کہاں سے ہوگا۔ بادی النظر میں دیکھاجائے تو راہل گاندھی نے اپنے اعلان میں کوئی نئی بات نہیں کہی ہے۔ تاریخ پر نظردوڑائیں تو آزادی سے قبل بھی اس طرح کی ایک کوشش ہوچکی ہے۔ 1938 میں آمدنی کی ضمانت دینے کے منصوبہ پر کام ہوا تھا مگر بات آگے نہیں بڑھی۔ بعدازاں 1964 میں سرکار کی طرف سے اس طرح کی منشاء کا اظہار ہوا تھا، پھر 2011-12میں اس منصوبہ پر بحث ہوئی یہاں تک کہ مدھیہ پردیش کے ایک گاؤں میں اس کا تجربہ بھی ہوا تھا۔ آج مودی سرکار اس اعلان پر معترض ہے لیکن اسی سرکار کے ذریعہ 2017 میں جو اقتصادی سروے کرایا گیا اس میں واضح طورپر کہا گیا تھا کہ سرکار یونیورسل بیسک انکم لاگو کرنے کے امکانات تلاش کررہی ہے۔

اب کچھ لوگ یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا اس منصوبہ کو ہندوستان جیسے بڑے ملک میں لاگو کیاجاسکتا ہے؟ یہ سوال بھی بعض حلقوں کی جانب سے اٹھا ہے کہ کیا اس کے نفاذ سے ملک کی اقتصادیات پر منفی اثرات نہیں مرتب ہوں گے اور کیا سرکاری خزانہ میں غیر ضروری بوجھ نہیں بڑھ جائے گا؟ اس حوالہ سے جو تفصیلات میڈیا میں آئی ہیں ان کے مطابق کیلی فورنیا، فن لینڈ، کینیا، برازیل جیسے ممالک میں یہ منصوبہ کامیابی کے ساتھ نافذ ہے اور اب کناڈا، فرانس، انگلینڈ، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ جیسے ممالک میں بھی اس منصوبہ کو لاگو کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اقتصادیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سرکار کی منشاء میں ایمانداری شامل ہوتو یہ منصوبہ کامیابی سے نافذ ہوسکتا ہے۔ لندن یونیورسٹی کے مشہور زمانہ پروفیسر اور یونیورسل بیسک انکم اسکیم کی عالمی سطح پر وکالت کرنے والے پروفیسر گوائے اسٹینڈنگ سے جب اس اسکیم کو ہندوستان میں لاگو کرنے کے تناظر میں بات چیت کی گئی تو انہوں نے کہاکہ اگر اس اسکیم کو پورے ملک میں نافذ کیاجاتا ہے تو شرح نمو کے تین سے چار فیصد کے برابر خرچ آئے گا جبکہ موجودہ حالات میں جی ڈی پی کا 4 سے 5 فیصد تو سرکار سبسڈی پر ہی خرچ کر رہی ہے۔ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ اس اسکیم کو لاگو کرنے کے بعد سرکار کو سبسڈی ختم کرنے کی سمت میں مرحلہ وار قدم اٹھانے ہوں گے۔ اس لئے کہ یہ اسکیم اور سبسڈی دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

اس’اسکیم‘ کو لے کر بی جے پی اور اس کی ہم خیال پارٹیوں کی طرف سے اب جس طرح کے اعتراضات ہورہے ہیں اور جن تحفظات کا اظہار ہورہا ہے، کچھ اس طرح کے اعتراضات اور تحفظات کا اظہار اس وقت بھی ہوا تھا جب کانگریس فوڈ سیکورٹی بل اور منریگا اسکیم کا منصوبہ لے کر آئی تھی۔ اس وقت بھی کہاگیا تھا کہ یہ اسکیمیں اگر نافذ بھی ہوگئیں تو کامیاب نہیں ہوں گی مگر ان تمام واہموں کی رد کرتے ہوئے یہ دونوں اسکیمیں نہ صرف کامیاب ہوئیں بلکہ ایک مثال بھی بن گئیں۔ ان میں ’منریگا‘ اسکیم کہ جس کے تحت دیہی علاقوں میں کم ازکم 100 دن کے روزگار کی ضمانت دی گئی تھی، سے یہی نہیں ہوا کہ لوگوں کو روزگارملا بلکہ غربت زدہ لوگوں کی زندگی میں بہتری بھی آئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی مودی سرکار اس اسکیم کو جاری رکھنے پر مجبور ہوگئی۔

بنیادی سوال نیت اور ایمانداری کا ہے۔ پروفیسر گوائے اسٹینڈنگ بھی کہہ چکے ہیں کہ اس طرح کی اسکیموں کے نفاذ کے لئے سرکار کی منشاء میں ایمانداری شرط ہے۔ جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے اپنے دورِ حکومت میں اس نے عوامی فلاح وبہبود کی اسکیموں کے نفاذ میں بڑی حد تک ایمانداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ حق اطلاعات کا قانون ہو یا پھر سب کو ’تعلیم کا حق‘ کا قانون فوڈ سیکورٹی بل ہو یا منریگا ان کو لے کر اس نے پوری ایمانداری اور خلوص کا مظاہرہ کیا ہے دور جانے کی ضرورت نہیں، حال ہی میں جب پانچ اسمبلیوں کے الیکشن ہو رہے تھے راہل گاندھی نے اپنی ہر تقریر میں کسانوں کی قرض معافی کا اعلان کیا۔ بی جے پی اس وقت بھی اس اعلان پر سوال اٹھا رہی تھی مگر سب نے دیکھا کہ چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں اقتدار میں آتے ہی کانگریس سرکاروں نے سب سے پہلے کسانوں کے لئے قرض معافی کا اعلان کیا۔

میں نہیں سمجھتا کہ راہل گاندھی نے اب جو یہ تازہ اعلان کیا ہے وہ سرسری انداز میں کردیا ہے بلکہ اس کے لئے ان کے ذہن میں ایک مربوط خاکہ بھی ہوگا، جس میں اقتدار میں آنے کے بعد رنگ بھرا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ’منریگا‘ جیسی ہی ایک اسکیم ہے اور اگر’منریگا‘ جیسی بڑی اسکیم کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے اور کانگریس حکمرانی والی ریاستوں میں کسانوں کی قرض معافی ہوسکتی ہے تو کم ازکم آمدنی کی ضمانت دینے والی اسکیم بھی کامیاب ہوسکتی ہے اور اس کے لئے فنڈ بھی وضع کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ اگر ملک میں اس طرح کی کوئی اسکیم نافذ ہوتی ہے تو اس سے جہاں غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے شہریوں کی بے رنگ زندگی میں رنگ بھرسکتے ہیں بلکہ ملک سے غربت وافلاس کا خاتمہ بھی کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ حکومت غریبوں اور محروم طبقات کے حقوق کو لے کر سنجیدہ، حساس اور ایماندار ہو اور ان کو لے کر راہل گاندھی انتہائی حساس اور سنجیدہ ہیں۔ کم ازکم آمدنی کی ضمانت کا حق دینے کا اعلان ہی اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

(مضمون نگار اردو کے نامور صحافی اور کانگریس کے قومی ترجمان ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */