ریاست منی پور نسلی تشدد کا شکار یا فرقہ واریت کا، مودی حکومت کب توڑے گی خاموشی... رام پنیانی

منی پور میں تشدد کا سلسلہ 3 مئی کو شروع ہوا اور اب 2 ماہ مکمل ہونے کو ہیں لیکن حالات بہتر نہیں ہوئے، پرتشدد بھیڑ کلیسا کو چن چن کر تباہ کر رہی ہے، اب تک تقریباً 300 کلیسا نفرت کی آگ میں جل چکے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>منی پور تشدد، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

منی پور تشدد، تصویر آئی اے این ایس

user

رام پنیانی

ہائی کورٹ کے ذریعہ میتئی طبقہ کو درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کی شکل میں منظوری دیئے جانے کے بعد سے منی پور میں پیدا تشدد میں اب تک کم از کم 130 لوگ مارے جا چکے ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ اپنا گھر چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس تشدد کے سبب عام لوگ بہت تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں اور خواتین، بچوں و مہاجرین کی حالت افسوسناک ہے۔ اس حالت سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی کے سبب ملک بہت شرمسار ہوا ہے۔

یہ تشدد 3 مئی سے شروع ہوا تھا (یا بھڑکایا گیا تھا) اور دو ماہ مکمل ہونے کو ہیں پھر بھی حالات بہتر نہیں ہو رہے۔ کوکی اور دیگر اہم عیسائی قبائلی گروپوں اور ان کی ملکیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پرتشدد بھیڑ کلیساؤں کو چن چن کر تباہ کر رہی ہے۔ اب تک تقریباً 300 کلیسا نفرت کی آگ میں جل کر خاک ہو چکے ہیں۔ اس بات کا جواب حکومت کو دینا ہی ہوگا کہ کیا یہ تشدد عیسائی مخالف ہے۔


اس تشدد کے شروع ہونے کے بعد سے عزت مآب وزیر اعظم نے اس ایشو پر اپنا منھ کھولنے کی زحمت نہیں اٹھائی ہے۔ جس وقت منی پور جل رہا تھا اس وقت وزیر اعظم کرناٹک میں اپنی پارٹی کی تشہیر میں دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ وہ اب تک خاموش ہیں۔ اس معاملے میں ان سے تبادلہ خیال کرنے کے خواہش مند ایک کل جماعتی نمائندہ وفد سے ملنے کا انھیں وقت نہیں ملا۔ وہ منی پور کو جلتا چھوڑ کر امریکہ پرواز کر گئے۔ کیا ان کی خاموشی اسٹرٹیجک ہے؟ آخر کار اس تشدد کا شکار ہو رہی کوکی اور دیگر پہاڑی قبائل عیسائی مذہب کی مرید ہیں، جسے آر ایس ایس فیملی ’بیرون ملکی‘ تصور کرتا ہے؟ مودی کئی بار شمال مشرق کا سفر کر چکے ہیں، لیکن جس وقت تشدد کی آگ کو دبانے کے لیے ان کی ضرورت ہے، تب وہ وہاں سے میلوں دور ہیں۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے کرناٹک میں زور و شور سے انتخابی تشہیر کرنے کے بعد کافی وقت دہلی میں گزارا اور پھر وہ منی پور پہنچے۔ انھوں نے وہاں خوب میٹنگیں کیں، لیکن نتیجہ صفر رہا۔ منی پور میں اب بھی تشدد جاری ہے۔ منی پور میں بی جے پی کی حکومت ہے اور دہلی میں بھی حکومت بی جے پی کی ہی ہے۔ یعنی منی پور میں ’ڈبل انجن‘ حکومت ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ترقیات کی ندی بہا دیتی ہے۔ یہاں یہ یاد دلانا بھی بہتر ہوگا کہ بی جے پی کا ایک طویل وقت سے دعویٰ رہا ہے کہ اس کی حکومت میں فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہوتے۔


اتر پردیش کے سابق پولیس ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر وبھوتی نارائن رائے نے اپنی مشہور تصنیف ‘کامبیٹنگ کمیونل کنفلکٹس‘ میں لکھا ہے کہ اگر سیاسی قیادت کی خواہش ہو تو کسی قسم کے بھی تشدد کو 48 گھنٹے کے اندر کنٹرول میں لایا جا سکتا ہے۔ اور منی پور میں تو دو ماہ سے تشدد جاری ہے۔ ایسا ظاہر کیا جا رہا ہے کہ منی پور میں کوکی اور دیگر پہاڑی قبیلائی گروپوں کی زرعی اراضی کے بیشتر حصے پر قبضہ ہے اور میتئی لوگوں کو زمین میں مناسب حصہ داری نہیں مل رہی ہے۔ موجودہ قوانین کے مطابق قبائلیوں کی زمین غیر قبائلی نہ تو خرید سکتے ہیں اور نہ ہی اس پر قبضہ کر سکتے ہیں۔

منی پور کی مجموعی آبادی میں میتئی کا فیصد 53 اور کوکی کا 18 ہے۔ بقیہ آبادی میں دیگر پہاڑی قبائل وغیرہ شامل ہیں۔ پہاڑی قبائل کی مخالفت ہو رہی ہے۔ انھیں افیم کاشت کار، درانداز اور غیر ملکی مذہب کا مرید بتایا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے تشدد کے پیچھے ملک کے غداروں کا ہاتھ ہونے کی بات کہی ہے۔ ’دی ٹیلیگراف‘ اخبار میں انٹلیجنس بیورو کے سابق جوائنٹ ڈائریکٹر سوشانت سنگھ کے حوالے سے لکھا ہے کہ وزیر اعلیٰ کا یہ الزام غیر ضروری اور بے بنیاد ہے اور اس سے ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ سبھی کوکی لوگوں کو دہشت گرد بتا کر بدنام کرنا چاہتے ہیں۔


دراصل نفرت اسی طرح کی سوچ سے پیدا ہوتی ہے۔ نفرت پیدا کر کے ہی اقلیتی طبقات کے خلاف تشدد بھڑکایا جاتا ہے۔ منی پور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے ہندوستان کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو بتایا ہے کہ میتئی طبقہ کو درج فہرست قبائل کا درجہ ملنے کے خلاف تحریک تو تشدد کا صرف بہانہ تھی۔ صحافیوں، مصنّفین، سماجی کارکنان، حقوق نسواں کارکنان وغیرہ سمیت 550 شہریوں نے ایک بیان جاری کر تشدد پر اپنی فکر ظاہر کی ہے اور ریاست میں امن کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ تشدد متاثرہ کو انصاف ملنا چاہیے اور ان کی باز آبادکاری ہونی چاہیے۔

بیان میں کہا گیا ہے ’’منی پور آج جل رہا ہے اور اس کے لیے کافی حد تک مرکز اور ریاست میں بی جے پی کی حکومتوں کی تخریب کاری پر مبنی سیاست ذمہ داری ہے۔ مزید افراد مارے جائیں اس کے پہلے اس خانہ جنگی کو ختم کروانے کی ذمہ داری بھی ان کی ہی ہے۔‘‘ بیان مین بغیر کسی پیچیدگی کے کہا گیا ہے کہ ’’حکومت سیاسی فائدہ کے لیے دونوں طبقات کو یقین دلا رہی ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہے، جبکہ دونوں طبقات کے درمیان طویل وقت سے چلی آ رہی کشیدگی کو مزید گہرا کر رہی ہے اور اس نے موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے بات چیت کرنے کی اب تک کوئی پیش قدمی نہیں کی ہے۔‘‘


بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کوکی طبقہ کے خلاف سب سے خوفناک تشدد میتئی طبقہ کے مسلح اکثریتی گروپ جیسے ارمبئی تینگول اور میتئی لیپون کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی قتل عام کرنے کی اپیل کی جا رہی ہے، نفرت پھیلانے والی تقریریں ہو رہی ہیں اور خود کو بہتر ثابت کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ان خبروں کی سچائی کا بھی پتہ لگایا جانا چاہیے کہ مشتعل بھیڑ خواتین پر حملہ کرتے وقت ’زنا کرو، ٹارچر کرو‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔

آر ایس ایس کے ترجمان رسالہ ’آرگنائزر‘ نے 16 مئی کو اپنے شمارے کے اداریہ میں حیران کرنے والی باتیں لکھی ہیں۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ منی پور میں خون خرابہ کلیسوں (چرچ) کی حمایت سے ہو رہا ہے۔ اس الزام کو کلیسا کے ذمہ داران کی طرف سے بے بنیاد بتایا گیا ہے۔ منی پور کے کیتھولک چرچ کے سربراہ آرچ بشپ ڈومنک لومون نے کہا کہ ’’چرچ نہ تو تشدد کرواتا ہے اور نہ ہی اس کی حمایت کرتا ہے۔‘‘ یہ بے سر پیر کا دعویٰ فرقہ واریت پر مبنی سیاست کی پرانی پالیسی کا حصہ ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اس دلیل سے لوگوں کا دھیان ہٹانا چاہتے ہیں کہ منی پور میں 300 سے زیادہ کلیسوں میں آگ لگائی جا چکی ہے، یا انھیں نقصان پہنچایا جا چکا ہے۔


اگر کلیسا کو اس تصادم کے ویلن کی شکل میں پیش کیا جا سکے تو ارمبئی تینگول اور میتئی لیپون جیسے میتئی گروپوں کے ذریعہ کیے جا رہے منصوبہ بند اور بڑی سفائی سے انجام دیئے جا رہے تشدد پر پردہ ڈالنے میں بھگوا پریمی میڈیا کو مدد ملے گی۔ یہ کہنا ہے صحافی انتو اکرا کا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’منی پور میں وہی ہو رہا ہے جو کندھمال میں 2008 میں ہوا تھا۔ جن گاؤں میں کلیسوں کو تباہ کر دیا گیا ہے ان کے پوسٹرس سے حلف نامے بھروائے جا رہے ہیں کہ اب وہ وہاں نہیں لوٹیں گے۔‘‘

شمال مشرق میں پہلے بھی تشدد ہوتے رہے ہیں، لیکن موجودہ تشدد کی شکل یقینی طور سے فرقہ واریت پر مبنی ہے۔ اس کی گہرائی سے جانچ کی ضرورت ہے، اور اس وقت تو ہم سبھی کو یہی دعا کرنی چاہیے کہ علاقے میں امن قائم ہو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔