لوک سبھا انتخاب 2024: کرناٹک میں کانگریس کو حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ ہے

بی جے پی کے لیے کرناٹک کی گزشتہ کارکردگی کو دہرانا انتہائی مشکل ہے، ریاست میں کانگریس حکومت کے ذریعہ وعدے پورے کیے جانے کا اثر بھی عوام پر دکھائی دے رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>وزیر اعلیٰ سدارمیا اور ڈی کے شیوکمار، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

وزیر اعلیٰ سدارمیا اور ڈی کے شیوکمار، تصویر آئی اے این ایس

user

ناہید عطا اللہ

کیا بی جے پی اس مرتبہ اپنی 2019 لوک سبھا انتخاب والی کارکردگی دہرا سکتی ہے؟ لگتا تو نہیں ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ اول، ریاست میں کانگریس کی حکومت ہے، اور دوئم بی جے پی اندرونی لڑائی سے نبرد آزما ہے۔ اس کے مقابلے میں کانگریس زیادہ متحد اور پرعزم نظر آ رہی ہے اور اسے بھروسہ ہے کہ کم از کم 15 سیٹیں تو جیت ہی لے گی۔ بی جے پی نے گزشتہ مرتبہ ریاست کی 28 لوک سبھا سیٹوں میں سے 25 پر جیت حاصل کی تھی۔

کانگریس کے بھروسے کو کنٹر ڈیجیٹل پلیٹ فارم Eedina.com کے سروے سے بھی قوت ملتی ہے جس میں کانگریس کو 17 اور این ڈی اے اتحاد کو 11 سیٹیں ملنے کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ Eedina.com نے 2023 کے اسمبلی انتخاب سے قبل بھی کانگریس کی بڑی جیت کی پیشین گوئی کی تھی جو درست ثابت ہوئی۔


اس کے برعکس نیوز18 کے سروے میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی پھر سے 25 سیٹیں جیتے گی اور کانگریس کے حصے میں تین سیٹیں ہی آئیں گی۔ حالانکہ کرناٹک کے وزیر پریانک کھڑگے نے دعویٰ کیا ہے کہ آر ایس ایس کا داخلی سروے بھی کہتا ہے کہ بی جے پی ملک میں 200 لوک سبھا سیٹوں سے زیادہ پر کامیابی حاصل نہیں کر پائے گی۔ ریاست کے بارے میں آر ایس ایس کا تجزیہ 8 سیٹوں کے اندر ہی رہ جانے کا ہے۔

کانگریس کے تئیں بھروسہ ان پانچ گارنٹیوں سے پیدا ہوا ہے جن کا اس نے اسمبلی انتخاب سے پہلے وعدہ کیا تھا۔ ان میں سے تین سے استفادہ کرنے والی خواتین ہیں اور پارٹی کو اس کا فائدہ بھی ملا۔ ریاستی حکومت کی بسوں میں خواتین کو مفت سفر، غریب کنبوں میں خاتون سرپرستوں کو 2000 روپے ماہانہ اور 200 یونٹ تک مفت بجلی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ایکسس مائی انڈیا کے ایگزٹ پول نے اخذ کیا ہے کہ کانگریس کو بی جے پی کے مقابلے میں 11 فیصد زیادہ خواتین کے ووٹ ملے۔


روایتی طور سے اثردار لنگایت طبقہ کا آشیرواد حاصل کرنے والی بی جے پی کو اس محاذ پر بھی چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فقیریشور مٹھ کے جگت گرو فقیرا دنگلیشور مہاسوامی نے حیرت انگیز طریقے سے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ مرکزی وزیر پرہلاد جوشی کے خلاف آزاد امیدوار کی شکل میں انتخاب لڑیں گے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ جوشی نے ویرشیو-لنگایت طبقہ کو بے عزت کیا اور اقتدار میں بنے رہنے کے لیے لنگایت مٹھوں کا غلط استعمال کیا۔ یہ واقعہ 40 لنگایت سَنتوں کی ایک میٹنگ کے بعد پیش آیا جس میں بی جے پی کی مرکزی قیادت سے جوشی کو دھارواڑ سیٹ سے دوبارہ امیدوار نہیں بنانے کی گزارش کی گئی تھی۔ انھوں نے کہا تھا ’’صرف انتخاب کے دوران ہی لنگایت کے تئیں جوشی کی مھبت نظر آتی ہے۔‘‘ اس سے زیادہ ناراضگی اس بات کو لے کر ہے کہ 2019 میں 9 ویرشیو-لنگایت رکن پارلیمنٹ جیتے لیکن ان میں سے ایک کو بھی مرکزی کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا۔

فقیریشور مٹھ کئی مسلم روایات پر عمل کرتا ہے۔ کرسیٔ صدارت پر رہنے والے مٹھ چیف کی موت کے بعد ان کی آخری رسومات پہلے اسلامی طریقہ کے طمابق ہوتا ہے اور پھر ہندو طریقے سے رسوم ادا کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب نئے سربراہ کے انتخاب سے متعلق رسمی تقریب ہوتی ہے تو اس میں صوفی سَنت خواجہ امین الدین کی نسل کو مدعو کیا جاتا ہے اور ان کی موجودگی میں یہ اختتام کو پہنچتا ہے۔


بی جے پی کی بے چینی کو بڑھاتے ہوئے سابق وزیر ایشورپا نے الزام لگایا کہ انھیں امت شاہ سے ملنے کے لیے دہلی بلایا گیا تھا۔ لیکن جب وہ پہنچے تو کافی انتظار کرانے کے بعد بھی ان کی ملاقات نہیں کرائی گئی اور انھیں واپس لوٹ جانے کو کہا گیا۔ انھوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر ریاستی بی جے پی صدر بی وائی وجیندر استعفیٰ نہیں دیں گے تو وہ یدی یورپا کے بیٹے بی وائی راگھویندر کے خلاف بطور آزاد امیدوار انتخاب لڑیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔