لوک سبھا انتخاب 2024: نگینہ میں چندرشیکھر آزاد انڈیا اتحاد کا بگاڑیں گے کھیل یا بی جے پی پھر ہوگی فیل؟

نگینہ لوک سبھا سیٹ میں تقریباً 16 لاکھ ووٹرس ہیں جن میں 46 فیصد مسلم اور 21 فیصد دلت ہیں، تقریباً 33 فیصد ووٹرس کا تعلق چوہان، سینی اور او بی سی طبقات سے ہے۔

<div class="paragraphs"><p>ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے چندرشیکھر آزاد</p></div>

ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے چندرشیکھر آزاد

user

تنویر

لوک سبھا انتخاب کے پیش نظر سیاسی سرگرمیاں اس وقت عروج پر ہیں۔ پہلے مرحلہ کی ووٹنگ کل یعنی 19 اپریل کو ہوگی جس میں ملک بھر کی 102 لوک سبھا سیٹوں پر ووٹرس اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ان 102 لوک سبھا سیٹوں میں سے 8 سیٹیں (سہارنپور، کیرانہ، بجنور، مظفر نگر، نگینہ، مراد آباد، رامپور، پیلی بھیت) اتر پردیش کی ہیں جس پر سبھی کی نگاہیں مرکوز ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتر پردیش کی ان 8 لوک سبھا سیٹوں میں گزشتہ مرتبہ، یعنی 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کو صرف 3 سیٹیں مظفر نگر، پیلی بھیت، کیرانہ ملی تھیں۔ مراد آباد اور رامپور کی سیٹ سماجوادی پارٹی کے حصے میں گئی تھی، جبکہ سہارنپور، بجنور اور نگینہ سیٹ پر بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کا قبضہ ہوا تھا۔ یعنی اتر پردیش کے لحاظ سے انڈیا اتحاد کے لیے پہلا مرحلہ بہت اہم ثابت ہونے والا ہے۔

ہم یہاں نگینہ لوک سبھا سیٹ کے بارے میں بات کریں گے جہاں مقابلہ انتہائی دلچسپ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ دلچسپی پیدا ہوئی ہے آزاد سماج پارٹی کے چیف اور مشہور نوجوان دلت لیڈر چندرشیکھر آزاد کے انتخابی میدان میں اترنے سے۔ اس سیٹ سے بی جے پی نے اوم کمار (جو نہٹور سے رکن اسمبلی ہیں) کو انتخابی میدان میں اتارا ہے، جبکہ بی ایس پی نے سریندر پال کو اور سماجوادی پارٹی نے سابق جج منوج کمار کو ٹکٹ دیا ہے۔ چونکہ نگینہ لوک سبھا سیٹ ریزرو ہے، اس لیے سبھی نے دلت امیدوار پر داؤ لگایا ہے اور کوشش میں ہیں کہ زیادہ سے زیادہ دلت ووٹوں کو اپنی طرف کھینچا جائے۔ حالانکہ فیصلہ کن پوزیشن میں مسلم ووٹرس ہیں جن کی تعداد اس سیٹ پر تقریباً 46 فیصد (6 لاکھ) ہے۔


دراصل نگینہ لوک سبھا سیٹ میں تقریباً 16 لاکھ ووٹرس ہیں جن میں 46 فیصد مسلم اور 21 فیصد دلت ہیں۔ ان دونوں کو ہی جوڑ دیا جائے تو تقریباً 67 فیصد ہو جاتا ہے۔ باقی تقریباً 33 فیصد ووٹرس چوہان، سینی اور او بی سی طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس مرتبہ مسلم ووٹرس کا رجحان کانگریس کی طرف ہے جو کہ انڈیا اتحاد کا حصہ ہے، اور انڈیا اتحاد کی طرف سے سماجوادی پارٹی نے منوج کمار کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ ایسے میں ظاہر ہے مسلم ووٹرس کا جھکاؤ منوج کمار کی طرف ہوگا۔ لیکن ہم چندرشیکھر آزاد کو بھی فراموش نہیں کر سکتے جو نہ صرف دلتوں کی مضبوط آواز تصور کیے جاتے ہیں، بلکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی انھیں پسند کرتی ہے۔ بی ایس پی سے دو مرتبہ رکن اسمبلی رہے محمد غازی ’آزاد سماج پارٹی‘ سے جڑ چکے ہیں اور وہ چندرشیکھر آزاد کی حمایت میں مہم بھی چلا رہے ہیں۔ یعنی چندرشیکھر آزاد نے نگینہ کی لڑائی کو چہار رخی بنا دیا ہے۔ یعنی اس اندیشہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ انڈیا اتحاد کا کھیل بگاڑ سکتے ہیں، حالانکہ امکان یہی ہے کہ 2014 میں اس سیٹ پر قبضہ جمانے والی بی جے پی اس مرتبہ بھی 2019 کی طرح فیل ہو جائے گی۔

2019 کے لوک سبھا انتخاب میں نگینہ سیٹ بی ایس پی نے جیتی تھی، لیکن تب اس کے ساتھ سماجوادی پارٹی کا اتحاد تھا۔ اسی لیے بی ایس پی امیدوار گریش چندر نے 5.68 لاکھ ووٹ حاصل کر بہ آسانی بی جے پی امیدوار ڈاکٹر یشونت سنگھ (4.01 لاکھ ووٹ) کو 1.67 لاکھ ووٹوں سے ہرا دیا تھا۔ تیسرے مقام پر کانگریس امیدوار اوم وَتی دیوی رہی تھیں جنھیں محض 20 ہزار ووٹ ملے تھے۔ اس مرتبہ حالات یکسر مختلف ہیں۔ نگینہ سیٹ کو مایاوتی کا ’کرم بھومی‘ بھی تصور کیا جاتا ہے، حالانکہ ایسی کئی رپورٹس میڈیا میں سامنے آ چکی ہیں جس میں دلت ووٹرس ان سے مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔ یعنی بڑی تعداد میں دلت ووٹرس ان سے چھٹک کر باقی تینوں امیدواروں کی طرف جا سکتے ہیں۔ بی جے پی کی کوشش بھی یہی ہے کہ بڑی تعداد میں دلت ووٹ حاصل کیا جائے اور ساتھ میں چوہان، سینی و او بی سی ووٹر (جو 30 فیصد سے زیادہ ہیں) کو ملا کر فتح کا پرچم لہرایا جائے۔


قابل ذکر ہے کہ 2009 میں نئی حد بندی کے بعد جو نگینہ لوک سبھا سیٹ وجود میں آئی، اس پر اب تک 3 مرتبہ لوک سبھا انتخابات ہو چکے ہیں۔ نہٹور، نجیب آباد، نگینہ، دھامپور اور نورپور اسمبلی حلقوں والی اس لوک سبھا سیٹ پر 2009 میں سماجوادی پارٹی امیدوار یشویر سنگھ (2.34 لاکھ ووٹ) نے بی ایس پی امیدوار رام کشن سنگھ (1.75 لاکھ ووٹ) کو شکست دی تھی۔ 2014 لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی امیدوار یشونت سنگھ (3.68 لاکھ ووٹ) نے فتح حاصل کی تھی۔ انھوں نے سماجوادی پارٹی امیدوار یشویر سنگھ (2.75 لاکھ ووٹ) کو شکست دی تھی۔ اس طرح دیکھا جائے تو 2009 سے 2019 کے درمیان بی جے پی، بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی نے اس سیٹ پر ایک ایک مرتبہ قبضہ کیا ہے۔ اس مرتبہ تینوں ہی پارٹیاں اپنے امیدوار کو فتحیابی دلا کر سبقت حاصل کرنا چاہیں گی۔ لیکن کوئی بھی چندرشیکھر آزاد کو کیسے فراموش کر سکتا ہے جو اپنی تقریروں میں بڑا الٹ پھیر کرنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔