لوک سبھا الیکشن: انتخابات عوام کے لیے ہوں نہ کہ کسی مذہب کے لیے... سید خرم رضا

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا اور عوام کی جانب سے حزب اختلاف سے تو سوال کیے جا رہے ہیں لیکن برسر اقتدار اتحاد کی ہر بات پر لبیک کہا جا رہے، نطریات کی لڑائی کی بات ان کے لیے پرانی ہو گئی ہے۔

ووٹ، تصویر آئی اے این ایس
ووٹ، تصویر آئی اے این ایس
user

سید خرم رضا

رام مندر کی پران پرتشٹھا ہو گئی، نتیش کمار کی گھر واپسی ہو گئی، چنڈی گڑھ  کے میئر کا انتخاب اپنی مرضی سے ہو گیا اور جھارکنڈ کے وزیر اعلی ہیمنت سورین کا استعفی بھی ہو گیا۔ یعنی این ڈی اے کی جانب سے لوک سبھا انتخابات کے لیے بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ دوسری جانب بھی ایسا نہیں ہے کے لوک سبھا انتخابات کی تیاری نہیں ہو رہی۔ راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ جاری ہے۔ اتر پردیش میں اکھیلیش یادو نے کچھ نشستوں کے لیے نہ صرف اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے بلکہ موٹا موٹی یہ بھی طے کر دیا ہے کہ اتحاد میں کون سی پارٹی کتنی نشستوں پر انتخابات لڑے گی۔

اب چونکہ این ڈی اے برسراقدار جماعت ہے اس وجہ سے اس کے لیے کچھ چیزیں کرنا مشکل نہیں ہے، کیونکہ جس کو کہہ دیا کہ وہاں بیٹھ جاؤ یا ایسے کر لو تو اس کے پاس ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ دراصل اقتدار میں ہونے کی وجہ سے خود اپنی پارٹی کے علاوہ دوسری پارٹیوں سے آنے والوں کی لمبی قطار لگی ہے۔ انڈیا اتحاد کیونکہ حزب اختلاف کی پارٹیوں کا اتحاد ہے اس لیے ان کے سامنے آگے چلنے کے لیے بہت سی مجبوریاں ہیں۔ پہلے تو دوسرے اتحاد میں شامل ہونے کے راستے کھلے ہوئے ہیں، اور ان کے رائے دہندان اور علاقے بہت محدود ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا اور عوام کی جانب سے حزب اختلاف سے تو سوال کیے جا رہے ہیں لیکن برسر اقتدار اتحاد کی ہر بات پر لبیک کہا جا رہے۔ نطریات کی لڑائی کی بات ان کے لیے پرانی ہو گئی ہے۔


این ڈی اے کی مرکزی پارٹی بی جے پی جو کچھ کر رہی ہے ویسا کرنا اس کی انتخابی جیت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ بی جے پی اتحاد میں صرف اور صرف انتخابی جیت دیکھ رہی ہے اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ ہندی اکثریتی پٹی یعنی دہلی، ہریانہ، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، اتر پردیش، بہار، اتراکھنڈ وغیرہ پوری طرح مذہبی رنگ میں رنگ گئی ہے۔ اکثریتی طبقے کے لیے وزیر اعظم ان کے عظیم رہنما کی شکل میں سامنے آئے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ان کا رہنما غلطی کر ہی نہیں سکتا، وہ جو بھی کرتے ہیں وہ اچھا ہی کرتے ہیں۔ اسی پٹی میں رہنے والا اقلیتی طبقہ وزیر اعظم کو اپنا شدید مخالف مانتا ہے اور ان کی نظر میں وزیر اعظم ایک خاص طبقہ کے رہنما بن کر رہ گئے ہیں اور ان  کے ہر قدم کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔

ویسے تو یہ ہندی پٹی پہلے سے ہی اقلیت دشمنی یا نفرت میں ایک خاص طبقہ کی ہو گئی تھی، لیکن پران پرتشٹھا کی تقریب کے بعد سے اس طبقہ پر مذہبی جنون حاوی ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ سے اس کے رہنما اور عوام دونوں کی زبان میں جارحیت نظر آنے لگی ہے۔ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس ماحول کے باوجود نتیش کو اپنے پالے میں لانا اور چنڈی گڑھ میں اپنا میئر بنوانا کیا ضروری تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو این ڈی اے اتحاد اپنی نشستیں پہلے کے مقابلہ زیادہ بڑھانا چاہتا ہے یا پھر اس کو رپورٹ صحیح نہیں مل رہی۔


عام طور پر انتخابات کے وقت عوام کے مزے آ جاتے ہیں کیونکہ نہ صرف ان سے بڑے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں بلکہ ان کے حق میں کچھ اعلانات بھی ہوتے ہیں۔ ابھی تک ان انتخابات سے قبل ایسا کچھ محسوس نہیں ہو رہا اور شاید اس کی وجہ عوام کو مذہبی نشہ دینے اور حزب اختلاف کو کمزور کرنے پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ اس سب کا اثر عوام کی ترقی اور فلاح بہبود پر پڑے گا اور عوام پھر کہیں کھو جائیں گے۔

حزب اختلاف کے رائے دہندگان اور علاقے محدود ہیں اور ان کو اب یہ دیکھنا ہے کہ مذہبی جنون کی اس آگ سے بچتے ہوئے کیسے اپنے رائے دہندگان اور علاقہ میں اضافہ کیا جائے۔ این ڈی اے اتحاد نے خود کو اکثریتی طبقہ کا مسیحا بنا کر جس طرح پیش کیا ہے، اس نے اقلیتی طبقہ کو حزب اختلاف کی جانب دھکیل دیا۔ یعنی اقلیتی طبقہ کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا کہ وہ حزب اختلاف کے گلے کا ہار بن جائے۔ مذہبی بنیاد پر کسی ایک اتحاد کے ساتھ جانا یا اس کا مخالف ہونا ملک کی ترقی اور خوشحالی کی مخالفت کا ضامن  ہے اور اس کا سیدھا اثر عوام کے بہبود پر پڑتا ہے۔ بس یہ دیکھنا ہے کہ آنے والے انتخابات عوام کے لیے ہوں، یہ انتخابات کسی مذہب کے لیے ہو کر نہ رہ جایئں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔