لال لال آنکھوں پر کالا کالاچشمہ!

پردھان سیوک کے میگھالیہ و تریپورہ کے دورے کو توانگ جھڑپ کے پسِ منظر میں دیکھنے والوں کو وہاں پر ان کی سرگرمیوں پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہئے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

اعظم شہاب

توانگ میں بھارتی اور چینی فوج کے درمیان ہوئی جھڑپ کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم ارونا چل پردیش جاکر حقیقی صورت حال کا جائزہ لیتے، جھڑپ میں شامل ہونے والے فوجیوں سے ملاقات کرتے اور چین کو لال لال آنکھیں دکھاتے، لیکن موصوف اپنی آنکھوں پر چناؤ کا کالا کالا چشمہ پہن کر میگھالیہ اور تریپورہ پہنچ گئے۔ یوں بھی اس کی توقع پردھان سیوک سے فضول ہی ہے کیونکہ وہ تو سرے سے اس بات سے ہی انکاری رہتے ہیں کہ سرحد پر کوئی تنازعہ ہے یا چین نے کوئی دراندازی کی ہے۔ انہیں تو فوج اور ان کی قربانی بھی اسی وقت یاد آتی ہے جب اس سے کوئی انتخابی فائدہ حاصل ہوسکتا ہو۔ پلوامہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کا حوالہ دے کر انہوں نے پہلی بار ووٹ ڈالنے والوں سے ووٹ مانگے تھے۔

پردھان سیوک صاحب کی سرگرمیاں چونکہ انتخابات کے ہی گرد گھومتی رہتی ہیں اس لیے ان کا کوئی عمل انتخابی فائدے کے بغیر نہیں ہوتا ہے۔ میگھالیہ وتریپورہ کا دورہ گوکہ نارتھ ایسٹ کونسل (این ای سی) کی گولڈن جبلی تقریب میں شرکت کے نام پر تھا، لیکن یہاں بھی موصوف کے پیشِ نظر انتخاب ہی رہا۔ آئندہ سال فروری میں میگھالیہ، تریپورہ اور ناگالیڈ میں انتخابات ہونے والے ہیں اور ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا چونکہ پردھان سیوک اور بی جے پی کے لیے نہایت اہم ہے، اس لیے اس دورے کے دوران پردھان سیوک نے وہی سب کچھ کیا جو وہ گجرات و ہماچل کے انتخابات کے اعلان سے قبل کیے۔ اپوزیشن کو کوسا، پروجیکٹس کا افتتاح کیا اور اپنی حصولیابیاں گنوائیں۔


این ای سی کی گولڈن جبلی تقریب میگھالیہ کے شیلانگ میں تھی۔ اس تقریب میں شمال مشرق کی تمام 8 ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سمیت گورنر حضرات بھی شریک ہوئے۔ ظاہر ہے کہ یہ پردھان سیوک کے لیے ایک بہترین موقع تھا کہ اس کے ذریعے وہ نہ صرف میگھالیہ، تریپورہ وناگالینڈ میں بلکہ تمام مشرقی ریاستوں میں بی جے پی کو مضبوط کرنے کی حکمت عملی بناسکیں۔ اس دورے میں پردھان سیوک صاحب کے ساتھ وزیرداخلہ امت شاہ بھی تھے جو میگھالیہ سے لے کر تریپورہ تک پردھان سیوک، بی جے پی اور مرکزی حکومت کی شمال مشرقی ریاستوں پر ’احسانات‘ یاد دلاتے رہے۔ پھر چاہے وہ افسپا قانون ہو، علاحدگی پسندی یا پھر مرکز کی جانب سے دیئے جانے والے فنڈز یا پروجیکٹ ہوں۔ یہاں تک کہ انہوں نے پردھان سیوک کے نارتھ ایسٹ کے دورے کو بھی ’اپلبدھی‘ کے طور پر پیش کیا۔

این ای سی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پردھان سیوک نے کہا کہ ’جس طرح فٹبال کے کھیل میں اگر کوئی کھلاڑی کھیل کے جذبے سے نہیں کھیلتا تو اسے ریڈ کارڈ دکھا دیا جاتا ہے، اسی طرح ہم نے گزشتہ 8 سالوں میں نارتھ ایسٹ کی ترقی میں رکاوٹ بننے والی طاقتوں کو ریڈ کارڈ دکھایا ہے‘۔ معلوم نہیں یہ رکاوٹ بننے والی طاقتیں کون تھیں، لیکن اپنے اسی خطاب میں انہوں نے رکاوٹ کی وجوہات ضرور بتا دیں۔ انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ حکومتیں سوچتی تھیں کہ سرحدی علاقوں کی ترقیاتی کاموں سے دشمن ممالک کو فائدہ ہوگا، لیکن ہم سرحدی علاقوں کو مضبوط گڑھ بنانے جا رہے ہیں‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرحدی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر ہو رہی ہے، لیکن اگرسڑکوں کی تعمیر ہی ’مضبوط گڑھ‘ کی تعمیر ہے تو معاف کیجئے گا، یہ تعمیر تو گزشتہ یو پی اے کے دور سے ہی جاری ہے؟


میگھالیہ میں نیشنل پیوپل پارٹی (این پی پی) کی حکومت ہے جو این ڈی اے کے ساتھ ہے۔ یہاں کی 60 سیٹوں میں سے این پی پی کے پاس 20 سیٹیں ہیں، کانگریس کے پاس 21 جبکہ بی جے پی کے پاس 2 سیٹیں ہیں۔ اس کے باوجود بی جے پی میگھالیہ میں اپنی حکومت تصور کرتی ہے۔ این پی پی کے ساتھ بی جے پی کا پوسٹ پول الائنس ہے یعنی کہ انتخابی نتیجے کے بعد بی جے پی نے این پی پی کی حمایت کی تھی۔ 2018 کے انتخاب میں یہاں بی جے پی نے 47 سیٹوں سے اپنی قسمت آزمائی تھی جس میں سے اس نے محض دو سیٹوں پر ہی کامیابی حاصل کی۔ اس سے میگھالیہ میں بی جے پی کی مقبولیت کا انداز لگایا جاسکتا ہے۔ پردھان سیوک صاحب اس منظرنامے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہاں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوجائے۔ اس لیے میگھالیہ ان کے لیے بہت اہم ہے۔

یہی حال ناگالینڈ کا ہے۔ یہاں بھی اسمبلی کی 60 سیٹیں ہیں جس میں سے این پی ایف کے پاس 26 اور این ڈی پی پی کے پاس 18؍ ہیں۔ یہاں بی جے پی کے پاس کل 12؍ سیٹیں ہیں۔ بی جے پی نے یہاں این ڈی پی پی کو حمایت دی ہے۔ ناگالینڈ کی حکومت نیشنل پیوپل پارٹی کی مرہونِ منت ہے جس نے اپنی دو سیٹوں کے ساتھ این پی ایف کی حمایت کی ہے۔ البتہ تریپورہ میں بی جے پی اکثریت میں ہے۔ وہاں پر بی جے پی کے پاس 60 میں سے 36 سیٹیں ہیں اور اس کے وزیراعلی مانک ساہا ہیں۔ ان تینوں ریاستوں میں آئندہ سال فروری میں انتخابات ہوں گے اور بی جے پی چاہتی ہے کہ جس طرح تریپورہ میں اس کی اکثریت ہے اسی طرح میگھالیہ وناگالینڈ میں بھی ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ابھی سے انتخابی مہم شروع کر دی جائے۔ یوں بھی گجرات جیتنے کے بعد پردھان سیوک و بی جے پی کے پاس کوئی کام ہے ہیں اس لیے پوری توجہ ان تینوں مشرقی ریاستوں پر مبذول کر دی گئی ہے۔


جیسا کہ عرض کیا گیا کہ پردھان سیوک کے ذہن میں شب و روز انتخاب ہی رہتا ہے، اس لیے وہ معمول کے مطابق ہونے والی تقریبات کو بھی اپنی حصولیابی قرار دے دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر چند روز قبل ممبئی میں جی۔20 کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس سے قبل لوگوں کے موبائیل پر ایسے میسیج روانہ کیے گئے گویا جی۔20 کی میزبانی کا شرف بھارت کو مودی جی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ اس میسج میں کہا گیا تھا ’آج بھارت کے لیے تاریخی لمحہ، جب ہم جی۔20 کی صدارت سنبھالنے جا رہے ہیں۔ سبھی بھارت واسیوں کے لیے فخر کا موقع، جب دنیا کی نگاہیں بھارت پر ہوں گی‘۔ جبکہ ہر دس سال بعد جی۔20 کی میزبانی ممبرممالک کے درمیان گھومتی رہتی ہے۔ اس میں فخر اور تاریخی بات کون سی ہے؟ یہ کوئی پردھان سیوک سے ہی پوچھے۔ لیکن اس عام سی تقریب کو بھی اس طرح پیش کیا گیا گویا اگر مرکز میں مودی حکومت نہیں ہوتی تو یہ’شرف‘ بھی ملک کو حاصل نہیں ہوتا۔

پردھان سیوک کی این ای سی کی تقریب میں شرکت اور وہاں پر ان کی سیاسی سرگرمیاں یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ان کا یہ دورہ توانگ میں چینی فوجوں کے ساتھ بھارتی فوجوں کی جھڑپ یا سرحدی تنازعہ کے سبب نہیں بلکہ خالص طور پر انتخابی تھی۔ یوں بھی توانگ میں ہوئی جھڑپ کو وزیردفاع معمولی جھڑپ قرار دیئے تھے جبکہ اس جھڑپ میں زخمی ہونے والوں کے بارے میں آج 10؍ دنوں بعد بھی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ وہ کس حالت میں ہیں، اسپتال سے ڈسچارچ ہوئے یا نہیں۔ تین دن پہلے تک یہ خبر ضرور تھی کہ وہ ہنوز اسپتال میں ہیں لیکن اس کے بعد ان کے بارے میں نہ پردھان سیوک نے کچھ بتایا اور نہ ہی وزیردفاع نے۔ جب خاموشی ہی ہرمسئلے کا حل تصور کیا جانے لگے تو پھر وہی ہوتا ہے جس کا مظاہرہ پارلیمنٹ میں ہو رہا ہے کہ مسلسل بحث کے مطالبے اور واک آؤٹ کے باوجود حکومت بحث کرانے کے لیے تیار نہیں ہے۔


پردھان سیوک شیلانگ کے بعد اگرتلہ گئے جہاں انہوں نے سوامی وویکانند میدان میں جلسہ عام کے ساتھ روڈ شو بھی کیا۔ جو لوگ پردھان سیوک کے اس دورے کو این ای سی کی تقریب میں شرکت کرنا قرار دے رہے ہیں، ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ این ای سی کی تقریب تو میگھالیہ کے شیلانگ میں تھی، تو پھر موصوف تریپورہ کے اگرتلہ کیونکر پہنچ گئے؟ تریپورہ میں بھی یوپی کی طرح ’لابھارتی‘ کا کھیل کھیلا گیا۔ یہاں پر مختلف سرکاری فلاحی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والے لوگوں سے بھی وزیراعظم نے بات چیت کی۔ اس کے علاوہ’پردھان منتری آواس یوجنا‘ کے ’گرہ پرویش‘ پروگرام کا آغار کیا گیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اس موقع پر بھی پردھان سیوک و وزیرداخلہ نے تریپورہ میں بی جے پی کی ایگزیکیوٹیو کمیٹی سے میٹنگ کرنا نہیں بھولے۔ اس لیے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ توانگ کے بہانے شمال مشرقی ریاستوں میں بھی انتخابی مہم کی بساط بچھانی شروع کر دی گئی۔

(مضمون میں جو بھی لکھا ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اس سے قومی آواز کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔