کھتولی ضمنی انتخاب: ’گٹھ بندھن‘ کی جیت مغربی یوپی میں بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی، اپوزیشن کو مل گیا فتح کا ’پیٹرن‘

کھتولی ضمنی انتخاب سے بی جے پی کو یہ سبق مل گیا ہے کہ فساد کی زمین پر مغربی یوپی میں اب فصل کاٹنے کے دن لد گئے ہیں۔ یہاں عوام جذبات کے تلاطم میں بہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

اتر پردیش میں 2 اسمبلی اور 1 لوک سبھا سیٹ کے لیے ہوئے ضمنی انتخاب کا نتیجہ سامنے آ چکا ہے۔ اس کے بعد کھتولی اسمبلی سیٹ کا نتیجہ سب سے زیادہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ کھتولی میں ’گٹھ بندھن‘ (اتحاد) کے آر ایل ڈی امیدوار کی شکل میں مدن بھیا نے بی جے پی امیدوار راج کماری سینی کو تقریباً 22 ہزار ووٹوں کے بڑے فرق سے ہرا دیا ہے۔ اس انتخاب نے پورے مغربی یوپی کی سیاست میں ایک ہلچل پیدا کر دی ہے۔ مغربی اتر پردیش میں پہلی بار جاٹ، گوجر، مسلم اور دولت ایک پلیٹ فارم پر دکھائی دیے جس کے دور رس نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ اس کھتولی انتخاب میں بی جے پی کی انتخابی پالیسی ہر ایک محاذ پر ناکام ہو گئی۔ علاقہ کی عوام نے ہر طرح کے پولرائزیشن کی پالیسی کو درکنار کر دیا اور سائلینٹ ووٹرس نے بی جے پی کو زوردار پٹخنی دے دی۔ یہاں یوپی میں برسراقتدار بی جے پی کے لیے ایک سیٹ کی شکست سے زیادہ فکر کی بات وہ ’پیٹرن‘ ہے جس کے سبب بی جے پی امیدوار راج کماری سینی کو زبردست شکست ملی ہے۔ یہ جیت مغربی یوپی میں آئندہ لوک سبھا انتخاب میں ایک نئے امکان کو جنم دے رہی ہے۔

بی جے پی کو ملا سبق، فساد کے زخم تازہ کر اب نہیں ملے گا ووٹ:

کھتولی ضمنی انتخاب سے بی جے پی کو یہ سبق مل گیا ہے کہ فساد کی زمین پر مغربی یوپی میں اب فصل کاٹنے کے دن لد گئے ہیں۔ یہاں عوام جذبات کے تلاطم میں بہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کھتولی میں 2022 کے اسمبلی انتخاب میں رکن اسمبلی بنے وکرم سینی کو فساد بھڑکانے کے الزام میں دو سال کی سزا ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان کی رکنیت رَد کر دی گئی۔ ضمنی انتخاب کا اعلان ہونے کے بعد وکرم سینی کی بیوی راج کماری سینی کو بی جے پی نے امیدوار بنایا۔ راج کماری سینی کو امیدوار بنائے جانے کے بعد بی جے پی نے یہ تشہیر کرنا شروع کر دیا کہ وکرم سینی ہندوتوا کے ہیرو ہیں، کیونکہ کوال واقعہ میں انھوں نے ہندوؤں کی لڑائی لڑی۔ بی جے پی نے کہا کہ ان کی رکنیت اس لڑائی کی وجہ سے ہی رد ہوئی ہے اور یہ ان کی سیاسی قربانی ہے۔ بی جے پی کے مظفر نگر سے رکن پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر سنجیو بالیان نے وکرم سینی کو لے کر کہا تھا کہ وہ ہندوؤں کی بہو بیٹیوں کی عزت کی لڑائی لڑ رہے تھے۔ بی جے پی نے جارحانہ انتخابی تشہیر میں عوامی ایشوز پر کوئی بات نہیں کی اور انتخاب کو پولرائزیشن اور مظفر نگر فساد کی پرانی یادوں پر مرکوز رکھا۔ ایک اندازے کے مطابق 32 فیصد ووٹر نے اس پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی اور اس نے صرف ای وی ایم کے سامنے اپنا جواب رکھا۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف

مغربی یوپی میں ایک ہوئے جاٹ، گوجر، دلت اور مسلمان:

بی جے پی کے لیے یہ بات فکر انگیز ضرور ہے کہ کھتولی اسمبلی میں وہ مظفر نگر فساد اور ہندوتوا کے نام پر پولرائزیشن نہیں کر پائی، لیکن اس سے بھی زیادہ فکر انگیز یہ ہے کہ مغربی یوپی کی تقریباً 19 لوک سبھا سیٹوں کو براہ راست متاثر کرنے والا طبقہ یعنی جاٹ، گوجر، دلت اور مسلمان ایک پلیٹ فارم پر آ گئے ہیں۔ کھتولی ضمنی انتخاب میں جاٹوں نے 60 فیصد، گوجروں نے 90 فیصد، دلتوں نے 80 فیصد اور مسلمانوں نے 93 فیصد ووٹ گٹھ بندھن امیدوار یعنی مدن بھیا کو دیا۔ ایسا تب ہوا جب وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ، نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک، کابینہ وزیر جتن پرساد، اے کے شرما سمیت بی جے پی حکومت کے 100 سے زیادہ بڑے لیڈران نے یہاں انتخابی تشہیر کی۔ لیکن آر ایل ڈی امیدوار کے حق میں کمیرا طبقات کا جو گٹھ جوڑ بنا وہ اثردار رہا۔ کھتولی اسمبلی حلقہ کے قصبہ کھتولی اور جانسٹھ نے یکطرفہ گٹھ بندھن کو ووٹ دیا اور یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں میں بی جے پی کا اثر دھندلا ہو گیا۔

جینت چودھری نے گھر گھر تقسیم کی تھی پرچی، عزت پر آ گئی تھی بات:

کھتولی ضمنی انتخاب نے آر ایل ڈی سربراہ جینت چودھری کی شبیہ کو مزید زمینی لیڈر والی بنا دیا ہے۔ یہاں جینت چودھری نے گاؤں گاؤں جا کر نکڑ اجلاس کیے اور پرچے بانٹے۔ خاص کر جاٹوں میں یہ بڑی اثردار بات رہی۔ جاٹوں کی چوپال پر تذکرہ ہو رہا تھا کہ ’اب تو مھارا چودھری (جینت) گھر گھر پرچے بانٹ رہا ہے، اب بھی اسے نہ جیتاوے۔‘ کھتولی ضمنی انتخاب جینت چودھری کے وقار کا انتخاب بن گیا تھا۔ یہ جینت ہی تھے جنھوں نے وکرم سینی کو سزا ہونے کے بعد ان کی اسمبلی رکنیت کو لے کر ایشو بنایا تھا۔ جس کے بعد کھتولی اسمبلی حلقہ میں ضمنی انتخاب کا اعلان ہوا۔ مزید ایک غور کرنے والی بات یہ تھی کہ بدزبانی کے لیے تنقید برداشت کرنے والے وکرم سینی نے جینت چودھری کو اپنے سامنے آ کر انتخاب لڑنے اور ضمانت ضبط کرانے کی بات کہی تھی۔ جینت چودھری اس انتخاب میں جیت یقینی کرنا چاہتے تھے اس لیے مدن بھیا کو لونی سے یہاں لا کر انتخاب لڑوایا اور چندرشیکھر آزاد سے گٹھ جوڑ کیا۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف

چندرشیکھر آزاد گٹھ بندھن میں آئے تو بدل گئے حالات، دلت نوجوانوں نے یکطرف حمایت کی:

کھتولی ضمنی انتخاب میں بھیم آرمی چیف اور آزاد سماج پارٹی چیف چندرشیکھر آزاد کا سب سے اہم کردار رہا۔ 2022 کے اسمبلی انتخاب میں انھیں سماجوادی پارٹی-آر ایل ڈی اتحاد میں نہیں لیا گیا تھا، لیکن کھتولی ضمنی انتخاب میں انھوں نے یہ بتا دیا کہ انھیں 2022 میں گٹھ بندھن میں شامل نہ کرنا ایک بڑی غلطی تھی۔ کھتولی اسمبلی حلقہ پر دلت نتیجہ خیز کردار میں تھا۔ اس کی تعداد بھی 55 ہزار تھی۔ مایاوتی کے ضمنی انتخاب نہ لڑنے کے سبب دلتوں کو اپنی طرف موڑنے کی ہر ایک قواعد جاری تھی۔ کھتولی ضمنی انتخاب میں چندرشیکھر آزاد کو تمام اسٹیج پر بہت احترام دیا گیا۔ ان کی پارٹی کے پرچم پورے اسمبلی حلقہ میں لگے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ انتخاب میں امیدوار ہی آزاد سماج پارٹی کا لڑ رہا ہے۔ چندرشیکھر دلتوں کو پوری طرح گٹھ بندھن امیدوار کی طرف موڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ دلت نوجوان اور خواتین ان کے حق میں پوری طرح کھڑے دکھائی دیے۔

تیاگی اور برہمن بھی تھے ناراض، بی جے پی کی شکست کے لیے کیا ووٹ:

کھتولی اسمبلی حلقہ پر تیاگی برہمن سماج کا تقریباً 12 ہزار ووٹ ہے۔ نوئیڈا معاملہ میں بدنام ہوئے شری کانت تیاگی ان ذاتوں کی اکثریت والے گاؤں میں لگاتار جلسے کر رہے تھے اور بی جے پی کے خلاف ووٹ کرنے کی اپیل کر رہے تھے۔ تیاگی برادری کے سب سے بڑے گاؤں ناؤلا میں اس کا سب سے زیادہ اثر دکھائی دیا اور بی جے پی کا ووٹر تصور کیا جانے والے تیاگی برہمن سماج نے بھی اپنی ناراضگی کو ظاہر کر دیا۔ تیاگی برہمن سماج کے نوجوانوں میں بی جے پی کو لے کر بہت ناراضگی دکھائی دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیں گے۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف

ریزلٹ کے بعد اب کیا کہہ رہی کھتولی کی عوام؟

کھتولی سے تعلق رکھنے والے شاعر اجئے جنمیجے کہتے ہیں کہ بی جے پی لیڈروں کے ذریعہ ہر ایک ایشو میں فرقہ وارانہ اینگل تلاش کرنے کی کوشش سے عوام اکتا گئی ہے۔ وہ ایشوز پر بات نہیں کرتے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، گنا کی قیمت کا تعین وغیرہ اہم ایشوز ہیں، لیکن ان پر بحث شروع ہوتی ہے تو بی جے پی کارکنان موضوع ہی بدل دیتے ہیں۔ اس سے بھی لوگوں کی سوچ بدل رہی ہے۔ جانسٹھ کے دانش علی کہتے ہیں کہ سبھی کو معلوم تھا کہ اس ایک سیٹ سے حکومت نہیں بدلے گے، لیکن وکرم سینی کے خراب رویہ کو دیکھتے ہوئے سبھی انھیں (یعنی ان کی بیوی راج کماری سینی کو) شکست دینا چاہتے تھے۔ منصور پور کے سدھیر بالیان کہتے ہیں کہ جینت چودھری کے وقار کا سوال تھا، وہ جاٹوں کے مسیحا کا خون ہیں یہ کوئی نہیں بھول سکتا۔ اسی طرح سکھیڑا کے روی جاٹو کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے کام کرنے کے طریقے سے مایوس ہیں۔ بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن حکومت اس طرف توجہ نہیں دے رہی۔ چندرشیکھر آزاد نے ہمیں آواز دی، اور ہم نے ان کی آواز سن لی۔ ناؤلا کے امریش تیاگی کہتے ہیں کہ بی جے پی کی سیاست کا ’لالی پاپ‘ اب سمجھ میں آ گیا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ جو ہمارا ہے، ہم اسی کے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔