دہلی میں کیجریوال کا دور ختم لیکن اقلیتوں نے دل کھول کر ان کا ساتھ دیا... سید خرم رضا
اقلیتوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس ہار کو کیسے لیتے ہیں۔

اروند کیجریوال / تصویر: آئی اے این ایس
27 سال بعد دہلی میں ایک مرتبہ پھر بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، وہ الگ بات ہے کہ اس مرتبہ وہ اپنی پہلی جیت کا ریکارڈ نہیں توڑ پائی ہے جب اس نے 52 سیٹیں جیت کر دہلی پر حکومت کی تھی۔ پھر بھی اس کی یہ جیت بہت بڑی اس لئے تصور کی جا رہی ہے کہ اس کو اقتدار کی خوشبو 15 سال شیلا دکشت کی حکومت اور تقریبا 12 سال کیجریوال کی تاریخی کامیابی کے بعد سونگھنے کو اس وقت نصیب ہوئی جب مرکز میں بی جے پی اپنی اکثریت کی بنیاد پر اقتدار میں نہیں ہے۔ دہلی میں بی جے پی کی پہلی حکومت کا وہ دور بھی ہمیں نہیں بھولنا چاہئے جب ان کے تین تین وزیر اعلیٰ رہے اور بی جے پی پیاز کی قیمتوں کی وجہ سے اقتدار سے بے دخل ہوئی۔
ان انتخابات میں جہاں عام آدمی پارٹی کو زبردست شکست کا منہ دیکھنا پڑا وہیں اقلیتوں نے ان کا دل کھول کر اس وقت ساتھ دیا جب عام آدمی پارٹی کی حکومت نے دہلی کی اقلیتوں کے ساتھ تعصب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دہلی کے عوام نے ایک نئی طرح کی سیاست کے لئے کیجریوال کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا تھا اور یہ اظہار رائے تاریخی نوعیت کی تھی کیونکہ سال 2015 میں 70 میں سے 67 سیٹوں پر ان کے امیدواروں کو کامیاب کر کے بھیجا تھا۔ دہلی کے عوام نے اس وقت خود کو چھلا سا محسوس کیا جب انہوں نے بھی وہی سب کچھ کیا جو ایک دوسرا سیاست داں کرتا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے خود کو ایماندار اور سب سیاسی رہنماؤں کو بدعنوان اور بے ایمان قرار دیا، جس میں انہوں نے دہلی کی سابق وزیر اعلیٰ شیلا دکشت کو بھی رکھا جو دہلی والوں کو ہضم نہیں ہوا۔ لیکن وہ ان کی ایمانداری کے چکر میں شیلا دکشت پر ان کے الزام کو بھی صحیح مان گئے۔
انہوں نے ایک کے بعد ایک عوام سے جھوٹ بولا اور ان کو چھلا، چاہے انہوں نے اپنے بچوں کی قسم کھائی ہو کہ وہ کانگریس کے ساتھ حکومت نہیں بنائیں گے، چاہے وہ ایفیڈیوٹ دینا ہو کہ وہ سادگی میں یقین رکھتے ہوئے نہ تو بڑا مکان لیں گے اور نہ ہی لال بتی والی بڑی گاڑی کبھی لیں گے۔ انہوں نے اپنے یہ وعدے وفا نہیں کیے۔ دہلی کے غریب عوام بجلی اور پانی کے بلوں میں کٹوتی کی وجہ سے اور مرکز میں بی جے پی کی حکومت کے کچھ نہ کرنے کی وجہ سے ان کے تمام عیبوں کو برداشت کرتے رہے لیکن جب ان کی حکومت اقلیتوں اور دلتوں کے ساتھ کھڑی دکھائی نہیں دی تو ان میں بھی ناراضگی پیدا ہو گئی، لیکن بی جے پی کی وجہ سے انہیں برداشت کرتی رہی۔
اس وقت تو عام آدمی پارٹی نے حد کر دی جب بیچ انتخابات میں انہوں نے ایک پوسٹر جاری کیا جس میں انہوں نے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی، شیلا دکشت کے بیٹے سندیپ دکشت اور کانگریس کے خزانچی اور سابق وزیر اجے ماکن کو بی جے پی کے رہنماؤں کے ساتھ شائع کیا اور کہا کہ یہ رہنما بدعنوان ہیں۔ ان کی ناکارہ حکومت، اپنے ایفیڈیوٹ کے خلاف گاڑی اور بنگلہ یعنی شیش محل اور ان کی اور ان کے وزراء کی شراب گھوٹالہ میں گرفتاری کو بھی عوام برداشت کر سکتی تھی، لیکن ان کے اس عمل سے وہ اتنی ناراض ہوئی کہ اس نے ان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ کانگریس، جس کو دہلی کے عوام غلط نہیں مانتے اور شیلا دکشت کے دور کو یاد کرتے ہیں، اس کو ووٹ اس لئے نہیں دیا کیونکہ ان کے تعلق سے تشہیر کیا گیا کہ وہ تو اقتدار میں آ ہی نہیں رہے، اس لئے ان کو ووٹ دینا ضائع کرنے جیسا ہے۔ اس لئے دہلی کے عوام نے کانگریس کو ووٹ نہیں دیا، لیکن ان کو اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتے تھے وہ انہوں نے کر دیا۔
اقلیتوں نے نہ چاہتے ہوئے بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس ہار کو کیسے لیتے ہیں۔ دہلی کے عوام نے بی جے پی پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ کس حد تک دہلی کے عوا کے حق میں کام کرتی ہے یہ دیکھنا ہے۔ اقلیتوں نے اویسی کی پارٹی کے امیدواروں کے حق میں اپنے ووٹ دے کر ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ جذباتی انداز میں بھی ووٹ کرتے ہیں اور ان میں دور اندیشی کا فقدان ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔