کرناٹک: جب پردہ عقل پر پڑ جائے… اعظم شہاب

کرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب پر واویلا مچانے والوں کی عقلوں پر ہی حجاب پڑ چکا ہے اور وہ سوچنے سمجھنے کی بنیادی صلاحیت سے ہی محروم ہوچکے ہیں

اسکول کے باہر کھڑیں طالبات، تصویر آئی اے این ایس
اسکول کے باہر کھڑیں طالبات، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

ہمارے مودی جی کی اس خوبی سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے کہ رائی کو پربت بنانے اور بربت کے وجود سے انکار کرنے کا جتناعمدہ فن انہیں آتا ہے، اتنا شاید ہی کسی کو آتا ہو۔ وہ اس میں مہارت کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بیشتر اوقات ان کا یہی فن انہیں ملک ہی نہیں پوری دنیا میں شدید شرمندگی سے ہمکنار کر دیتا ہے اور ملک کو اس کی جو قیمت چکانی پڑتی ہے وہ الگ۔ مگر موصوف کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی، وہ جو بول دیئے بس بول دیئے اور جو ٹھان لیے بس ٹھان لیے۔ سرحد پر چین کی دراندازی پر اگر موصوف نے یہ فرما دیا کہ نہ ہی ہماری سرحدوں میں کوئی آیا اور نہ ہی ہماری کسی پوسٹ پر قبضہ کیا ہے تو یقینا ایسا ہی تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر اس کے بعد لداخ میں چین نے پل تک تعمیر کر لیے اور ہماری کئی مربع کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کرلیا۔

لیکن اسی کے ساتھ موصوف کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ بہت سے ایسے معاملات میں خاموشی کا برت رکھ لیتے ہیں جو ان کی ذرا سی توجہ سے حل ہوسکتے ہیں۔ ان کی اس خوبی کی وجہ سے رائی پربت بن جاتی ہے۔ کسانوں نے تین زرعی قوانین کی واپسی کا مطالبہ کیا، تو اس پر خاموشی کا برت رکھ لیا۔ پھر جب پورے ملک میں شدید احتجاج ہوا اور سات سو سے زائد کسانوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑیں تو جاکر موصوف نے اپنا خاموشی کا برت توڑا اور پھر انہوں نے آناً فاناً نہ صرف زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان فرمایا بلکہ کسانوں سے معافی بھی مانگ لی۔ اگر یہی فیصلہ سال بھر قبل کرلیا ہوتا تو شاید یہ رائی پربت نہ بن پاتی۔ اس طرح کی درجنوں مثالیں ہیں۔ تازہ ترین معاملہ کرناٹک میں کچھ کالجوں میں حجاب پر پابندی کا ہے جس پر گزشتہ ایک ماہ سے احتجاج ہو رہا ہے۔ اب تو اس احتجاج میں سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہوگئی ہیں جس سے یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ اس مسئلے کو بھی بڑی آسانی سے آئین میں دی گئی شخصی آزادی کے حق کی روشنی میں حل کیا جاسکتا تھا، مگرنہیں! رائی کو پربت بنا دیا گیا اور پوری دنیا کو تنقید کرنے کا موقع فراہم کر دیا گیا۔


آخر اس طرح کے چھوٹے موٹے معاملات کو اس طرح کیوں نظرانداز کیا جاتا ہے کہ وہ پیچیدہ تر ہوجائیں؟ تو اس کا جواب اس اہنکار میں پوشیدہ ہے کہ جو پارلیمنٹ کی خوفناک اکثریت نے ہمارے پردھان سیوک میں پیدا کر دیا ہے۔ اس طرح کی چھوٹی موٹی باتیں ان کی توجہ کے لئے نہیں ہوتیں اور خاص طور سے وہ تو ہرگز نہیں ہوتیں جو ان کی یا ان کی پارٹی کی پالیسی کے مطابق ہو۔ ایسی صورت میں جبکہ ملک کے سب سے اہم صوبے اترپردیش میں انتخاب ہونے والے ہیں اور بی جے پی کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کے لئے کوئی رپورٹ کارڈ نہ ہو تو اس طرح کے تنازعات کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے ذریعے مسلم دشمنی کا دھواں اٹھے گا اور پولرائزیشن کی لہر پیدا ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے کرناٹک میں بی جے پی کا حجاب کے نام پر ناٹک جاری ہے اور ہمارا قومی میڈیا اسے اس طرح پیش کر رہا ہے گویا حجاب پہننے والی طالبات کالج پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی اس کوشش میں نہ صرف قومی میڈیا بلکہ حجاب کو تنازعہ بنانے والے اس بات کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں کہ جس حجاب کے حق سے وہ مسلم طالبات کو محروم کرنا چاہتے ہیں وہ ان کے عقلوں پر پڑچکا ہے اور سوچنے سمجھنے کی بنیادی صلاحیت سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ اس تنازعے کو ہندو-مسلم کا رنگ دے دیا گیا اور بھگوا بریگیڈ کی جانب سے کالج کے دیگر طلباء کو بھگوا رومال کے ساتھ کالج بھیجا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کالج کو مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر اعتراض ہے تو پھر ہندو لڑکوں ولڑکیوں کے بھگوا رومال پہننے پر اعتراض کیوں نہیں؟ کیا حجاب ہی کالج کے ڈریس کوڈ کے خلاف ہے جبکہ کالج کا کوئی ڈریس کوڈ ہے ہی نہیں؟ دراصل مسئلہ حجاب کا نہیں ہے، اس ذہنیت کا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ حجاب کی مخالفت کرکے وہ مسلمانوں کی ایک شناخت کے خلاف آواز اٹھانے کے ’پنیہ کاریہ‘ میں ’سہبھاگی‘ ہو رہے ہیں۔ اب بھلا انہیں یہ کون سمجھائے کہ حجاب مسلمانوں کی شناخت ہی نہیں بلکہ اس ملک کی تہذیب بھی ہے۔ مسلمان کے یہاں عورتوں کا پردہ اگر حجاب کہلاتا ہے تو ہندو طبقے میں یہی پردہ تھوڑی بہت رعایت کے ساتھ گھونگھٹ بن جاتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ حجاب پر پابندی کی بات کرنے والے کبھی گھونگھٹ پر روک لگانے کی جرأت کریں گے، ایسی صورت میں یہ اس ملک کی سنسکرتی کے خلاف قرار پائے گی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں پردے سے کوئی اعتراض نہیں ہے، اعتراض ہے تو صرف حجاب سے اور وہ بھی اس لئے کہ یہ مسلمانوں کے یہاں مروج ہے۔


لطف کی بات یہ ہے کہ حجاب سے تکلیف ان لوگوں کو ہے جو حجاب نہیں پہنتے۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی شوگر کا مریض کسی سے محض اس لئے نالاں رہے کہ وہ مٹھائی نہیں کھاتا۔ اب اس میں بھلا مٹھائی نہ کھانے والا کیا قصور ہے؟ وہ سمجھتا ہے کہ مٹھائی اس کے لئے نقصاندہ ہے تو وہ نہیں کھاتا۔ کرناٹک میں حجاب کے لئے احتجاج کرنے والی مسلم طالبات کہہ رہی ہیں کہ ہمیں حجاب پہننے دیا جائے، ہمیں حجاب سے کوئی تکلیف نہیں ہے لیکن کالج کا انتظامیہ اور حکومت کہتی ہے کہ آپ حجاب نہ پہنو، کیونکہ ہم بھی نہیں پہنتے اور آپ کے حجاب پہننے سے ہمیں تکلیف ہے۔عجیب منطق ہے یہ کہ ایک شخص کو روزہ رکھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے مگر دوسرا اس لئے افطار پر ضد کر رہا ہے کہ وہ خود روزہ نہیں رکھتا۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ پہننے پر روک لگائی جا رہی ہے لیکن اگر کوئی نہ پہنے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ اس کا حق ہے۔ یعنی اگر کوئی برہنہ رہنا چاہے تو یہ اس کا حق ہے اور اگر کوئی اپنے بدن کو ڈھکے تو یہ منظور نہیں ہے۔ کوئی ایک لباس زیادہ پہنے تو اسے کالج میں گھسنے نہیں دیا جائے اور اگر کوئی ایک لباس کم کردے تو یہ اس کی آزادی ہے۔ یہ صورت حال دراصل اس منافرت والی ذہنی وبا کی پیداوار ہے جو اتفاق سے اس ملک میں 2014 کے بعد سے بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارے پردھان سیوک جی اس صورت حال کو نہایت آسانی سے قابو میں کرسکتے ہیں، لیکن ایسا کرنے کی صورت میں اس وبا سے متاثر لوگوں کی تعداد کم ہونے کا اندیشہ ہے جن کی تعداد میں ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور جنہیں وہ اپنے اقتدار کی کنجی بھی سمجھتے ہیں۔ ملک میں یہ کمال کا ماحول بنانے کے لئے پردھان سیوک کو مبارکباد دینے کو جی چاہتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔