کرناٹک اسمبلی انتخاب: صحیح پڑ رہے کانگریس کے پانسے!... ناہید عطاء اللہ

10 مئی کو کرناٹک میں اسمبلی انتخاب ہونا ہے، ریکارڈ اور ماحول دونوں ہی بی جے پی کے خلاف ہیں، جبکہ کانگریس نے سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا ہے جس سے امکانات روشن نظر آ رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی، تصویر@INCKarnataka</p></div>

راہل گاندھی، تصویر@INCKarnataka

user

ناہید عطا اللہ

کرناٹک میں اقتدار مخالف لہر صاف دیکھی جا سکتی ہے اور ایسے میں کانگریس اپنے پتّے بڑی ہوشیاری سے پھینک رہی ہے، جس سے بی جے پی بیک فٹ پر ہے۔ ملکارجن کھڑگے کا پارٹی صدر منتخب ہونا، سابق وزیر اعلیٰ جگدیش شیٹار سمیت کئی بی جے پی لیڈروں کا کانگریس کا دامن تھامنا، امت شاہ کا امول-نندنی کو آپریٹو تنازعہ کو چھیڑ کر اپنی پارٹی کے لیے ہی مصیبت کھڑی کر لینا... ایسے تمام معاملے ہیں جنھوں نے کانگریس کے انتخابی امکانات کو بہتر کیا ہے۔ بی جے پی جہاں فرقہ واریت اور نسل پرستی کے دَم پر انتخاب لڑ رہی ہے، وہیں کانگریس نے بدعنوانی اور کوآپریٹو کے معاملوں کو اُچھالا ہے۔ بی جے پی نے جس طرح آخری مراحل میں ریزرویشن میں تبدیلی کی، اس سے سبھی ذاتوں میں ناراضگی ہے۔ ریاستی حکومت سپریم کورٹ کو کہہ چکی ہے کہ ای ڈبلیو ایس کوٹہ کے اندر مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے معاملے کو وہ فی الحال ٹھنڈے بستے میں ڈال رہی ہے، لیکن اس سے نہ تو لنگایت خوش ہیں اور نہ دلت۔ بی جے پی سے لنگایت لیڈروں کا ناطہ توڑنا اشارہ ہے کہ اس طبقہ کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ اُدھر کانگریس نے بھی یہ مطالبہ کر کے رہی سہی کسر پوری کر دی کہ ذات پر مبنی مردم شماری کر کے آبادی کے تناسب میں ریزرویشن دیا جائے۔ بھارت جوڑو یاترا کے دوران کرناٹک کے لوگوں پر مثبت اثر چھوڑنے کے بعد 16 اپریل کو کولار میں راہل گاندھی کی انتخابی ریلی نے کانگریس کی حالت کو مضبوطی دی ہے۔

ریاست کی انتخابی تاریخ بھی بی جے پی کے خلاف ہے۔ 1985 کے بعد سے کوئی بھی پارٹی لگاتار دوسری بار اقتدار میں نہیں آئی۔ 18-2013 کا معاملہ مستثنیٰ ہے، اس کو چھوڑ کر 2004 کے بعد کبھی بھی کسی تنہا پارٹی کو اکثریت نہیں ملی اور اتحادی حکومت بنی۔ 2018 کے انتخاب میں بھی بی جے پی اکثریت نہیں پا سکی تھی، لیکن اس نے کانگریس اور جنتا دل (ایس) کے اراکین اسمبلی کو خرید کر حکومت بنائی۔

جنتا دل (ایس) پر دیوگوڑا کنبہ کو بڑھاوا دینے کا الزام ہے اور وسیع کنبہ کے سات لوگوں کے انتخاب لڑنے کی بات کہی جا رہی ہے۔ وہیں عام آدمی پارٹی، سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا اور اسدالدین اویسی کی مجلس اتحادالمسلمین کے انتخابی میدان میں ہونے سے حالات کچھ دھندلے ہو رہے ہیں۔ اگر یہ پارٹیاں الگ الگ علاقوں میں سیندھ لگانے میں کامیاب ہوتی ہیں تو نتیجہ کیا ہوگا، اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔


اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کے نقصان کو برداشت کر چکی کانگریس کا پورا زور اپنی طاقت پر اکثریت کے نمبر تک پہنچنے کا ہے۔ کولار میں راہل گاندھی نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ بی جے پی کو ’آپریشن کمل‘ کو آگے بڑھانے کا موقع نہ دیں۔ راہل نے کہا کہ کانگریس کو اپنے وعدوں کو پورا کرنے اور مستحکم حکومت دینے کے لیے 224 میں سے کم از کم 150 سیٹوں کی ضرورت ہوگی۔ کانگریس لیڈر ڈی کے شیوکمار پارٹی کے 150 سیٹیں جیتنے کا پہلے ہی بھروسہ ظاہر کر چکے ہیں۔

پردیش کانگریس کمیٹی میں مواصلات و سوشل میڈیا چیف پریانک کھرگے کہتے ہیں کہ ’’ریزرویشن پر بی جے پی کو اپنے خطرناک قدم کا دفاع نہ کر پانا، بدعنوانی، مہنگائی، بھرتی گھوٹالہ، سرکاری اسامیوں کو نہیں بھرنا اور بی جے پی میں آپسی رنجش کا ہمیں فائدہ ملے گا۔‘‘ کھڑگے پولیس سَب انسپکٹر بھرتی گھوٹالے کو لے کر لگاتار بی جے پی حکوکمت پر حملہ آور رہے جس کی تحقیقات کرائم انوسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کر رہی ہے۔ کھڑگے کا دعویٰ ہے کہ ’پارٹی اجتماعی قیادت کے تحت انتخاب میں جا رہی ہے اور وہ 124 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہے گی۔‘‘

کانگریس ایم ایل سی اور پارٹی کے ترجمان ناگراج یادو کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے ہر وزیر کے دامن پر بدعنوانی کے داغ ہیں۔ کچھ اراکین اسمبلی جنھوں نے 2019 میں سابق وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپا کو حکومت بنانے میں مدد کرنے کے لیے کانگریس اور جنتا دل (ایس) سے استعفیٰ دے دیا تھا، وہ اب پچھتا رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، ان میں سے ایک اے ایچ وشوناتھ جنھوں نے جنتا دل (ایس) کو چھوڑا تھا، نے حال ہی میں معافی کے لیے ’پشچاتاپ ستیاگرہ‘ کیا۔

ناگراج کہتے ہیں کہ کانگریس کے ممبئی-کرناٹک علاقہ (چھ ضلعوں میں 40 سیٹیں) اور وسط کرناٹک (چار ضلعوں میں 26 سیٹیں) میں بہتر کرنے کی امید ہے جہاں سے بی جے پی بیشتر سیٹیں جیتتی رہی ہے۔ وسط کرناٹک میں لوک آیُکت پولیس کے ذریعہ بی جے پی رکن اسمبلی مدل وروپاکشپا کی رشوت کے الزام میں گرفتاری سے بی جے پی کے امکانات پر اثر پڑا ہے، جبکہ ممبئی-کرناٹک علاقے میں لنگایتوں اور پسماندہ طبقات میں ٹکراؤ ہے۔


بی جے پی کا اہم ووٹ بینک لنگایت طبقہ نئے ذات پر مبنی ریزرویشن سے ناخوش ہے۔ طبقہ نے خود کو کوٹہ کے 2 اے درجہ میں رکھے جانے کا مطالبہ کیا ہے جو انھیں تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں 15 فیصد ریزرویشن کا حقدار بناتا۔ حکومت نے حالانکہ انھیں ایک نئے درجہ 2 ڈی میں رکھا اور انھیں 7 فیصد ریزرویشن کی پیشکش کی۔ اب تک اعلان کردہ امیدواروں کی فہرست میں کانگریس نے زیادہ لنگایتوں کو شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے ایسی سوچ تھی کہ 1990 کی دہائی میں لنگایت لیڈر ویریندر پاٹل کو کانگریس اعلیٰ کمان کے ذریعہ وزیر اعلیٰ عہدہ سے الگ کرنے کی وجہ سے لنگایت طبقہ نے کانگریس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔

سی ایس ڈی ایس-لوک نیتی کے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ کرناٹک انتخابات میں پہلی بار ووٹ ڈالنے والوں کا بڑا کردار رہنے والا ہے۔ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 2008 میں بی جے پی کے ووٹ میں پہلی بار ووٹ ڈالنے والوں کا فیصد اس کے اوسط ووٹ فیصد سے تین نمبر زیادہ تھا۔ تب وہ اکثریت سے تین سیٹیں دور رہ گئی۔ انتخابی تجزیہ نگار سندیپ شاستری نے ایک مضمون میں کہا تھا کہ 2013 میں جب کانگریس جیتی، تو اس کے ووٹ میں پہلی بار ووٹ ڈالنے والوں کا فیصد اس کے اوسط سے ایک نمبر زیادہ رہا۔

غور کرنے والی بات ہے کہ 2018 میں بی جے پی 9 سیٹوں سے اکثریت سے پیچھے رہ گئی تھی اور تب پہلی بار ووٹ ڈالنے والوں کا فیصد اس کے اوسط ووٹ فیصد سے 6 نمبر کم تھا۔ 2013 اور 2018 کے انتخابات میں جے ڈی ایس کے حصے میں پہلی بار ووٹ ڈالنے والوں کا فیصد اس کے اوسط سے تقریباً 4 نمبر زیادہ رہا تھا۔ دونوں بار جے ڈی ایس کو خاص طور پر ایسے نوجوانوں کے ووٹ چھوٹے شہروں میں ملے جو غالباً دونوں اہم پارٹیوں کے تئیں نوجوانوں کی بڑھتی دوری کا اشارہ دے رہا تھا۔

اس مرتبہ ایک نیا ایشو امول-نندنی تنازعہ ہے۔ گجرات اور کرناٹک میں مضبوط ڈیری کوآپریٹو کمیٹیاں ہیں اور یہ سب سے بڑے ڈیری پروڈیوسر ریاستوں میں ہیں۔ امول او رنندنی کے پروڈکٹ ممبئی جیسے علاقوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے ہیں، لیکن وہ اب تک ایک دوسرے کے علاقوں میں دو دو ہاتھ کرنے سے بچتے رہے تھے۔ لیکن مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ، جو کوآپریٹو کے انچارج بھی ہیں، نے اعلان کیا کہ امول اور نندنی ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کریں گے اور یہ ایک سیاسی ایشو بن گیا۔ اسی درمیان امول نے بنگلورو میں اپنے برانڈیڈ دودھ اور دہی اتار کر کشمکش والی حالت میں اضافہ کر دیا۔ فضا میں ایسی باتیں تیر رہی ہیں کہ دونوں کا انضمام ہونے والا ہے اور اس سے کرناٹک کے ڈیری کسانوں اور کوآپریٹو کمیٹیوں میں اندیشے کا ماحول ہے۔ بازار میں نندنی کے دودھ اور دہی کی کمی نے بھی طرح طرح کے اندیشوں کو مضبوط کیا ہے۔ یہ بھی سوال گھمڑنے لگا ہے کہ کیا امت شاہ گجرات میں نندنی کو اپنے پروڈکٹ فروخت کرنے دیں گے؟ نندنی کے پروڈکٹ امول کے مقابلے میں بہت سستے ہوتے ہیں، کیونکہ انھیں ریاستی حکومت کی طرف سے سبسیڈی ملتی ہے۔ جہاں بی جے پی نے کانگریس پر ایڈمنسٹریٹو اور کمرشیل فیصلے کے سیاست کاری کا الزام لگایا ہے، وہیں کانگریس نے اسے کرناٹک کے وقار کو چوٹ پہنچانے والا معاملہ قرار دیا ہے۔ گاؤں میں اس کا اثر کیا ہوگا، کہنا مشکل ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کا یہ داؤ صحیح بیٹھا ہے۔


ہمیشہ کی طرح بی جے پی اس بار بھی وزیر اعظم نریندر مودی اور امت شاہ پر پوری طرح منحصر ہے۔ شاہراہوں اور ٹرین کے افتتاح سے لے کر آئی آئی ٹی میں پروگرام تک، وزیر اعظم 4 ماہ میں 9 مرتبہ ریاست آئے اور انھوں نے اپنے طریقہ کار کے مطابق ہی ان مواقع کا استعمال سیاسی پیغام دینے کے لیے کیا۔

5 کو انتخابی تشہیر ختم ہونے جا رہی ہے اور تب تک بی جے پی وزیر اعظم کی 20 ریلیوں کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کرناٹک گزیٹیر میں وزیر اعظم کے دورے پر کرناٹک حکومت نے جو خرچ کیے ہیں، اس کی تفصیل کافی کچھ کہتی ہے۔ گزیٹیر میں کہا گیا ہے کہ 12 مارچ کو دھارواڑ میں وزیر اعظم کی 110 منٹ کی یاترا پر 9.49 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ اسی طرح نئے ہوائی اڈہ اور دیگر پروجیکٹس کے افتتاح کے لیے 27 فروری کو شیوموگا کی ان کی یاترا پر 36.53 کروڑ روپے کا خرچ ہوا۔

وزیر اعظم اور فرقہ وارانہ پولرائزیشن (ٹیپو سلطان، حجاب، نماز، لو جہاد، گائے وغیرہ) بی جے پی کے لیے کتنے فائدہ مند رہنے والے ہیں، یہ دیکھنے والی بات ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔