کالکا جی اسمبلی حلقہ: الکا لامبا کے حق میں کام کر رہے کئی فیکٹر، پنجابی ہونے کا بھی ملے گا فائدہ!
کالکاجی کے لوگوں میں آتشی کو لے کر زیادہ غصہ نہیں ہے، لیکن وہ کیجریوال کے لئے کرسی خالی رکھنے والے واقعہ سے ناراض ہیں، اور ان کی نظر میں یہ خواتین اور خود آتشی کی توہین ہے۔

الکا لامبا، تصویر آئی اے این ایس
دہلی کی پہچان پہلے مہاجر پنجابیوں اور بنیا یعنی ویشیہ برادری سے کی جاتی تھی، کیونکہ ان دو طبقوں کی آبادی دہلی میں مقیم مجموعی آبادی میں زیادہ تھی۔ اس لئے سیاسی اور سماجی طور پر جو بھی فیصلے لئے جاتے تھے ان میں ان دو طبقات کو مدنظر رکھا جاتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے دہلی نے ترقی کی ویسے ویسے ہندوستان کے کئی صوبوں کے لوگ یہاں آئے۔ پیسہ کمانے کے لئے بڑی تعداد میں پورانچل کے لوگ دہلی پہنچے۔ پوروانچل یعنی مشرقی اتر پردیش اور بہار صوبے سے ہر طرح کے لوگ دہلی آئے۔ ان میں کئی طلبا تعلیم حاصل کرنے پہنچے، کئی لوگ سرکاری نوکریاں حاصل کرنے پہنچے، مزدور اور وہ اسکوٹر و رکشا چلانے والے بھی دہلی پہنچے۔ یعنی ڈیموگرافی بدلی اور دہلی جو پنجابی اور بنیوں کا شہر تصور کیا جاتا تھا، اس میں پوروانچل کے لوگوں کا دخل بڑھ گیا۔ حتیٰ کہ دہلی میں اب یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پوروانچل کے لوگوں کا دبدبہ ہے۔
کالکاجی اسمبلی حلقہ نے بھی اس دہلی کی ڈیموگرافی کو تبدیل ہوتے دیکھا، بلکہ اس کو شدت کے ساتھ محسوس بھی کیا۔ کالکا جی اسمبلی حلقہ سے ایک مرتبہ کو چھوڑ کر ہر مرتبہ اور ہر پارٹی سے پنجابی نے ہی نمائندگی کی ہے، چاہے وہ بی جے پی کی پورنیما سیٹھی ہوں، کانگریس کے سبھاش چوپڑا ہوں، شرومنی اکالی دل سے ہرمیت سنگھ ہوں یا عام آدمی پارٹی سے اوتار سنگھ ہوں۔ پچھلی مرتبہ عام آدمی پارٹی سے آتشی یہاں سے جیتیں جو اب وزیر اعلیٰ بھی ہیں۔ یعنی اس اسمبلی حلقہ میں پنجابیوں یا پوروانچلیوں کے ساتھ علاقہ کے غریب عوام مل جایئں تو امیدوار کی جیت یقینی ہے۔ اسی وجہ سے 1993 میں پہلی مرتبہ بی جے پی سے پورنیما سیٹھی ضرور جیتیں لیکن اس کے بعد سال 2013 کو چھوڑ کر یہ سیٹ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے پاس رہی ہے، جن کا ووٹر غریب اور پنجابی یا پوروانچلی رہا ہے۔
اس علاقہ میں ویسے تو اتراکھنڈ اور گوجر برادری کے لوگ بھی ہیں لیکن فیصلہ یہاں کے پنجابی، پوروانچلی اور غریب لوگ ہی کرتے ہیں۔ ایک دکان پر کھڑے کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس اسمبلی حلقہ میں ابھی تک ووٹر یہ طے نہیں کر پائے ہیں کہ کس پارٹی یا امیدوار کے حق میں اپنی رائے دیں۔ ان کا ماننا تھا کہ اس حلقہ سے تینوں پارٹیوں نے اپنے بہترین امیدوار دیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عام آدمی پارٹی نے دہلی کی وزیر اعلیٰ اتشی کو میدان میں اتارا ہے، بی جے پی نے اپنے سابق رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی پر داؤ لگایا ہے اور کانگریس نے اپنی خواتین کانگریس کی صدر، سابق رکن اسمبلی و سابق صدر ڈوسو الکا لامبا پر قسمت آزمائی ہے۔
ایک شخص نام نہ بتانے کی شرط پر کہتے ہیں کہ رمیش بدھوڑی تو ہار رہے ہیں۔ جب میں نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے ان کی شبیہ، جو ان کے متنازعہ بیانات کی وجہ سے بنی ہے، اس کو اصلی وجہ قرار دیا۔ جب ان سے یہ کہا گیا کہ ہو سکتا ہے بدھوڑی نے پرینکا کے خلاف بیان اس لئے دیا ہو کہ کانگریس جب اس پر رد عمل کا اظہار کرے گی تو وہ بھی کہیں دوڑ میں آئیں گی، جس کا فائدہ بی جے پی امیدوار کو ہوگا، تو جواب میں انہوں نے کہا کہ یہاں کی خواتین اس طرح کی سیاست کو پسند نہیں کرتیں اس لئے بی جے پی تو یہاں سے ہار رہی ہے۔
کالکاجی کے لوگوں میں آتشی کو لے کر زیادہ غصہ نہیں ہے، لیکن وہ کیجریوال کے لئے کرسی خالی رکھنے والے واقعہ سے ناراض ہیں، اور ان کی نظر میں یہ خواتین اور خود آتشی کی توہین ہے۔ اس حلقہ میں پچھلی مرتبہ عام آدمی پارٹی کی لہر اور ان کا تعلیم یافتہ خواتین ہونا ان کے حق میں گیا تھا۔ اس حلقہ کے لوگوں نے ابھی تک اچھے امیدواروں کو اسمبلی بھیجا ہے۔ اس مرتبہ خواتین کے علاوہ غریب عوام بھی عام آدمی پارٹی سے ناراض نظر آ رہی ہے۔
کانگریس امیدوار الکا لامبا کے حق میں بہت سے فیکٹر کام کرتے نظر آ رہے ہیں۔ دونوں مخالف سیاسی پارٹیوں کا یہ کہنا کہ کانگریس کی حکومت تو آ نہیں رہی اس لئے کانگریس کے حق میں ڈالا گیا لوگوں کا ووٹ بے کار جائے گا، اس سیٹ پر بے اثر دکھائی دے رہا ہے۔ کالکا جی میں لوگوں کا ماننا ہے کہ بی جے پی اور عآپ کا اس طرح سوچنا جلد بازی ہوگی، کیونکہ شیلا دکشت کے دور کی تعریف کرنا کانگریس کے حق میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس سیٹ سے کانگریس کے دعوے دار کھربندر سنگھ کیپٹن کا ماننا ہے کہ اس حلقہ سے الکا لامبا ایک ایسی امیدوار ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ دہلی کی خاتون ہیں۔
الکا لامبا جب شام کو گری نگر میں واقع شیو مندر کی دھرم شالہ پہنچی تو ان کو وہاں پہنچنے میں تاخیر ضرور ہوئی، لیکن وہاں پر خواتین ان کا انتظار کرتی رہیں جبکہ خواتین کے لئے شام کو اپنا گھر کا کام چھوڑ کر نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ ان خواتین کا وہاں بیٹھنا اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ لوگ شیلا دکشت کی قیادت والی کانگریس حکومت کو اب تک چاہتے ہیں۔ الکا لامبا نے اپنی مختصر تقریر میں جہاں راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ اور شیلا دکشت حکومت کا ذکر کیا وہیں اپنے بارے میں بھی بتایا۔ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران فون پر آتشی کا وہ بیان سنایا جو انہوں نے ایک ٹی وی شو میں دہلی کی شراب پالیسی کو لے کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آتشی تو اسی شراب پالیسی کو لانا چاہتی ہیں، کیا وہ لوگ بھی چاہتے ہیں؟ اس سوال کا عوام نے نفی میں جواب دیا۔ انہوں نے سکھوں سے خطاب کرتے ہوئے پنجابی میں بھی روانی سے بولا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ الکا لامبا کو دہلی کی پڑھی لکھی خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ پنجابی ہونے کا بھی فائدہ مل سکتا ہے۔ بی جے پی کو اپنا کیڈر ووٹ ملے گا، جو جیت کے لئے ناکافی ہوگا۔ دوسری طرف آتشی اور ان کی پارٹی سے عوام کی ناراضگی الکا لامبا کے حق میں جا سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔