جے پی نڈا خود کو ’امت شاہ‘ ثابت کرنے میں ہلکان!...اعظم شہاب

امت شاہ کے سپنوں کو ساکار کرنے کے بوجھ سے نڈا صاحب کے کندھے جھکے جارہے ہیں اور وہ ٹی ایم سی کے دھتکارے ہوئے چند ممبران اسمبلی کو اپنے غول میں شامل کرکے ممتا بنرجی کے کھیت کو چڑیوں سے چگا رہے ہیں۔

تصویر بشکریہ ٹوئٹر / @JPNadda
تصویر بشکریہ ٹوئٹر / @JPNadda
user

اعظم شہاب

معلوم نہیں مغربی بنگال میں بی جے پی کا ایسا کون سا پیچ اٹک گیا ہے کہ اس کی سوئی ’جئے شری رام‘ سے آگے بڑھ ہی نہیں پارہی ہے۔ پردھان سیوک سے لے کر وزیرداخلہ تک، بی جے پی کے قومی صدر سے لے کر ریاستی صدر تک اسی جئے شری رام میں ہی الجھے ہوئے ہیں اور اس پر یہ دعویٰ کہ ممتابنرجی کا خیمہ اکھاڑ پھیکیں گے، جس کے لیے بی جے پی کے ان تمام ’مہاپروشوں‘ نے کولکاتا میں ڈیرہ سا ڈال رکھا ہے۔ ایک صاحب ٹھیک سے واپس بھی نہیں آپاتے ہیں کہ دوسرے پہنچ جا رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے وہ پردھان سیوک جی جو پچھلے ڈھائی ماہ سے زیادہ دہلی کی سرحد تک پر نہیں پہنچ سکے، وہ بھی کولکاتا میں اپنی حاضری لگانے میں فکر میں غلطاں ہیں اور حاضری بھی کچھ اس طرح لگا رہے ہیں کہ کبھی خود کو گرودیو کا دوسرا اوتار قرار دے لے رہے ہیں تو کبھی سبھاش چندر بوس کا اصل جانشین۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ جہاں جہاں سے گزر رہے ہیں، اپنے پیچھے مذہبی منافرت کا ایسا زہریلا دھواں چھوڑ جا رہے ہیں جو پورے بنگال کو مسموم کیے دے رہا ہے۔

لیکن ہم ریاستی اسمبلی کے انتخابات کو مغربی بنگال سے بی جے پی کے اس والہانہ پیار کی وجہ قرار دینے کے بجائے اسے بنگال فتح کرنے کا وہ جنون قرار دینا زیادہ مناسب سمجھیں گے جس کا اظہار وہ 2014 سے کچھ زیادہ ہی جوش وخروش سے کر رہی ہے۔ کیونکہ بقول بی جے پی صدر کے ممتا دیدی نے محض مرکز سے پرخاش کی بنا پر دہلی سے ڈائریکٹ کولکاتا تک بہتی آرہی ترقی کی گنگا کو روک دیا ہے۔ اس ترقی کی گنگا کو اب یہ بھارت بھاگیہ ودھاتا لوگ دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں، مگر ممتا دیدی کی وجہ سے نہیں کر پارہے ہیں۔ ترقی کی یہ گنگا بالکل اسی طرح ہے جس طرح مدھیہ پردیش، ہریانہ یا کرناٹک میں بہہ رہی ہے کہ جب سے وہاں ہمارے ان ’سورماؤں‘ کی پارٹی کی سرکار بنی ہے، وہاں کے لوگوں کے وارے نیارے ہوچکے ہیں۔ وہاں کے تمام بیروزگاروں کو کام مل چکا ہے، مہنگائی دم توڑ رہی ہے اور کسانوں کا کیا پوچھنا، وہ تو اب اپنے گھروں میں آرام کر رہے ہیں۔


بی جے پی کو ’یاترا‘ سے بڑا پیار ہے۔ بی جے پی مارگ درشک منڈل کے ادھیکش جی نے بھی 1990 میں رام رتھ یاترا نکالی تھی جس کے نتیجے میں 1992 میں بابری مسجد شہید کردی گئی تھی۔ ان کی اس روایت پر بی جے پی بڑی ایمانداری سے اس لیے بھی عمل پیرا ہے کہ اسے ہر یاترا سے اسی متوقع کامیابی کا یقین ہوتا ہے جو رام رتھ یاترا سے حاصل ہوئی تھی۔ غالباً اسی امید پر جے پی نڈا صاحب نے بھی مالدا سے ’پریورتن یاترا‘ نکالی، جس میں انہوں نے ممتا بنرجی پر بنگال کے عوام کو سرکاری اسکیموں سے محروم رکھنے کا الزام عائد کیا اور یہ اعلان فرمایا کہ اگر بنگال میں بی جے پی اقتدار میں آئی تو ریاست میں تمام مرکزی اسکیموں کو نافذ کیا جائے گا، جس میں ’پردھان منتری کسان سمّان ندھی اسکیم‘ خاص طور سے شامل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن ریاستوں میں فی الوقت بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں ان اسکیموں کے نفاذ کی کیا صورتِ حال ہے؟ پردھان سیوک کو پروموٹ کرنے والی تمام اسکیموں کو چھوڑیئے، اگر صرف ’پردھان منتری کسان سمان ندھی اسکیم‘ کی ہی بات کریں اور وہ بھی بی جے پی کی آدرش ریاست اترپردیش کی، تو صورتِ حال یہ ہے کہ اپریل 2020 تک اس اسکیم کے تحت کل 21776351 لوگ اپنا اندراج کرواچکے تھے، لیکن جنہیں اس اسکیم کے تحت سالانہ 3 قسطوں میں 6000 روپیے ملے ان کی تعداد 1.78 کروڑ ہے، یعنی اگر کسی طرح کسان اپنا رجسٹریشن کرانے میں بھی کامیاب ہوجائیں تو اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ تمام لوگ اس سے مستفید بھی ہوسکیں گے۔

اب ذرا اس اسکیم کے تحت دیئے جانے والی رقم کی بات کریں تو یہ صاف طور پر یہ چغلی کھاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ یہ اسکیم کسانوں کو راحت دینے کے لیے کم بی جے پی کے ووٹ بینک میں اضافے کے لیے زیادہ ہے۔ اس اسکیم کے تحت ہر4 ماہ میں ایک مندرج اورمستحق کسان کو 2 ہزار روپیے دیئے جاتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کی ماہانہ پانچ سو روپیے۔ اب ایسے وقت میں جب یوریا کی ایک بوری ہی 6 سو روپیے میں آتی ہو بھلا حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے 5 سو روپیے کیا اہمیت رکھتی ہے؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی سرکار کے نزدیک کسانوں کی کیا اہمیت ہے۔ اس اسکیم کی وجہ تسمیہ اور اس کے اعلان کے سال بھر بعد ہی لائے گئے زرعی قوانین کی نوعیت پر اگر معمولی غور کرلیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے یہ اسکیم کسانوں کو سمّان دینے کے نہیں بلکہ زرعی قوانین کی راہ ہموار کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی، جس کا اثر بھی صاف طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔


جے پی نڈا صاحب کے ساتھ ایک دربھاگیہ (بدقسمتی) یہ بھی ہے کہ وہ خود کو امت شاہ ثابت کرنے میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں، جبکہ امت شاہ بھی بنگال اسمبلی پر زعفرانی پرچم لہرانے کے لیے سر پٹک چکے ہیں مگر اپنے ممبران اسمبلی کی تعداد میں کچھ اضافہ کے علاوہ اپنا ہدف پورا نہ کرسکے۔ اب امت شاہ کے سپنوں کو ساکار کرنے کے بوجھ سے نڈا صاحب کے کندھے جھکے جارہے ہیں اور نڈا صاحب ہیں کہ ٹی ایم سی کے دھتکارے ہوئے چند ممبران اسمبلی کو اپنے غول میں شامل کرکے ممتا بنرجی کے کھیت کو چڑیوں سے چگا رہے ہیں۔ خیر ہمارا دیش ایک جمہوری ملک ہے اور اتفاق سے ابھی تک سپنے دیکھنے پر پابندی نہیں عائد ہوئی ہے اس لیے نڈا صاحب بھی جو چاہیں سپنے دیکھیں اور گودی میڈیا کی زبان میں جس طرح چاہے گرجیں، وہ مکمل آزاد ہیں۔ لیکن اگر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ جئے شری رام کا نعرہ ان کی اور ان کی پارٹی کی نیا پار لگا دیگا تو یہ توقع کچھ زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ ہاں! اگر یہ نعرہ ممتا دیدی کو مشتعل کرکے انہیں رام ورودھی ثابت کرنے کے لیے ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے پردھان سیوک کے اجلاس کے بعد وہ ہوشیار ہوچکی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Feb 2021, 11:11 AM