آزمائشی دور میں جمعیۃ سدبھاؤنا سنسد!

شناخت کا بحران درحقیقت انسان کے وجود کے اندر ایک ایسی ڈھلمل یقین کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے وجود کا تشخص قائم رکھنے میں ناکام رہتا ہے۔

تصویر نواب علی اختر
تصویر نواب علی اختر
user

نواب علی اختر

خلافت کانفرنس میں شرکت کرنے والے 25 علماء کرام نے نومبر 1919 کو اتفاق رائے سے ملک کے مقتدرعلماء پر مشتمل جمعیة علماء ہند قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اپنے قیام سے لے کر آج تک جمعیة علماء نے وطن دوستی، قومی اتحاد، اسلام کی سرفرازی، مسلمانوں کے دینی و ملّی تشخص کے تحفظ کو جہاں اپنے لیے حرزِ جاں بنائے رکھا وہیں جدوجہد آزادی میں اس کے مہتم بالشان کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جمعیة نے تحریک ترک موالات میں پرزور انداز میں حصہ لیا، اس کے رہنماؤں کے برطانوی کونسلوں کی مقاطعہ کی تجویز منظور کرکے مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔

جمعیة نے فرقے وارانہ بنیادوں پر ملک کی تقسیم کی بھرپور مخالفت کی اور جب محمد علی جناح نے بیان دیا کہ ’قومیں مذہب سے بنتی ہیں‘ تو شیخ الہند مولانا محمود حسن کے ساتھ مالٹا میں اسیر رہے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے بھی، جو جمعیة علماء ہند کے صدر بھی تھے، یہ کہہ کر محمد جناح کے بیان کو جھٹلایا کہ ”نہیں، قومیں مذہب سے نہیں، وطن سے بنتی ہیں“۔ اب جمعیة علماء ہند کی وہ قیادت جو پہلے وطن عزیز پر قابض انگریزوں سے لڑی اور جس نے دو قومی نظریے کی سختی سے مخالفت کی تھی ،اب آزاد ہندوستان میں خون اور آگ کا کھیل کھیلنے والے فرقہ پرستوں کے خلاف فائر بریگیڈ کا رول انجام دے رہی ہے۔


جمعیة علماء اکثر پروگرام اور کانفرنسوں کے ذریعہ مسلمانوں کے تشخص، برادران وطن میں اتحاد، ملکی تاریخ کو قائم ودائم رکھنے کے لیے کوشاں نظر آتی ہے۔ اس کڑی میں حال ہی میں جمعیة علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی رہنمائی میں جمعیة سدبھاؤنا منچ کے تحت ملک بھر میں ’سد بھاؤنا سنسد‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں کلام اللہ کی مسحورکن تلاوت کے درمیان مختلف مکاتب فکر کے رہنماؤں نے شرکت کرکے آپس میں بغیر کسی منافرت کے مل جل کر زندگی گزارنے کا عہد کرتے ہوئے فرقہ واریت کا زہر پھیلانے والے شرپسندوں کی ٹولی کو وقت رہتے اپنی ملک دشمن حرکتوں سے باز آجانے کا سخت پیغام دیا۔

اس موقع پر دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں مختلف فرقوں اور مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان آپسی میل ملاپ کے ساتھ رہنے، ملک میں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائیوں کے درمیان ایک دوسرے کے تعلق سے پائی جانے والی منافرت کو ختم کرنے، اکثریتی طبقے اور سب سے بڑے اقلیتی طبقے کے درمیان قومی یکجہتی کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے ملک کے 100 سے زائد شہروں میں جمعیة سدبھاﺅنا سنسد کے عنوان سے پروگرام کئے گئے۔ جس میں تمام طبقات کے لوگوں نے شرکت کی اور آپس میں بغیر کسی منافرت کے مل جل کر زندگی گزارنے کا عہد کیا۔


ذہن نشین رہے کہ جمعیة علماء ہند اپنے آغاز سے ہی نفرت کے بجائے محبت کی داعی اور نقیب رہی ہے۔ وہ عوامی خدمت کو اپنا عوامی نصب العین بنائے ہوئے ہے۔ حق و انصاف کے لیے سینہ سپر ہو جانا اس کا شعار ہے اور اسی راستے پر وہ گامزن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے بعض لوگ جمعیة علماء ہند کی ہر بات سے اتفاق نہ کرتے ہوں لیکن یہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے اور قومی ذمہ داری بھی کہ ہم جس آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں اس میں ان چیزوں کی تائید کھلے دل سے کریں جو ہمارے نزدیک صحیح ہیں اوراس طرح کے اقدامات کرنے والوں کی حمایت اور معاونت کریں کیونکہ یہ ہمارے تشخص سے جڑا موضوع ہے۔

ہندوستان میں مسلمان عرصہ دراز سے اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ جیتے آئے ہیں لیکن افسوس گزشتہ کچھ سالوں میں جہاں مسلسل مسلمانوں پر منظم طور پر جانی و مالی حملے ہو رہے ہیں وہیں پیہم فکری و مذہبی طور پر بھی انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے ایسے میں یہ تو واضح ہے کہ جو لوگ شروع سے ہی مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور ان کا ہم و غم ہی یہی ہے کہ مسلمانوں کو ہراساں کیا جائے تو ظاہر ہے وہ اسی تگ و دو میں مشغول ہیں کہ کیا ایسا کچھ نیا کیا جا سکے کہ مسلمانوں کو مزید ہراساں کیا جائے۔ ان کی تو صبح شام ہی نفرتوں کا زہر پی کر سماج میں نفرتوں کا زہر گھولنے میں ہو رہی ہے لیکن ہمیں افسوس ان لوگوں پر ہے جو آج خود ہی ثقافتی و مذہبی جنگ میں دشمن کے محاذ پر اس کا ساتھ دے رہے ہیں اور ان کی ظاہری وضع قطع چیخ چیخ کر پکار رہی ہے کہ اسلام سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔


ان لوگوں کی وجہ سے ہی معاشرے میں بعض جوانوں کے لیے اپنے تشخص کے ساتھ جینے کا سوال پیدا ہو رہا ہے، وہ جوان جو اپنے اسلامی تشخص و اسلامی شناخت کے ساتھ جی رہے ہیں یقیناً خدا کے یہاں ان کا بڑا اجر ہے لیکن افسوس ان بہروپیے مسلمانوں پر ہے جو ذرا سے مفاد کی خاطر ہر ایک چیز کو اپنے پیروں تلے روندنے پر تلے ہیں جب کہ انہیں خود بھی پتہ ہے کہ انہیں مہروں کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے، ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے، جب کام ہو جائے گا تو انہیں دودھ کی مکھی کی طرح نکال دیا جائے گا۔ شناخت کا بحران درحقیقت انسان کے وجود کے اندر ایک ایسی ڈھلمل یقین کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے وجود کا تشخص قائم رکھنے میں ناکام رہتا ہے وہ ہوا کے رخ پر کبھی ادھر کبھی ادھر جاتا ہے اور کوئی بھی اسے اپنے مفاد میں استعمال کر لیتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔