’اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑتا‘

دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال ملک کے وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔ اگر آپ دیکھیں تو کیجریوال کے دل میں بہت سی حسرتیں جنم لے رہی ہیں۔

وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال / تصویر ٹوئٹر/ @AAPUttarPradesh
وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال / تصویر ٹوئٹر/ @AAPUttarPradesh
user

نواب علی اختر

26 نومبر 2012 کوعام آدمی پارٹی کے نام سے نئی سیاسی پارٹی قائم کرکے سابق بیورو کریٹ اروند کیجریوال نے سیاست میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی سب سے بڑا اور اہم وعدہ کیا تھا کہ وہ بدعنوانی کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ یہ وعدہ ویسے تو ہر شخص اور پارٹی کرتی ہے مگر اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ جب تک اپوزیشن میں ہوں تب تک ہی بدعنوانی کی مخالفت اچھی لگتی ہے مگر جیسے ہی اقتدارحاصل ہوتا ہے، بدعنوانی کے مسئلے پر گویا زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ کیجریوال کے ساتھ بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ کیجریوال حکومت میں صحت، پی ڈبلیو ڈی سمیت کئی ذمہ داریاں سنبھالنے والے ستیندرجین جیل میں ہین وہیں کیجریوال کے نائب منیش سسودیا کو شراب پالیسی میں بدعنوانی کے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔

اس صورتحال میں کیجریوال صاحب منیش سسودیا کا دفاع کرتے نہیں تھک رہے ہیں۔ حالانکہ خبریں کچھ اور ہی بیان کر رہی ہیں۔ بہرحال معاملہ جانچ ایجنسی کے دربار میں ہے لہٰذا ابھی پختہ طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ سیاسی ماہرین کی بات پر یقین کریں توعام آدمی اب خاص ہونا چاہتا ہے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال ملک کے وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔ اگر آپ دیکھیں تو کیجریوال کے دل میں بہت سی حسرتیں جنم لے رہی ہیں۔ ایک طرف وہ ملک میں عام آدمی پارٹی کی وسیع سلطنت کا خواب دیکھ رہے ہیں تو دوسری طرف خود کو ملک کا وزیر اعظم کے عہدے پر قابض ہونے کا۔ اپنی انہیں حسرتوں کو پورا کرنے کے لیے وہ گوا، گجرات، اتراکھنڈ، ہماچل وغیرہ جیسی کئی ریاستوں میں زور آزمائش میں لگے ہوئے ہیں۔


پنجاب میں دو کوششوں کے بعد اقتدار نصیب ہونے پر تو ان کی حسرتیں نئی پرواز لے رہی ہیں۔ حالانکہ خود پر اور ان کے ساتھیوں پرلگ رہے ہر قسم کے الزامات اور جوابی الزامات نے ان کے اڑتے پرندے کی دُم دبا رکھی ہے پھر بھی ان کی کوششیں جاری ہیں۔ بہر حال کیجریوال کے دل میں وزیر اعظم کی گدّی کی گُد گُدی ہوتی ہے، اس کی تصدیق کے لیے دوباتوں پرغور کرنے کی ضرورت ہے جنہیں اگر ٹھیک سے سمجھ لیا توساری خوش فہمی دور ہو جائے گی۔ پہلا کیجریوال کے دایاں ہاتھ منیش سسودیا کا بیان ہے اور دوسرا، کیجریوال کے اپنے بیان کے مضمرات ہیں۔ آئیے ہم دونوں کے بیانات کو قدرے مخالف ترتیب میں لیتے ہیں۔ پہلے کیجریوال کے بیان کو لیتے ہیں جس میں وہ کہتے رہے ہیں کہ میرا ابھی وزیراعظم بننے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

یہاں لفظ ’ابھی‘ پرغور کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں وزیر اعظم نہیں بننا چاہتا۔ انہوں نے کہا ’ابھی‘ نہیں۔ ابھی نہیں کا مطلب ’کبھی نہیں‘ نہیں ہے۔ یعنی وہ کبھی نہ کبھی ضرور بننا چاہتے ہیں۔ اب سیاسی ماہرین کہیں گے کہ جو سیاست میں آیا ہے، وہ کبھی نہ کبھی بلندی پر پہنچنے کی خواہش/ حسرت لے کر ہی آتا ہے۔ اس میں نیا کیا ہے؟ ٹھیک ہے بھئی، اگر کیجریوال کو جب بننا ہی ہے اور سب کو جب گھما پھرا کر یہ پیغام پاس کروا بھی رہے ہیں تو پھر اتنا ڈرامہ کیوں؟ خاص طور پر جب اپوزیشن اتحاد کے حامی بہت سے دوسرے لوگ بھی اپنے دعوے مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’پہلے وار کرے تو ویر‘ کے اصول کے مطابق جتنی جلدی ہو اپنے ارادے صاف کر دینا اچھا رہتا ہے، ورنہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں والا معاملہ بھی اکثر ہوجاتا ہے۔


وہیں دوسری طرف گزشتہ کئی دنوں سے تنازعات میں پھنسے دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ نے ایک میڈیا بیان میں کہہ ہی دیا کہ اگلا الیکشن مودی بمقابلہ کیجریوال ہوگا۔ یہ سن کر تو کسی کے ذہن میں باقی شکوک بھی دور ہو جانا چاہئیں۔ کیجریوال کے دماغ میں وزیراعظم بننے کے بلبلے تو اٹھ رہے ہیں، جسے منیش سسودیا کے بیان نے بالکل واضح کر دیا ہے۔ جبکہ کیجریوال کہتے رہے ہیں کہ نہیں، میرا تو ابھی ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ سسودیا نے صاف کہہ دیا کہ 2024 کا لوک سبھا الیکشن مودی بمقابلہ کیجریوال ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔ لوگ اب کیجریوال کو لانا چاہتے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ بیان کسی اور کا نہیں بلکہ کیجریوال کے سب سے خاص منیش سسودیا کا ہے۔ اب سب سے خاص آدمی عوامی طور پر تب ہی کچھ کہے گا جب اس معاملے پر ان کی آپس میں بات ہو گئی ہو۔

کیجریوال جی کا بھولا پن بھی لاجواب ہے۔ موجودہ وقت میں بی جے پی کی ’بی‘ ٹیم کہلانے والی عام آدمی پارٹی کے سربراہ کیجریوال 2013 میں جس کانگریس پارٹی کی حمایت سے دہلی میں پہلی بار وزیراعلیٰ بنے تھے، اسی کانگریس کو اب خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہیں۔ کیجریوال کی سرگرمیوں سے صاف نظر آرہا ہے کہ کانگریس جہاں جہاں بی جے پی کو بھگانے کی پوزیشن میں ہے وہاں کیجریوال صاحب پہنچ کر بڑی ہوشیاری سے بی جے پی کی مدد کرتے ہیں اور ووٹ تقسیم کا ماحول بنا کر اسی بی جے پی کو اقتدار سونپنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جس کو وہ اپنا حریف بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عام آدمی کے لیے کیجریوال کی اس سیاست کو سمجھنا آسان نہیں ہے دراصل وہ سیکولرزم کے خلاف فرقہ پرستوں کے لیے کام کر رہے ہیں، ان کے قول وفعل میں واضح فرق نظر آرہا ہے۔


دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اروند کیجریوال عام آدمی کو دھوکہ دے کر بی جے پی کی نظر میں خاص آدمی بننے کے لیے بے قرار ہیں۔ ورنہ پہلی بار وزیر اعلیٰ بننے میں مدد کرنے والی ملک کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس پر اپنے حریف کو ترجیح دینے میں کچھ تو شرم محسوس کرتے۔ کیجریوال کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ حسرتیں پوری کرنے کے لیے کردار کا غازی بننا پڑے گا اور اس کے لیے انہیں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہاں ملک میں جہاں درجنوں علاقائی پارٹیاں اپنی خواہشات کے مطابق سیاست کر رہی ہیں، عام آدمی پارٹی بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کیجریوال کو اگر سیاسی میدان میں لمبی پارٹی کھیلنا ہے تو حقیقی سیکولرزم اختیار کرلیں ورنہ ان کے لیے یہی کہا جائے گا کہ ’اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑتا‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */