مولانا آزاد جیسی عبقری شخصیت کا دوبارہ پیدا ہونا محال ہے، برسی کے موقع پر خاص مضمون...سہیل انجم

مولانا کے بارے میں لوگوں کی یہ رائے ہے کہ وہ اگر سیاست میں نہ آئے ہوتے اور صرف علمی کاموں کو ہی اپنی مشغولیت بناتے تو وہ اپنے عہد کے امام ابن تیمیہ ہوتے

مولانا ابو الکلام آزاد
مولانا ابو الکلام آزاد
user

سہیل انجم

مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ ان کو ایک مضمون میں سمیٹنا آسان نہیں۔ لیکن پھر بھی ان کی ذات کو موٹے طور پر دو خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک سیاسی اور دوسرا غیر سیاسی یا علمی۔ سیاسی پہلو کو دیکھیں تو وہ مجاہد آزادی تھے، اسیرِ زنداں تھے، کانگریس کے صدر تھے، تحریک خلافت کے قائد تھے۔ ان میں اور پنڈت جواہرلعل نہرو میں بڑی ذہنی مماثلت تھی۔ انھیں 1923 میں جبکہ وہ محض 35 سال کے تھے، انڈین نیشنل کانگریس کا صدر بنایا گیا۔ وہ کانگریس کے سب سے کم عمر صدر تھے۔ پنڈت نہرو ان کی رائے کی ایسی قدر کرتے تھے کہ اس سے انحراف کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا۔ وہ خلافت تحریک کے دوران مہاتما گاندھی کے رابطے میں آئے۔ وہ ان کے فلسفۂ عدم تشدد، تحریک عدم تعادن اور سودیشی مصنوعات کے فروغ کے نظریے کے ایک مضبوط طرفدار تھے۔

وہ ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار اور تقسیم ملک یا قیام پاکستان کے سخت مخالف تھے۔ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ اگر آسمان سے فرشتہ اتر کر آئے اور کہے کہ تم ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہو جاؤ تو ابھی آزادی مل جائے گی، تو میں کہوں گا کہ مجھے ایسی آزادی نہیں چاہیے۔ انھوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کرتے ہوئے جن اندیشوں کا اظہار کیا تھا وہ آج حرف بحرف درست ثابت ہو رہے ہیں۔ انھوں نے دہلی کی جامع مسجد کے میناروں کی دہائی دیتے ہوئے اس کے صحن میں پاکستان جانے والے مسلمانوں سے واپس آنے اور اپنی سرزمین اور یہاں اپنے اسلاف کی وراثت کو نہ چھوڑنے کی بار بار اپیل کی تھی۔


مولانا آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔ بحیثیت وزیر تعلیم انھوں نے جو خدمات انجام دیں وہ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ انھوں نے پورے ملک میں اسکولوں اور کالجوں کا جال بچھایا۔ انھوں نے پہلی بار تعلیم نسواں اور تعلیم بالغاں کا تصور پیش کیا۔ انھوں نے تکنیکی تعلیم کے فروغ کے لیے آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن کا قیام کیا۔ صنعت و حرفت کی تعلیم کو بڑھاوا دینے کے لیے انھوں نے کئی ادارے بنائے۔ انھوں نے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم فراہم کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف ہائر سکنڈری کھڑک پور کا قیام کیا۔ انھوں نے سائنسی علوم کو پروان چڑھانے کے لیے سائنسی تعلیمی ادارے بنائے۔

انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور یونیورسٹیوں یا دانش گاہوں کے نظم و ضبط کو بہتر بنانے اور علمی فروغ میں مالی معاونت کے لیے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن یا یو جی سی قائم کیا جو آج اعلیٰ تعلیم کے میدان میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ مولانا آزاد ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو بھی پروان چڑھانے اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کا خواب دیکھا کرتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے ساہتیہ اکادمی اور للت کلا اکادمی جیسے باوقار اداروں کی بنیاد ڈالی۔ انھوں نے ہندوستانی ثقافت کو عالم عرب میں روشناس کرانے کے لیے مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کی ادارت میں ’’ثقافت الہند‘‘ نامی عربی مجلے کا اجرا کیا۔


مولانا آزاد کی شخصیت کا علمی پہلو تو اتنا روشن اور جلی ہے کہ بصیرت و بصارت سے محروم شخص بھی اس کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ عہد طفلی ہی میں ان کی لیاقت و صلاحیت کے جوہر کھل گئے تھے۔ شروع شروع میں ان کو شعر گوئی سے بھی شغف ہوا لیکن جلد ہی انھوں نے مشق سخن کو ترک کر دیا۔ حالانکہ اس کم عمری میں بھی انھوں نے جس اعلیٰ معیار کی شاعری کی ویسی شاعری بہت سے لوگ پوری عمر گزار دینے کے باوجود نہیں کر پاتے۔ مثال کے طور پر اسی شعر کو لیجیے کہ: آزاد بیخودی کے نشیب و فراز دیکھ، پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی۔ ایسے بے شمار اشعار انھوں نے کہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا شعر گوئی کا مشغلہ ترک کرنا شاعری کی دنیا کا ایک بڑا خسارہ ہے۔

مولانا آزاد مفسر قرآن بھی تھے۔ ان کے ترجمان القرآن سے کون واقف نہیں۔ حالانکہ قرآن کا ان کا ترجمہ نامکمل رہ گیا تھا۔ اس عہد کے ایک بڑے ادیب مالک رام نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ جب میں نے مولانا آزاد کا ترجمان القرآن دیکھا تو وہ اب تک کے تمام ترجموں سے بالکل مختلف نظر آیا۔ اس وقت تک میں نے متعدد ترجمے پڑھے تھے لیکن جو ندرت اس میں تھی وہ کسی اور میں نظر نہیں آئی۔ مولانا کے بارے میں لوگوں کی یہ رائے ہے کہ وہ اگر سیاست میں نہ آئے ہوتے اور صرف علمی کاموں کو ہی اپنی مشغولیت بناتے تو وہ اپنے عہد کے امام ابن تیمیہ ہوتے۔ اس کے باوجود ان کی جو علمی شخصیت تھی وہ بڑی عبقری تھی اور اس عہد میں کیا اس کے بعد بھی ان کا مد مقابل پیدا نہیں ہو سکا۔


مولاناآزاد ایک صحافی بھی تھے۔ انھوں نے 1903 میں جبکہ وہ صرف پندرہ سال کے تھے، ماہنامہ ’’لسان الصدق‘‘ نکالا۔ اس کی زبان، اس کا آہنگ اور اس کے عالمانہ مضـامین کو پڑھ کر لوگوں نے انھیں کوئی بزرگ اور معمر صحافی سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب انھوں نے مولانا شبلی نعمانی سے ملاقات کی اور بتایا کہ وہ ابوالکلام آزاد ہیں تو ان کو یقین نہیں آیا۔ انھوں نے ان کو ابوالکلام آزاد کا بیٹا سمجھا۔ اسی طرح مولانا محمد سلیم پانی پتی نے جب انھیں دیکھا تو دیکھتے رہ گئے۔ مولانا حالی سے جب ان کے بارے میں پہلی ملاقات میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ابھی بہت کمسن ہیں۔ انھیں یہ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہی لسان الصدق کے ایڈیٹر ابوالکلام آزاد ہیں۔

اس سے قبل محض گیارہ سال کی عمر میں وہ نیرنگ عالم او رالمصباح نامی رسائل نکال چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود جب انھوں نے الہلال نامی اخبار نکالنے کا خواب دیکھا تو اس سے پہلے انھوں نے کئی برسوں تک متعدد اخبارات و رسائل میں کام کیا۔ جن میں ندوۃ العلما کے جریدے ’’الندوہ‘‘ اور امرتسر کے اخبار ’’وکیل‘‘ قابل ذکر ہیں۔ جب 13جولائی 1912 کو الہلال کا پہلا شمارہ نکلا تو علمی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اس کی زبان و بیان اور مقالات کے معیار کو دیکھ کر دنیا دنگ رہ گئی۔ انگریزی حکومت بھی لرزہ براندام ہو گئی اور اس کی ضمانت ضبط کر لی۔ بہرحال مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے وہ کئی سال تک نکلتا رہا۔ بعد میں اس کی جگہ پر انھوں نے البلاغ کے نام سے اخبار نکالا۔ لیکن پھر دوبارہ الہلال جاری ہوا۔


اخبار الہلال ایک انقلابی معجزہ تھا۔ لیکن وہ ہندوستانی مسلمانو ںکے خواص کی آواز تھا عوام کی نہیں۔ اس نے مخصوص طبقات کے دلوں میں موجود جذبۂ حریت کی چنگاری کو شعلہ بنایا ۔ الہلال کی زبان عوامی نہیں تھی۔ اس کا لب و لہجہ ایک ایسے داعی کا لب و لہجہ تھا جو قرآن کا ہے۔ الہلال نے معاصر رہنماؤں کو بھی متاثر کیا اور بزرگوں سے بھی اس طرح ہم کلام ہوا کہ وہ سوتے سوتے جاگ اٹھے۔ ہندوستان میں اس وقت کی مسلم قیادت کا کم از کم نصف حصہ ’’الہلال‘‘ ہی کی دعوت کا مرہون منت تھا۔

مولانا آزاد اور ان کے اخبار کو ممتاز اہل سیاست اور اہل علم نے بھرپور خراج تحسین پیش کیا ہے۔ سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان کہا کرتے تھے کہ میں الہلال کے مطالعے کے سبب خارزارِ سیاست میں داخل ہوا۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کہتے تھے کہ سیاست کا چسکہ مجھے الہلال نے ڈالا۔ علامہ انور شاہ کشمیری کے مطابق ابوالکلام نے الہلال کا صور پھونک کر ہم سب کو جگایا ۔ قاضی عبد الغفار کا طرزِ تحریر اپنا تھا لیکن حسنِ تحریر الہلال کا تھا۔ اپنے دور کے عظیم خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا اعتراف ہے کہ الہلال نے مجھے خطابت سکھائی، سیاست پڑھائی اور زبان و بیان کی ندرت بخشی۔


مولانا آزاد نے بے شمار تصنیفات چھوڑی ہیں جن میں مذہبی نوعیت کی بھی ہیں، سیاسی نوعیت کی بھی ہیں اور علمی و ادبی نوعیت کی بھی ہیں۔ انھوں نے تذکرہ کے نام سے اپنے خاندان کی جو تاریخ لکھی ہے وہ بے شمار خوبیوں سے مزین ہے۔ انھوں نے غبار خاطر کے نام سے خطوط کا جو مجموعہ تصنیف کیا ہے وہ ادبی دنیا کا شاہکار ہے۔ ان کی تصنیفی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ چند جملوں میں اس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ جہاں تحریر کے بادشاہ تھے وہیں تقریر کے بھی تھے۔ وہ جب خطابت کے دریا بہاتے تو ایک عالم محو گوش ہو جاتا۔

مولانا آزاد کی شخصیت کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے اور کس کس کو چھوڑا جائے۔ ویسا عبقری شخص ماضی قریب میں نہ پیدا ہوا اور نہ ہی مستقبل قریب میں پیدا ہونے کی کوئی امید ہے۔ لیکن وائے افسوس کہ اب لوگ ان کو بھی فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کی زبان پر بڑی مشکل سے ان کا نام آتا ہے۔ نئی دہلی کے آئی ٹی او کے علاقے میں آزاد بھون میں ان کی یادگار کے طور پر ’’گوشۂ آزاد‘‘ کے نام سے جو گوشہ قائم کیا گیا تھا وہ اب بند کر دیا گیا ہے۔ وہاں گرد و غبار نے قبضہ جما لیا ہے۔ حالانکہ ان کے یوم پیدائش کو یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا جاتا ہے لیکن یہ فیصلہ بھی ان کی وفات دہائیوں بعد 2008 میں کیا گیا۔ کاش مولانا آزاد کو ان کے شایان شان خراج عقیدت پیش کیا جاتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔