یہ امیٹھی ہے، سب یاد رکھتی ہے... ناگیندر

راہل گاندھی کے اچانک رائے بریلی چلے جانے سے جو مباحثے اور بیان بازیاں شروع ہوئی تھیں، امیٹھی ان سب کو درکنار کر ان کے سپہ سالار کے ذریعہ ہی اسمرتی ایرانی کو نمٹانے کا ارادہ بنا چکی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر @INCIndia</p></div>

تصویر @INCIndia

user

ناگیندر

چُپّا ووٹر (خاموش ووٹر) کیا ہوتا ہے، یہ سمجھنا ہو تو ان دنوں امیٹھی سب سے مناسب علاقہ ہے۔ سب سے موافق انتخابی حلقہ۔ کہیں بھی نکل جائیے، بہت کچھ سمجھ میں آ جائے گا۔ ہاں، کچھ ہے جو سمجھنا پڑے گا۔ یہ سمجھنے کے لیے بس آپ کو ایک سمجھداری دکھانی ہوگی۔ لوگوں سے بات کرتے وقت آپ ان کی باتیں کاغذ پر قلم سے اتارنے نہ لگیں، یا آپ کے ہاتھ میں کوئی ’خبریا مائک آئی ڈی‘ نہ ہو۔ یعنی آپ صحافی کے خول میں نہ ہوں! اگر ہوں بھی تو کچھ دیر کے لیے یہ خول اتار دیں۔ لوگوں کے درمیان گھل مل جائیں۔ ان کے درمیان تھوڑا فرصتیا اناز میں بیٹھیں اور بتیائیں۔

یہ عجیب نہیں ہے کہ تلوئی میں ایک چائے خانہ پر کھلی بحث چل رہی ہے اور اپنے اپنے خم ٹھونکے جا رہے ہیں۔ لیکن آپ کو، یعنی کسی نو وارد کو دیکھتے ہی بات چیت تھوڑا ٹھہر جاتی ہے۔ آپ کسی مقامی بندے کے ساتھ ہیں، تو تھوڑی ہی دیر میں وہ ٹھہراؤ ختم ہو جاتا ہے... ’’اسمرتی دیدی غلطی کئی دیہن... اتنا ناہیں بولے کا رہا۔‘‘ اشارہ اسمرتی ایرانی کے بڑبولے بیانات کی طرف ہے اور ان سے زیادہ ان کے کچھ خاص ’چنٹوؤں‘ کی طرف جو ’باہر والے‘ (ان کے مطابق) ہیں اور امیٹھی کا من مزاج سمجھ نہیں پائے۔ اودھیش کہتے ہیں ’’امیٹھی گھمائی کے مارت ہے اور پتو ناہیں چلے دیت۔‘‘ (امیٹھی یاد رکھتی ہے اور موقع دیکھ کے ایسا مارتی ہے کہ احساس تب ہوتا ہے جب سامنے والا چِت ہو جاتا ہے۔) ٹھیک ٹھیک طے کر پانا مشکل ہے کہ یہ بی جے پی کے حامی ہیں اور شاید ناراض یا ہوش میں آنے کی حالت میں ہیں، یا پھر فینس کے اِدھر اور اُدھر کے درمیان والے لوگ۔ کیونکہ یہ امیٹھی ہے اور یہاں ایسے لوگ آپ کو کہیں بھی مل سکتے ہیں جو زندہ باد کسی کی کر رہے ہوں گے، ووٹ کسی اور کو دینے کا ذہن تیار کر چکے ہوں گے۔


راہل گاندھی میدان چھوڑ گئے، اسمرتی ایرانی کے لیے کھلّا چھوڑ دیا، کیسا لگ رہا ہے؟ سامنے والے حضرت گھور کے دیکھتے ہیں اور بدبدا کے بولتے ہیں ’’اب انہُن کو سنبھارو۔‘‘ یہ امیٹھی کا جانا پہچانا انداز ہے۔ امیٹھی طنز میں ایسے ہی بولتی ہے۔ زیادہ پوچھنے پر بولتے ہیں ’’اس بار سارا حساب کتاب برابر ہو جائے گا۔ یہاں سے بھی راہل ہی جیتیں گے اور بمپر ووٹ سے۔‘‘ لیکن راہل گاندھی تو رائے بریلی چلے گئے، یہاں تو کوئی کشوری لال شرما لڑ رہے ہیں! کہنے پر بولتے ہیں ’’وہ کوئی کشوری لال شرما نہیں، انکیری عمر ڈھل گئی امیٹھی ما چناؤ لڑت-لڑاوت۔ گھر گھر میں گھسے ہوئے ہیں۔ دیکھت جاؤ، اسمرتی ایرانی کے لیے وہی بھاری ہیں۔ یہ بات اسمرتی ایرانی بھی سمجھ رہی ہیں۔‘‘ ان کے بغل میں کھڑے حضرت بول اٹھتے ہیں، ’’امیٹھی ای دفعہ بدلا بھی لیئی اؤر پشچاتاپو (راہل گاندھی کو شکست دینے کا کفارہ) کری۔‘‘

دراصل راہل گاندھی کے اچانک رائے بریلی چلے جانے سے جو مباحثے اور بیان بازیاں شروع ہوئی تھیں، امیٹھی ان سب کو درکنار کر ان کے سپہ سالار کے ذریعہ ہی اسمرتی ایرانی کو نمٹانے کا ارادہ بنا چکی ہے۔ یوں ہی چلتے چلتے بات چیت میں ایک پروفیسر کہتے ہیں ’’امیٹھی میں شرما جی کے جتنے احسان ہیں، جتنے بھی لوگوں پر احسان ہیں، وہی لوگ صرف اپنا قرض (احسان کا بدلہ) چکا دیں تو کشوری لال شرما ڈھائی سے تین لاکھ ووٹ سے جیت جائیں گے۔‘‘ حالانکہ اس میں کتنی خوش فہمی ہے اور کتنا سچ، یہ امیٹھی کی عوام ہی جانتی ہوگی۔


کانگریس سے منسلک ایک شخص سے بات ہوئی تو ساتھی کے مقامی ہونے کی وجہ سے تھوڑا کھل گئے۔ بولے ’’راہل جی پچھلی بار ایسے ہی نہیں ہار گئے۔ کوئی وجہ نہیں تھا، لیکن کچھ ہمارا ضرورت سے زیادہ اعتماد، کچھ اسمرتی ایرانی کا لگاتار (2014 کی شکست کے بعد بھی) علاقہ میں سرگرم رہنا... لوگوں کے دماغ میں آیا ہی نہیں کہ راہل جی ہار بھی سکتے ہیں۔ کچھ اور بھی اسباب رہے۔ ’وہ لوگ‘ پیسہ لٹا رہے تھے اور کانگریس کا پیسہ کارکنان تک پہنچا ہی نہیں۔ اس میں کئی سطحوں پر غلطیاں ہوئیں۔‘‘ وہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتے۔ ہم سے اس لیے بھی بات کر لی کہ بھروسہ تھا، ہم صحافی نہیں ہیں۔

فی الحال امیٹھی میں جو نظر آ رہا ہے کہیں بہت جوش ہے، کہیں بالکل خاموشی۔ پروفیسر کے الفاظ میں ’’ایہاں تو مُردنی چھائی ہوئی ہے، ایسا کیوں!‘‘ بی جے پی امیدوار اسمرتی ایرانی کے الیکشن دفتر کو دیکھ کر وہ بولے۔ وہاں محض 30-25 لوگ موجود تھے اور کسی کی بھی آمد سے بے خبر یا کہہ لیں نظر انداز۔ گوری گنج میں اسمرتی ایرانی کے مقامی گھر کے باہر بھی دن کے 11 بجے سناٹا نظر آیا۔ پتہ چلا کہ دیدی بارہ بجے کے بعد ہی نکلتی ہیں۔ کے ایل شرما کے الیکشن دفتر میں ٹھیک ٹھاک گہما گہمی ہے۔ 150 لوگ تو ہوں گے ہی، پوری ہلچل کے ساتھ۔ ان میں ہر عمر کی خواتین بھی ہیں، نوجوان بھی۔ کچھ الگ قسم کا جوش نظر آ رہا ہے۔


اسمرتی ایرانی سے ایسی بے رخی کیوں؟ ایک نوجوان کا جواب تھا ’’کوئی بے رخی نہیں، بے رخی تو انھوں نے دکھائی۔ پچھلی بار لگتا تھا ان سے اچھا کوئی نہیں، اس بار (جیتنے کے بعد) وہ سیدھے منھ بات ہی نہیں کرتی تھیں۔ ان کے ’کیئر ٹیکر‘ تو اور بھی بے انداز نکلے۔ میڈیا سے لے کر کارکنان تک سب ناراض ہیں۔ ہاں، خواتین اب بھی دیدی-دیدی کرتی ہیں (لیکن کتنی خواتین؟ بغل سے آواز آتی ہے– پرینکا دیدی نے سب برابر کر دیا)۔‘‘

مسافر خانہ کے ایک ہوٹل میں چل رہے مباحث کے درمیان سے کسی پنڈت جی کے حوالے سے گورو بتاتے ہیں کہ ’’ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ ہر انتخاب میں بی جے پی کو ووٹ دیتے آئے ہیں، لیکن اس بار نہیں دیں گے۔ اس کے لیے انھوں نے امیٹھی پارلیمانی حلقہ کی تاریخ کھول کر سامنے رکھ دی۔ بتایا کہ یہاں سے غیر گاندھی فیملی کا کوئی شخص دو بار کبھی انتخاب نہیں جیتا۔‘‘ گورو یاد دلاتے ہیں ’’1977 میں رویندر پرتاپ سنگھ سے لے کر سنجے سنگھ یا گاندھی فیملی کے قریبی کیپٹن ستیش شرما ہی کیوں نہ ہوں، دوبارہ کوئی نہیں جیتا۔‘‘ اب اس تاریخ پر غور کریں یا امیٹھی کی تازہ ہوا پر، طے کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ حقیقی جانکاری اور اس بات کی تصدیق تو 4 جون کو نتائج آنے کے بعد ہی ہو سکے گی۔


نتائج جو بھی ہوں، کے ایل شرما کا پرانا چہرہ، لوگوں کے درمیان ان کی مقبولیت کا مستقل جذبہ، 2014 سے 2019 کے درمیان امیٹھی کو دکھائی گئی امید اور 2019 سے 2024 کے درمیان ملی وہ نام نہاد ناامیدی امیٹھی میں اس وقت موضوع بحث ہے۔ سب سے زیادہ تو سنجے گاندھی کے نام پر بنے یہاں کے سب سے اہم اسپتال کو ایک معمولی تنازعہ کے بعد بند کرانے کا فیصلہ (جو عدالت کے حکم سے کھلا) لوگوں کی زبان پر ہے، جسے لوگ امیٹھی سے دیگر کئی سہولیات کے چھین لیے جانے جیسی سازش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہاں کی تقریباً 30 فیصد دلت آبادی اور ووٹرس میں ’آئین‘ سے پہلے ’بابا صاحب‘ کا ایشو تیر رہا ہے، جو اب ان کے وقار سے جڑ چکا ہے۔ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ٹھاکروں کے درمیان سے تازہ اٹھی ناراض ہوا بھی یہاں پہنچی ہوئی ہے۔ امیٹھی کے مباحث میں تازہ معاملہ سماجوادی پارٹی سے چھِٹکی نظر آ رہی سماجوادی پارٹی رکن اسمبلی اور سزا یافتہ سابق وزیر گایتری پرجاپتی کی بیوی مہاراجی پرجاپتی کے کنبہ کا گھورہا (بھادر) میں اسمرتی ایرانی کے اسٹیج پر آ کر ان کے لیے ووٹ مانگنے کا ہے۔ مہاراجی وہی رکن اسمبلی ہیں جنھوں نے پارٹی وہپ کو درکنار کر بیماری کے بہانے سے راجیہ سبھا انتخاب میں ووٹنگ سے خود کو الگ رکھا تھا۔ حالانکہ سبھی مانتے ہیں کہ مہاراجی ابھی تک کہیں بھی انتخابی موسم میں خود نہیں دکھائی دی ہیں، لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ طویل وقت سے جیل میں بند گایتری پرجاپتی کے درد سے اٹھ رہا کرب اور باہر آنے کی بے چینی بھی تو سمجھی جانی چاہیے۔

فی الحال اتنے ہی بتائے گئے نام سے اطمینان کریں تو ’ٹھاکر صاحب‘ کا کہنا ہے کہ امیٹھی کی ہوا اس بار بہت ٹائٹ ہے۔ دراصل لوگوں میں یہاں باتیں اسمرتی ایرانی کے تئیں ناراضگی سے زیادہ اپنی اس غلطی کے تئیں ہے جس کی وجہ سے راہل گاندھی گزشتہ مرتبہ یہاں انتخاب ہار گئے۔ امیٹھی کے انداز میں بولیں تو خاصہ عمر دراز اور پیشہ سے غالباً ٹیچر پانڈے جی (لوگ اسی نام سے بات کر رہے تھے) کی بات میں ایک ’راز‘ بھی منکشف ہوتا ہے اور دَم بھی نظر آتا ہے کہ– ’’کوئی مانے یا نہ مانے، بٹیا تو پچھلی دفعہ ہی کشوری کو بول دی تھیں کہ اگلی بار ’پیادے کو پیادے سے ہی پٹوائیں گے‘... اور اب شاید وہ وقت آ گیا ہے۔‘‘ ان کا اشارہ شاید پرینکا گاندھی کی طرف تھا۔ امیٹھی واقعی ٹائٹ ہے۔ نتیجہ جدھر بھی جائے، لڑائی بہت کانٹے کی ہونے جا رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔