منافرت کے سوداگروں پر ’انڈیا‘ کا شکنجہ... سراج نقوی

حیرت کی بات یہ ہے کہ جو میڈیا اپنی حیثیت درباری، سرکاری اور اشتہاری کر چکا ہو اس کو ’انڈیا‘ کے مذکورہ فیصلے پر پریس کی آزادی یاد آ رہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سراج نقوی

اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد ’انڈیا‘ نے اپنے ایک غیر معمولی فیصلے میں ٹی وی چینلوں کے ایسے 14 نیوز اینکروں کے ٹی وی مباحثوں میں اپنے ترجمان نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے کہ جو اپنے چینلوں کو صرف حکمرانوں کی مدح سرائی کا اشتہار بنائے ہوئے ہیں۔ جو مختلف اپوزیشن پارٹیوں کے ترجمانوں کو اپنے مباحثوں میں صرف اس لیے بلاتے ہیں کہ انھیں حکمراں جماعت کے ترجمانوں کے سامنے ذلیل کر کے حکومت یا بی جے پی کی واہ واہی حاصل کر سکیں۔ جن کے پروگراموں میں اپوزیشن پارٹی کے ایک ترجمان کے مقابلے کے لیے صرف بی جے پی کا ہی ترجمان نہیں ہوتا بلکہ کوئی مبینہ سیاسی تجزیہ نگار، کوئی حاشیہ بردار صحافی، کوئی وظیفہ خوار ماہر یا فرقہ پرست تنظیموں میں سے کسی کا نمائندہ بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ سب منصوبہ بند طریقے سے اپوزیشن پارٹی کے ترجمان کو گھیر کر ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جسے آزادانہ صحافت کا حصہ تو قطعی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ سلسلہ مودی سرکار آنے کے بعد سے ہی جاری ہے، لیکن اب سے پہلے تک اپوزیشن پارٹیاں متحد نہیں تھیں، اس لیے درباری میڈیا اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر پوری آزادی سے حکومت اور بی جے پی کی وظیفہ خواری کا حق ادا کر رہا تھا۔ اپوزیشن پارٹیاں اس خوف سے اس کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت اس لیے نہیں کر پا رہی تھیں کہ انھیں غیر متحد ہونے کے سبب اپنی اپنی کمزوریوں کا احساس تھا، لیکن جب سے ’انڈیا‘ کے نام سے اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد وجود میں آیا ہے، صورتحال بدل گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف حکمراں خیمے میں گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ ہے، وہیں دوسری طرف اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد نے اس میں شامل ہر پارٹی کو نئی توانائی بخش دی ہے۔ 14 منافرتی اینکروں کے بائیکاٹ کے ’انڈیا‘ کے فیصلے کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

جن ٹی وی اینکروں کے پروگراموں کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ ’انڈیا‘ نے کیا ہے، ان میں ’آج تک‘ اور’انڈیا ٹو ڈے‘ کے 2-2، ’نیوز18‘ کے بھی 2 اور باقی کئی چینلوں سے 1-1 اینکر کو اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ اپوزیشن اتحاد کے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے جو کچھ کہا اس پر بھی غور کر لیجیے۔ کھیڑا کا کہنا تھا کہ ’’ہر شام 5 بجے کچھ چینلوں پر نفرت کا بازار سج جاتا ہے۔ گزشتہ 9 سال سے یہی چل رہا ہے۔ الگ الگ پارٹیوں کے کچھ ترجمان ان بازاروں میں جاتے ہیں۔ کچھ ایکسپرٹ جاتے ہیں، کچھ تجزیہ نگار جاتے ہیں... لیکن سچ یہ ہے کہ ہم سب وہاں نفرت کے بازار میں گراہک کے طور پر جاتے ہیں۔‘‘ کھیڑا نے مزید کہا کہ ’’ہم نفرت بھرے narrative کو منظوری نہیں دے سکتے۔ یہ نریٹِو سماج کو کمزور کر رہا ہے۔ اگر آپ سماج میں نفرت پھیلاتے ہیں تو یہ تشدد کی شکل بھی اختیار کر لیتا ہے۔ ہم اس کا حصہ نہیں بنیں گے۔‘‘ کھیڑا کا یہ بیان ظاہر ہے ’انڈیا‘ اتحاد میں شامل تمام پارٹیوں کے موقف کا ترجمان ہے، اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ کئی نیوز چینلوں اور ٹی وی اینکروں نے 2014 کے بعد سے صرف حکمرانوں کی قصیدہ خوانی کا کام کیا ہے، اور کبھی بھی حکومت کو اس کے کسی فعل یا فیصلے پر آئینہ دکھانے یا اس کے کسی قدم پر سوال پوچھنے کا حوصلہ نہیں دکھایا۔


حیرت کی بات یہ ہے کہ جو میڈیا اپنی حیثیت درباری، سرکاری اور اشتہاری کر چکا ہو اس کو ’انڈیا‘ کے مذکورہ فیصلے پر پریس کی آزادی یاد آ رہی ہے۔ ’انڈیا‘ کے فیصلے پر چند ردعمل اس بات کا ثبوت ہیں کہ فیصلے کی مخالفت کرنے والے وہی زبان بول رہے ہیں جو وزیر اعظم مودی، ان کے درباری یا بی جے پی کے مردہ ضمیر ترجمان بولتے رہے ہیں۔

اے بی پی نیٹ ورک کے سی ای او اور این بی ڈی اے کے صدر اویناش پانڈے ’انڈیا‘ کے فیصلے سے اس حد تک چراغ پا ہیں کہ انھوں نے اسے ’میڈیا کا گلا گھونٹنے والا فیصلہ‘ قرار دیا ہے۔ نیوز چینلوں کی تنظیم نے بھی ’انڈیا‘ کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ ظاہر ہے جب تمام چینل ’مودی منتر‘ پڑھنے کو ہی صحافت مان بیٹھے ہوں تو انھیں اپوزیشن پارٹیوں کا فیصلہ برا لگے گا ہی۔ اس لیے کہ اس کا اثر ان کی منافرت کی دکان پر بھی پڑنے کا امکان ہے۔ این بی ڈی اے کا کہنا ہے کہ ’انڈیا‘ کے فیصلے نے ایک خطرناک مثال پیش کی ہے۔ راقم حیران ہے کہ اس طرح کے بیانات دینے والوں نے شرم و غیرت کو کس حد تک بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ ایسا کہنے والوں کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ مسلسل کئی برس تک کسی حکومت اور پارٹی کی قصیدہ خوانی کرنے والوں کا بائیکاٹ اگر خطرناک مثال ہے تو  اس سے بھی زیادہ خطرناک مثال یہ ہے کہ ہمارے موجودہ وزیر اعظم نے گذشتہ 9 برس میں ملک میں ایک بھی پریس کانفرنس کا سامنا نہیں کیا۔ جبکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے مدعی ملک کے وزیر اعظم کو جمہوریت کے اس چوتھے ستون یعنی میڈیا کا سامنا کرنے اور ان کے سوالات کا جواب دینے کی ضرورت اس لیے تھی کہ یہ عمل ہماری 75 سال پرانی جمہوریت کی تاریخ کے ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ اگر وزیر اعظم کو اپنے ملک کے میڈیا پر بھروسہ نہیں تھا تو وہ دیگر ممالک کے دورے کے موقع پر میڈیا کا سامنا کر سکتے تھے لیکن انھوں نے اپنے حالیہ امریکہ دورے پر پریس کانفرنس میں صرف ایک سوال کا جواب دینے پر آمادگی ظاہر کر کے اور باقی سوالات سے دامن بچا کر یہ ثابت کیا کہ ان میں میڈیا کا سامنا کرنے کا شاید حوصلہ ہی نہیں ہے۔ اس کے باوجود اشتہاری اور درباری میڈیا ’انڈیا‘ کے فیصلے کو خطرناک مثال بتا رہا ہے اور وزیر اعظم کے پریس کانفرنس نہ کرنے پر لبوں پر مہر سکوت لگائے ہوئے ہے تو اس سے اس کی اوقات اور پست ہمتی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ’انڈیا‘ کے فیصلے پر معترض مذکورہ تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ’جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ یہ عدم رواداری کا اشارہ ہے اور پریس کی آزادی کو خطرے میں ڈالتا ہے۔‘ تعجب ہے کہ جن لوگوں یا تنظیموں کے سیاسی آقاؤں نے پریس کی آزادی کا گلا گھونٹ دیا، جن کے دور میں بے شمار حکومت مخالف بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ غیر جانبدار  صحافیوں کو بغیر مقدمہ چلائے کئی کئی ماہ جیلوں میں رکھا گیا، ان پر بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے۔ کئی صحافیوں کو غیر ممالک جانے سے نہ جانے کس خوف کے تحت روک دیا گیا۔ کئی صحافیوں کا ہندوتو وادی تنظیموں کے ذریعہ قتل کر دیا گیا، ان کی حمایت کرنے والے اور صحافت کے نام پر حکومت کی محض چاکری کرنے والے ’انڈیا‘ اتحاد کے فیصلے کو جمہوری اقدار کے خلاف بتا رہے ہیں۔ اس فیصلے کو ’آمرانہ قدم‘ بتا کر اپنی بوکھلاہٹ ظاہر کر رہے ہیں۔ سب سے دلچسپ اور شرمناک رد عمل سدھیر چودھری کا ہے جن کے خلاف چند روز قبل ہی کرناٹک کی کانگریس حکومت نے اس الزام کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے کہ چودھری نے اپنے ایک پروگرام میں کرناٹک حکومت کے ایک منصوبے کو صرف مسلمانوں سے جوڑ کر ریاست کے ہندوؤں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی تھی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ منصوبے میں جن زمروں کے افراد کو شامل کیا گیا ہے ان میں اکثریت غیر مسلموں، دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کی ہے۔ ظاہر ہے یہ سب چیزیں ریکارڈ پر ہیں اور ان کے خلاف کسی اینکر کا حکومت کے فیصلے پر سوال اٹھانا صرف حکومت مخالف نہیں بلکہ عوام مخالف اور عوام کے درمیان مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلانے والا عمل ہے۔ ایسا بے ضمیر اور صحافی نما دلال اگر ’انڈیا‘ کے فیصلے کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بناتا ہے کہ ’انڈیا اتحاد کے سامنے جو صحافی اور نیوز اینکر ڈٹ کر کھڑے رہے، جنھوں نے ’چرن چمبک‘ بننے سے انکار کر دیا، اب ان کا بائیکاٹ ہوگا‘ تو اس کی عقل پر رحم آتا ہے۔ چودھری نے اس صورتحال کو خطرناک بھی قرار دیا ہے۔ کیا اس سے زیادہ بے غیرتی بھی ہو سکتی ہے کہ کسی منتخب ریاستی حکومت کے کسی ریکارڈ پر موجود فلاحی منصوبے کے تعلق سے کھلے عام ٹی وی چینل پر جھوٹ بولا جائے اور جب ایسے اینکر اور اس جیسے دیگر دلال صحافیوں کا بائیکاٹ کیا جائے تو اسے خطرناک قرار دے کر بے شرمی کا مظاہرہ بھی کیا جائے۔ شاید حکمرانوں نے اپنے حامی میڈیا کو گذشتہ 9 برس میں یہی سکھایا ہے کہ حکومت مخالف کسی بھی قدم کی پذیرائی نہ کی جائے۔ حکومت پر ہونے والی ہر تنقید کا رخ نہرو، اندرا گاندھی یا راجیو گاندھی کی طرف موڑ کر جائز سوالوں سے راہ فرار اختیار کی جائے، اور منافرت کے ایجنڈے کو آگے بڑھا کر فاشسٹوں کی ہر جائز و ناجائز معاملے میں حمایت کی جائے۔ خواہ اس سے جمہوریت کو کتنا بھی نقصان پہنچے۔ یہی سبب ہے کہ میڈیا کے اس رخ کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن اتحاد نے ایسے ٹی وی اینکروں کے بائیکاٹ  یا ان پر شکنجہ کسنے کا فیصلہ کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔