ہندوستان ’ہندتوا‘ نہیں، گنگا-جمنی تہذیب کا ملک ہے اور رہے گا

ہزاروں سال سے گنگا جمنی تہذیب میں ڈوبے اس ہندوستان کا دل و دامن اس قدر وسیع رہا ہے کہ اس نے ایک اسلام ہی نہیں دنیا کے ہر مذہب کے ماننے والوں کو پناہ دی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

ارے صاحب، ایک ہنگامہ، قیامت، شور! ہندوستانی ٹی وی نے پہلے کانگریس پارٹی کو کلمہ پڑھوا دیا اور اس مباحثہ میں کچھ لوگ تو اس قدر آگے بڑھ گئے کہ ان کی باتوں سے یہ لگنے لگا کہ گویا راہل گاندھی خود مسلمان ہو گئے۔ لیکن یہ ہنگامہ آرائی کیوں! محض اس بات پر کہ کانگریس صدر راہل گاندھی نے ایک مسلم گروپ سے ملاقات کر لی اور ان سے گفتگو کے دوران یہ کہہ دیا کہ ’’کانگریس مسلمانوں کی بھی پارٹی ہے۔‘‘ بس قیامت ٹوٹ پڑی۔ بی جے پی نے بات کا بتنگڑ بنا دیا اور ٹی وی چینل اس بات کو لے اڑے۔ جہاں تک ٹی وی کا سوال ہے تواب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ میڈیا کے رول کو ترک کر بی جے پی کی زرخرید غلامی کا رول ادا کرتا ہے۔

لیکن تقریباً دو دنوں تک چلنے والے اس مباحثہ میں کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ کیا مسلمان اس ملک کے شہری نہیں ہیں! کیا اس ملک کی ہر پارٹی کا یہ فرض نہیں ہےکہ وہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اور بھلا کانگریس پارٹی مسلمانوں کے حقوق کی بات کیوں نہ کرے! یہ وہی کانگریس پارٹی ہے جس کے لیے مسلمانوں نے اپنا خون دیا ہے۔ آزادی سے قبل طیب جی اور مولانا ابوالکلام آزادجیسے جیلوں میں زندگی کاٹنے والے لیڈران اسی کانگریس پارٹی کے صدر رہے۔ ایک کانگریس قائد تھا جس کا نام تھا خان عبدالغفار خان، جس کو بلوچ بادشاہ خان کہتے تھے۔ اسی خان کا دوسرا نام تھا سرحدی گاندھی کیونکہ وہ گاندھی جی کے لیے اپنی جان نچھاور کرنے کو ہر وقت تیار رہتا تھا۔

یوں تو بھارتیہ جنتا پارٹی کو تاریخ سے کچھ لینا دینا نہیں، لیکن اس دور میں سمبت پاترا جیسے بی جے پی والوں کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ جس وقت اس ملک کے بٹوارے پر کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں بحث ہو رہی تھی تو ملک کے بٹوارے کے خلاف اس وقت کی کانگریس ورکنگ کمیٹی میں صرف دو آوازیں تھیں، اور ان کا نام تھا خان عبدالغفار خان اور مولانا ابوالکلام آزاد۔ یہاں یہ بھی یاد دلا دیا جائے کہ بٹوارے کے معاملے پر جو ریزولوشن پاس ہوا اس پر محض دو ووٹ مخالفت میں تھے اور وہ دونوں ووٹ مولانا آزاد اور خان عبدالغفار خان کے تھے، اور وہ دونوں ہی مسلمان تھے۔

بہادر شاہ ظفر سے لے کر مولانا آزاد تک اس ملک کی جنگ آزادی میں اپنی جان تک کی بازی لگانے والے ہزارہا مسلمانوں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ پھر محمد رفیع جیسے گلوکار سے لے کر میزائل مین اور سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام تک نہ جانے کتنے مسلمان ہیں جن کے بغیر ہندوستان کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آج یہ عالم ہے کہ اس ملک میں کانگریس کو مسلم ایشوز پر بات کرنے کے لیے نکو بنایا جا رہا ہے۔ کیا بی جے پی یہ کہنا چاہتی ہے کہ ہندوستان محض ہندوؤں کا دیش ہے۔

بات تو یہی ہے کہ بی جے پی کو ہندو راشٹر چاہیے جو آر ایس ایس کا خواب ہے اور جس کی تعبیر کے لیے نریندر مودی کو وزیر اعظم بنایا گیا ہے۔ لیکن اس ملک کی ہندو اکثریت کو خود بھی یہ منظور نہیں کہ ہندوستان ایک ہندو راشٹر بنا دیا جائے۔ اور راقم الحروف یہ بات محض یوں ہی نہیں کہہ رہا ہے۔ سنہ 2014 کے انتخابی اعداد و شمار اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ اکثریت (جس میں سب سے بڑی تعداد خود ہندوؤں کی ہے) نے بی جے پی کے خلاف ووٹ ڈالا تھا۔ پچھلے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو محض 31 فیصد ووٹ پڑے تھے جب کہ 69 فیصد ووٹ بی جے پی کے خلاف پڑے تھے۔ کیونکہ 69 فیصد ووٹ مختلف پارٹیوں میں بٹ گئے اس وجہ سے مودی وزیر اعظم بن گئے۔ آج بھی نریندر مودی اور آر ایس ایس ہندو راشٹر کے کتنے خواب دیکھ لے، لیکن یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے والا ہے، کیونکہ چند ٹی وی اینکر اور سمبت پاترا جیسے ٹی وی پر شور مچانے والے چند بی جے پی کے لوگ اس ملک کی آتما کو نہیں بدل سکتے ہیں۔

ہزاروں سال سے گنگا-جمنی تہذیب میں ڈوبے اس ہندوستان کا دل و دامن اس قدر وسیع رہا ہے کہ اس نے ایک اسلام کیا بلکہ دنیا کے ہر مذہب کے ماننے والوں کو پناہ دی ہے۔ کیونکہ اس ملک کا ہندو بی جے پی کے ہندوتو میں یقین نہیں رکھتا ہے بلکہ اس کا یقین ان ویدوں اور پرانوں میں ہے جو ہر عقیدے کا احترام کرنے کا سبق دیتے ہیں۔ اس لیے بی جے پی ٹی وی پر بیٹھ کر کتنا ہی شور کیوں نہ مچا لے لیکن وہ رنگا رنگ ہندوستان کو بدل نہیں سکتی ہے۔

بس کانگریس پارٹی اور بی جے پی میں یہی فرق ہے۔ کانگریس ہندوستانی گنگا-جمنی تہذیب میں ڈوبی ویدوں اور پرانوں میں عقیدہ رکھتی ہے اور ہندوستان کی طرح اس کا دامن بھی وسیع ہے۔ یہ کانگریس میں ہی ممکن ہے کہ اس میں ایک گاندھی جیسی ہندو مذہب میں عقیدہ رکھنے والی شخصیت مولانا ابوالکلام آزاد جیسے مسلمان کے کاندھے سے کاندھا ملا کر چل سکتی ہے۔ راہل گاندھی اسی ہندوستانی تہذیب اور ہندو روایت کے علمبردار ہیں۔ تب ہی تو وہ ہر ہندوستانی کو اپنے دل میں جگہ دینے کو تیار ہیں۔ خواہ اس کا مذہب یا ذات کچھ بھی ہو۔ اگر وہ ہندوستانی ہے تو بس وہ راہل گاندھی کے لیے قابل احترام ہے۔

اس کے برخلاف بی جے پی کی تنگ دامنی کا یہ عالم ہے کہ وہ راہل گاندھی کے ایک جملے پر آگ بگولہ ہو اٹھتی ہے لیکن جملوں کی یہ پارٹی خواہ کچھ بھی کیوں نہ کر لے وہ اس ملک کو ایک ہندو پاکستان نہیں بنا سکتی ہے۔ کیونکہ خود اس ملک کی ہندو اکثریت کو یہ منظور نہیں کہ وہ محض ماضی میں جیے۔ اس ملک کی ہندو اکثریت کو ایک جدید ہندوستان چاہیے جہاں ہر ہندوستانی شہری، خواہ وہ کسی مذہب یا ذات سے ہو، وہ پھل پھول سکے۔ بس یہی کانگریس پارٹی اور کانگریس صدر راہل گاندھی کا بھی عقیدہ ہے جو انھوں نے مسلم گروہ سے ملاقات کے دوران دہرایا تھا۔ اب سمبت پاترا جیسے لوگ اس پر کتنے ہی شور مچائیں اور ٹی وی جتنا چاہے تالی بجائے، یہ سب مل کر ہندوستان کی آتما کو نہیں بدل سکتے۔ کیونکہ ہندوستان ایک گنگا جمنی تہذیب کا ملک تھا، ہے اور رہے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔